شہید صدر رئیسی کے ہیلی کاپٹر سانحے کی ہونے والی تحقیقات کے سلسلے کی دوسری رپورٹ جاری
اس رپورٹ کے ایک اور حصے میں آیا ہے کہ صدر کے ہیلی کاپٹر کے مرمت کے دستاویزات کو بھی باریک بینی کے ساتھ دیکھا گیا۔ ان دستاویزات میں کوئی بھی ایسا مسئلہ دکھائی نہیں دیا گیا جو کہ اس سانحے کی وجہ بنا ہو۔
شیئرینگ :
ایران کی مسلح افواج کے کمان نے صدر کے ہیلی کاپٹر سانحے کی ہونے والی تحقیقات کے سلسلے کی دوسری رپورٹ جاری کردی۔
مسلح افواج کے کمان نے 29 مئی سن 2024 بروز بدھ، صدرآیت اللہ سید ابراہیم رئیسی اور ان کے ساتھیوں کو لے جانے والے ہیلی کاپٹر کے ساتھ پیش آنے والے سانحے کی تحقیقات کے سلسلے کی دوسری رپورٹ جاری کردی۔
اس رپورٹ میں درج ہے کہ 19 مئی سن 2024 کی محکمہ موسمیات کے مطابق صبح 8 بج کر 50 منٹ تک صدر کی فلائٹ کے لئے موسم مناسب مکمل طور پر مناسب تھا لیکن واپسی کی پرواز کے وقت کے موسم کے بارے میں مزید تحقیقات کی ضرورت ہے جس کی جانچ دستاویزات اور دوسرے دو پائلٹس کے بیانات کے مطابق کی جا رہی ہے۔
اس رپورٹ کے ایک اور حصے میں آیا ہے کہ صدر کے ہیلی کاپٹر کے مرمت کے دستاویزات کو بھی باریک بینی کے ساتھ دیکھا گیا۔ ان دستاویزات میں کوئی بھی ایسا مسئلہ دکھائی نہیں دیا گیا جو کہ اس سانحے کی وجہ بنا ہو۔
رپورٹ میں درج ہے کہ ہیلی کاپٹر میں سوار مسافروں کی تعداد اور وسائل کا حجم ہیلی کاپٹر کے اسٹینڈرڈ کے مطابق تھا اور فلائٹ کی تمام مدت میں اسٹینڈرڈ وزن کا خیال رکھا گیا تھا۔
ایران کی مسلح افواج کی خصوصی انویسٹیگیشن ٹیم کی جانب سے جاری شدہ رپورٹ میں آیا ہے کہ تباہ شدہ ہیلی کاپٹر کے کرو اور باقی دو ہیلی کاپٹروں کے مابین پیغامات، حادثے سے 69 سیکنڈ پہلے تک جاری تھے اور کسی بھی قسم کے ہنگامی صورتحال کا میسج رکارڈ نہیں ہوا ہے۔
رپورٹ میں آیا ہے کہ سانحے میں مبتلا ہیلی کاپٹر کے ملبے، اور اصل باڈی سے جتنی دور اس کے پرزے اور حصے گرے ہیں، فلائٹ کے دوران یا حادثے سے چند لمحے قبل کسی بھی تباہ کارانہ اقدام کے تحت دھماکے کے امکان کو مسترد کیا جاتا ہے۔
مسلح افواج کی انویسٹیگیشن ٹیم کی رپورٹ کے مطابق، پورے سفر کے دوران اور واقعے سے 69 سیکنڈ قبل تک تمام فریکوینسیاں بحال تھیں اور آخری پیغام بھی ہیلی کاپٹر گروپ کمانڈر (شہید مصطفوی) کی جانب سے جاری ہوا تھا، لہذا کسی بھی قسم کے فریکوینسی انٹروینشن کے امکان کو بھی مسترد کیا جاتا ہے۔
ماہرین کے مطابق، الیکٹرانک حملے کے امکان کی مکمل تحقیقات بھی کی گئیں لیکن ای- وار کے آثار بھی دکھائی نہیں دئے گئے۔