فرانس نے کالجوں میں عبایا پہننے پر پابندی لگادی گئی
اس مختصر خبر نے بڑا ہنگامہ مچایا ہے؛ فرانس کے تیس سالہ وزیر نے جس کو حال میں ہی نوجوانوں اور قومی تعلیم و تربیت کے امور کی وزارت ملی ہے، سیکولرزم کے اصولوں کی پابندی پر زور دیتے ہوئے ، کالجوں میں عبایا پہننے پر پابندی لگادی ہے۔
شیئرینگ :
مسلمانوں کی سب سے زیادہ آبادی والے یورپی ملک فرانس میں مسلمانوں کو سب سے زیادہ امتیازی سلوک اور پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تازہ ترین اقدام میں فرانس کے کالجوں میں عبایا پہننے پر پابندی لگادی گئی ہے۔
اس مختصر خبر نے بڑا ہنگامہ مچایا ہے؛ فرانس کے تیس سالہ وزیر نے جس کو حال میں ہی نوجوانوں اور قومی تعلیم و تربیت کے امور کی وزارت ملی ہے، سیکولرزم کے اصولوں کی پابندی پر زور دیتے ہوئے ، کالجوں میں عبایا پہننے پر پابندی لگادی ہے۔
گیبریل اتل (Gabriel Attal) نے اپنی پہلی پریس کانفرنس میں اس چیز کے مقابلے میں اتحاد کی دعوت دیتے ہوئے، جس کو انھوں نے سیکولرزم پر حملے سے تعبیر کیا، کہا کہ یہ اتحاد شفاف ہونا چاہئے، فرانس کے کالجوں میں عبایا کی کوئی جگہ نہیں ہے۔
انھوں نے یہ کہتے ہوئے کہ " ہمارے کالج آزمائے جاچکے ہیں"قابل غور بیان دیتے ہوئے مذہبی لباس پہننے کو سیکولرزم پر حملے سے تعبیر کیا اور کہا کہ حالیہ مہینوں میں سیکولرزم پر اس طرح کے حملوں میں ، بالخصوص عبایا اور لمبی قمیص کی شکل میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
فرانس میں مسلمانوں کو امتیازی سلوک اور پابندیوں کا سامنا کافی عرصے سے ہے۔ حجاب پر پابندی کا قانوں دوسرے ہزارے کے ابتدائي برسوں میں نافذ کیا گیا۔
2004 میں فرانسیسی پالیمنٹ نے ایک بل پاس کرکے سرکاری تعلیمی اداروں میں خواتین کے حجاب پر پابندی لگادی ۔ انفرادی آزادی کے منافی اس قانون پر اسی وقت اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے سخت تنقید کی اور اس کو " تعلیمی اداروں اور دفاتر سے باہر باحجاب خواتین کے تعلق سے عدم تحمل اور عداوت و دشمنی بڑھنے کا موجب " قرار دیا ۔
فرانس میں حجاب پر پابندی نے اس قانون کے مخالفین اور موافقین کے درمیان بحث شروع کردی ہے ۔ اس قانون کے حامی کہتے ہیں کہ یہ پابندی ملک کو انتہا پسندی سے بچاتی ہے لیکن مخالفین کا کہنا ہے کہ اس قانون کے پس پردہ ہدف فرانس میں مسلمانوں کے خلاف دشمنی اور عداوت بڑھانا ہے۔