اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کے اراکین نے میانمار میں مسلح افواج کی جانب سے نہتے شہریوں پر تشدد کی شدید مذمت کی ہے۔
اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کے اراکین کی اکثریت نے میانمار میں مسلح افواج کی جانب سے عوام پر تشدد کی مذمت کی ہے۔
چین اور روس کے علاوہ باقی اراکین نے مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ دسمبر 2022 میں میانمار کی حکمران فوج سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ عوام کے خلاف تشدد آمیز سلوک بند کرکے سیاسی قیدیوں خصوصا سابق حکمران پارٹی کی خاتون رہنما آنگ سان سوچی کو آزاد کیا جائے تاہم اس حوالے سے ابھی تک قابل ذکر پیشرفت نہیں ہوئی ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ میانمار میں 18 ملین لوگ امداد کے محتاج ہیں۔ فوجی حکمران فوری طور پر ان کی ضرورت پوری کریں۔ ملک کی سیاسی جماعتوں کو آزادی دے کر انسانی حقوق کے حوالے سے بہتری لائی جائے۔
میانمار میں فوج نے آن سانگ سوچی کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر 2021 میں اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا۔
بین الاقوامی طور پر میانمار کی فوجی حکومت کے ساتھ مذاکرات کی ناکامی کے بعد جنرل ہالئنگ پر مختلف ممالک کی جانب سے پابندی عائد کی گئی تھی۔ میانمار کے دس ہمسایہ ممالک پر مشتمل تنظیم نے میانمار پر پابندی لگادی تھی۔
میانمار میں مسلمانوں کے خلاف بھی بل منظور کرکے کاروائی کی گئی۔ اپنے ملک میں شہریت سے محروم ہونے کے بعد 2017 میں فوج کی جانب سے مسلمان اقلیتوں پر حملے کئے گئے۔ رخائن صوبے میں بدھ مت کے انتہا پسندوں نے فوج کی مدد سے مسلمان آبادی پر حملے کئے۔ گھروں کو نذر آتش کرنے کی وجہ سے 9 لاکھ مسلمان ہمسایہ ملک بنگلہ دیش ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں نے مسلمانوں کے خلاف ہونے والی کاروائیوں کو نسل کشی قرار دیا۔
اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کے اراکین کی اکثریت نے میانمار میں مسلح افواج کی جانب سے عوام پر تشدد کی مذمت کی ہے۔
چین اور روس کے علاوہ باقی اراکین نے مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ دسمبر 2022 میں میانمار کی حکمران فوج سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ عوام کے خلاف تشدد آمیز سلوک بند کرکے سیاسی قیدیوں خصوصا سابق حکمران پارٹی کی خاتون رہنما آنگ سان سوچی کو آزاد کیا جائے تاہم اس حوالے سے ابھی تک قابل ذکر پیشرفت نہیں ہوئی ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ میانمار میں 18 ملین لوگ امداد کے محتاج ہیں۔ فوجی حکمران فوری طور پر ان کی ضرورت پوری کریں۔ ملک کی سیاسی جماعتوں کو آزادی دے کر انسانی حقوق کے حوالے سے بہتری لائی جائے۔
میانمار میں فوج نے آن سانگ سوچی کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر 2021 میں اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا۔
بین الاقوامی طور پر میانمار کی فوجی حکومت کے ساتھ مذاکرات کی ناکامی کے بعد جنرل ہالئنگ پر مختلف ممالک کی جانب سے پابندی عائد کی گئی تھی۔ میانمار کے دس ہمسایہ ممالک پر مشتمل تنظیم نے میانمار پر پابندی لگادی تھی۔
میانمار میں مسلمانوں کے خلاف بھی بل منظور کرکے کاروائی کی گئی۔ اپنے ملک میں شہریت سے محروم ہونے کے بعد 2017 میں فوج کی جانب سے مسلمان اقلیتوں پر حملے کئے گئے۔ رخائن صوبے میں بدھ مت کے انتہا پسندوں نے فوج کی مدد سے مسلمان آبادی پر حملے کئے۔ گھروں کو نذر آتش کرنے کی وجہ سے 9 لاکھ مسلمان ہمسایہ ملک بنگلہ دیش ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں نے مسلمانوں کے خلاف ہونے والی کاروائیوں کو نسل کشی قرار دیا۔