شام میں بشار اسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد بے یقینی
اس وقت جو سوالات اہمیت اختیار کر چکے ہیں، وہ تحریر الشام کے گروہ کے بارے میں ہیں، جو ایک طویل تاریخ رکھتا ہے اور دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث رہا ہے۔ یہ واقعات ایسے نہیں ہیں جو وقت کے ساتھ علاقے کے عوام اور خاص طور پر شام کے عوام کی یاد سے محو ہوجائیں
شیئرینگ :
شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد ملک کے سیاسی افق پر غیریقینی کے گہرے بادل منڈلا رہے ہیں۔
گذشتہ دنوں شام میں ہونے والی تبدیلیوں کے پس منظر میں جہاں حکومت کا نظام تبدیل ہو رہا ہے اور دہشت گرد گروپوں کی طاقت زور پکڑ رہی ہے وہاں اس ملک کے مستقبل کے حوالے سے متعدد ابہامات پیدا ہو چکے ہیں۔
اس وقت جو سوالات اہمیت اختیار کر چکے ہیں، وہ تحریر الشام کے گروہ کے بارے میں ہیں، جو ایک طویل تاریخ رکھتا ہے اور دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث رہا ہے۔ یہ واقعات ایسے نہیں ہیں جو وقت کے ساتھ علاقے کے عوام اور خاص طور پر شام کے عوام کی یاد سے محو ہوجائیں۔
حال ہی میں ایک نیا پہلو سامنے آیا ہے جس میں تحریر الشام کے رہنما ابو محمد الجولانی نے اپنی تنظیم اور اپنے گروہ کی ایک معتدل اور مثبت شبیہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے، جو کہ اس گروہ کے ماضی سے زمین و آسمان کا فرق رکھتی ہے۔
چند دن پہلے، جب الجولانی کی قیادت میں تکفیری دہشت گرد حماہ شہر میں داخل ہوئے، تو الجولانی نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ حماہ پر قبضہ مبنی عمل ہوگا۔ ان کا انتقام کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ اسی دوران الجولانی نے ایک اور موقع پر عراق کے وزیرِ اعظم محمد شیاع السودانی کے جواب اپنے خطاب میں کہا کہ تحریر الشام کا عراق کے حوالے سے کوئی جارحانہ ارادہ نہیں ہے۔
اس کے بعد تحریر الشام کے رہنما نے سی این این کو ایک خصوصی انٹرویو دیا جس میں انہوں نے ایران کے ساتھ اپنے گروہ کے تعاملی روئیے کا ذکر کیا اور یہ بھی کہا کہ وہ شام کے ہمسایوں کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر شام میں بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ ہوتا ہے تو وہ ایک نئے حکومتی نظام کے قیام تک اس ملک کے معاملات کو ایک مثبت اور معتدل انداز میں چلانا چاہتے ہیں۔
اس سب کے باوجود اب یہ سوالات پیدا ہو چکے ہیں کہ آیا ایک دہشت گرد گروہ جس کا ماضی اتنا متنازعہ اور خونریز ہے شام پر حکومت کر سکتا ہے؟ کیا اس گروہ کو ماضی کی دہشت گردانہ کارروائیوں کے باوجود دہشت گرد نہ سمجھا جائے؟ اور کیا یہ قابل قبول ہوگا کہ ایک دہشت گرد گروہ صرف اپنے رویے میں کچھ تبدیلیاں لا کر ایک ملک میں سیاسی طور پر ایک باضابطہ جماعت بن جائے؟
ابو محمد الجولانی: البغدادی کے نمائندے سے تحریر الشام کے قیام تک
اس موضوع پر تحقیق کے لئے پہلے گروہ کے سرغنہ کی شخصیت پر تحقیق لازمی ہے۔ تحریر الشام کے سربراہ ابو محمد الجولانی جس کا اصلی نام احمد الشرع ہے، 1982 میں سعودی عرب کے شہر ریاض میں پیدا ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کا لقب "الجولانی" ان کے خاندان کے نام سے آیا ہے، جو شام کے جولان علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔
الجولانی نے اپنی دہشت گردانہ سرگرمیاں 2000 میں القاعدہ میں شمولیت کے ساتھ شروع کیں۔ 2003 میں کئی سالوں تک اس گروہ میں کام کرنے کے بعد وہ "سریہ المجاہدین" نامی ایک دہشت گرد گروہ میں شامل ہوئے جو القاعدہ کی عراق میں ذیلی شاخ تھا۔
