جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر حسین امیر عبد اللہیان کی مختلف عہدیداروں اور اپنے ہم منصبوں سے ملاقات
وزیر خارجہ امیر عبد اللہیان نے اس ملاقات میں کہا : لبنانیوں کے فیصلے کی بنیاد پر لبنان میں سیاسی عمل میں مدد کے لئے ہم تذبذب نہيں کریں گے۔
شیئرینگ :
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر نیویارک میں موجود اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبد اللہیان کی مختلف عہدیداروں اور اپنے ہم منصبوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے ۔
ایران کے وزير خارجہ لبنان کے اپنے ہم منصب عبد اللہ بو حبیب سے ملاقات میں باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا۔
اس ملاقات میں لبنان کی تازہ سیاسی صورت حال پر بھی تبادلہ خیال کیا گيا۔
وزیر خارجہ امیر عبد اللہیان نے اس ملاقات میں کہا : لبنانیوں کے فیصلے کی بنیاد پر لبنان میں سیاسی عمل میں مدد کے لئے ہم تذبذب نہيں کریں گے۔
انہوں نے فلسطین اور اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے لبنان اور فلسطین میں مزاحمت کی ہمیشہ حمایت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ تمام اسلامی ملکوں کی طرف سے فلسطین کی حمایت ضروری ہے۔
اس ملاقات میں لبنان کے وزير خارجہ نے بھی لبنان کی تازہ صورت حال بیان کی اور اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے لبنان کی تعمیری حمایت پر شکریہ ادا کیا۔
وزیر خارجہ نے اسی طرح جنوبی افریقہ کی اپنی ہم منصب کے ساتھ ملاقات میں اس بات کا ذکر کیا کہ صدر ایران جنوبی افریقہ کے سرکاری دورے کی تیاری کر رہے ہيں اور اس کے ساتھ انہوں نے اپنی ہم منصب کو ایران کے دورے کی دعوت دی۔
وزیر خارجہ حسین امیر عبد اللہیان نے " نالدی پانڈور" سے ملاقات میں برکس کے کامیاب اجلاس پر انہيں مبارک باد پیش کی اور اس تنظیم میں ایران کی رکنیت کی بھرپور حمایت پر ان کا شکریہ ادا کیا۔
انہوں نے کہا: ہمارے لئے جنوبی افریقہ کے ساتھ تعلقات ایک بے حد اہم ترجیح ہے اور ہم اس ملک کے ساتھ تعلقات میں توسیع کے لئے کسی حد کے قائل نہيں ہیں۔
جنوبی افریقہ کی وزیر خارجہ نے بھی اس ملاقات میں برکس میں ایران کی رکنیت پر اظہار مسرت کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے دو طرفہ تعلقات کی اچھی بنیاد رکھی ہے اور اب اسے توسیع دینا ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ نے اسی طرح نیویارک میں شام کے نائب وزیر خارجہ بسام صباغ سے ملاقات میں باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا۔
ایرانی وزیر خارجہ کی اقامت گاہ پر ہونے والی اس ملاقات میں حسین امیر عبد اللہیان نے اپنے حالیہ دورہ شام کا ذکر کرتے ہوئے اس ملک کے صدر، وزير اعظم اور وزیر خارجہ سے اپنے مذاکرات کو مفید قرار دیا اور کہا کہ بڑی اچھی بات ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعاون اعلی سطح پر جاری ہے۔
انہوں نے شام میں امن و پائیداری کے قیام کے لئے تمام فریقوں کی حمایت اور شام کی ارضی سالمیت کے احترام پر زور دیا اور کہا کہ اقوام متحدہ سمیت تمام عالمی اداروں میں ایران، شام کی اصولی حمایت جاری رکھے گا۔
اس ملاقات میں شام کے نائب وزیر خارجہ صباغ بھی نے خاص طور پر عالمی اداروں میں ایران و شام کے تعاون پر اظہار مسرت کرتے ہوئے کہا کہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ کچھ مغربی ملک، عالمی اداروں کو اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ نے اسی طرح اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے چیئرمین ڈینس فرانسس سے ملاقات میں کہا: مختلف ملکوں کی طرف سے آج کثیر جہتی دنیا پر توجہ ایک اہم حقیقت ہے اور اس تناظر میں آپ کا کردار بے حد اہم ہے اور یہ بہت اہم بات ہے کہ ترقی پزیر ملکوں کو یہ محسوس ہو کہ جنرل اسمبلی میں ان کی آواز سنی جا رہی ہے۔
وزير خارجہ نے کہا کہ ہم چونکہ ایران میں انسانی، دینی اور اخلافی اقدار کے لئے کوشاں ہيں اس لئے ہم یہاں پر یہ زور دینا چاہتے ہيں کہ ہم جنگ کو مختلف ملکوں کے درمیان پیدا ہونے والے مسائل کا حل نہیں سمجھتے اور ہمارا ماننا ہے کہ اختلافات اور بحرانوں کو مذاکرات سے حل کیا جانا چاہیے۔ اسی طرح فلسطین قوم کا مستقبل ہمارے لئے اہم ہے اور ہمارا خیال ہے کہ اقوام متحدہ کو فلسطینیوں کے حقوق کی بازیابی پر خاص توجہ دینی چاہیے۔
اس ملاقات میں ڈینس فرانسس نے بھی ایران کی قدیم تہذیب و تمدن کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ایسے حالات میں کہ جب بے شمار کشیدگی اور اختلافات کے دوران سب اپنے موقف پر زور دیتے ہیں، ہماری کوشش ہوتی ہے کہ اس تنوع کا احترام کریں اور مسائل کے حل میں مدد کريں۔ ہماری کوشش ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اعتماد کی بحالی اور عالمی مسائل کے حل میں مدد کریں، یہ کام آسان نہيں لیکن ہم کوشش کریں گے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے وزير خارجہ نے اسی طرح اکواڈور کے اپنے ہم منصب سے ملاقات میں باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا۔
یہ ملاقات نیویارک میں ایرانی وزیر خارجہ کی اقامت گاہ پر ہوئی۔
آج پاکستان کے مختلف شہروں میں شیعہ مسلمانوں نے مظاہرے کرکے، پارا چنار کے عوام پر تکفیری دہشت گردوں کے تازہ حملے کی مذمت کرتے ہوئے حکومت اور فوج سے اس حملے کے عوامل ...