الجولانی کو 2006 میں امریکیوں نے عراق میں گرفتار کیا تھا اور 2010 میں رہا کر دیا گیا۔ اس رہائی کے بعد 2011 میں جب وہ شام میں دہشت گرد گروپوں میں شامل ہوئے۔ یہ واقعہ اس بات کا غماز تھا کہ امریکہ کا خطے میں کردار بالخصوص مزاحمتی محور کے خلاف کتنا واضح اور منفی تھا۔
الجولانی 2011 میں عراق میں داعش کے سربراہ ابو بکر البغدادی کے نمائندے کے طور پر سرگرم تھے اور بعد میں انہوں نے النصرہ فرنٹ تشکیل دی۔ 2013 میں داعش سے علیحدگی کے بعد وہ دوبارہ القاعدہ کے سربراہ سے بیعت کرکے اس گروہ میں شامل ہوگئے۔
2016 میں انہوں نے القاعدہ سے لاتعلقی کا اعلان کیا اور فتح الشام گروپ قائم کیا، جس کا نام 2017 میں "تحریر الشام" رکھا گیا۔ اس گروہ نے شام کی موجودہ تبدیلیوں میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس سے پہلے ترکی کی حمایت سے فائدہ اٹھا کر روس کی ثالثی کے ذریعے بشار الاسد کی حکومت کے ساتھ جنگ بندی کی حالت میں تھا۔
جنگ کے بعد شام کی صورتحال
حالیہ دنوں میں تحریر الشام کے دہشت گرد گروہ کی طاقت میں اضافے اور دمشق کے سقوط کے ساتھ علاقے کے ممالک اب اپنی سرحدوں کے قریب نئے چیلنجز کا سامنا کررہے ہیں۔
جب تحریر الشام کے رہنما دمشق میں داخل ہوئے تو اس کا مطلب تھا کہ یہ گروہ شام کے دارالحکومت پر قابض ہو چکا ہے۔ اس نئی صورتحال میں جو ممالک شام کے ساتھ تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں، انہیں اس گروہ یا اس جیسے گروپوں کے ساتھ بات چیت کرنی ہوگی۔ اس کے نتیجے میں ان گروپوں کو دہشت گرد، مخالف یا مسلح گروہ جیسی اصطلاحات سے خطاب کرنا ایک پیچیدہ مسئلہ بن چکا ہے۔
دہشت گرد اور ان کے مجرمانہ کارنامے
گروہ تحریر الشام جس کا ماضی دہشت گردانہ کارروائیوں سے بھرا ہوا ہے، اگر وہ شام میں حکومت قائم کرنا چاہتا ہے تو اسے اپنے ماضی سے فاصلہ اختیار کرنا ہوگا اور اپنے عمل میں نیا رویہ اپنانا ہوگا۔ اس وقت یہ گروہ شام کے سیاسی مستقبل میں اپنا کردار ادا کرنے کا دعویٰ کرتا ہے۔ چنانچہ یہ گروہ خطے کے ممالک اور بین الاقوامی سطح پر خود کو تسلیم کروانا چاہتا ہے، تو اسے شام میں موجود تمام گروپوں اور اقلیتی طبقات کی عزت کرنی ہوگی اور انہیں سیاسی عمل میں شامل کرنا ہوگا، چاہے وہ ہم آہنگ نہ ہوں۔
شام کی حالیہ صورتحال نے یہ واضح کر دیا ہے کہ دیگر گروپوں کے تعاون کے بغیر تحریر الشام کے لیے بڑی تبدیلیاں لانا ممکن نہیں تھا۔ اس لیے شام کا مستقبل ایک اتحادی حکومت کی طرف بڑھنا چاہیے جس میں تمام اہم اور مؤثر گروپ شامل ہوں۔
حاصل کلام
موجودہ حالات میں تحریر الشام کے رہنما خاص طور پر ابو محمد الجولانی ایک اہم اور فیصلہ کن موڑ پر کھڑے ہیں۔ یہ گروہ اپنے سیاہ ماضی کے باوجود دو راستوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرسکتا ہے: وہ اپنے ماضی کے دہشت گردانہ اقدامات سے لاتعلقی اختیار کرتے ہوئے ایک نیا راستہ اپنائے، چنانچہ حالیہ دنوں میں اس کے موقف اور دوسرے گروپوں کے ساتھ روابط میں تبدیلی دیکھی گئی ہے، یا پھر وہ صرف ایک دہشت گرد گروہ کے طور پر اپنی موجودگی برقرار رکھے۔
اگر یہ گروہ ایک اتحادی حکومت کی تشکیل کی جانب قدم بڑھاتا ہے جس میں تمام گروپوں کے مفادات کو مدنظر رکھا جائے، تو یہ قدم شام کے مستقبل کے لیے بہت اہم اور مفید ہوگا۔ تاہم اس کا آغاز تو ضروری ہے لیکن اسے برقرار رکھنا شام کے مستقبل کی ضمانت کے لیے بہت زیادہ اہم ہے۔ اس کے بعد ہی دنیا تحریر الشام اور اس کے رہنما کو ایک ایسا کھلاڑی تسلیم کر سکے گی جو شام میں پرامن سیاست اور حکومت کرنے کی خواہش رکھتا ہے۔