حضرت ام البنین سلام اللہ علیہا تاریخ اسلام کی نمایاں اور قابلِ احترام خواتین میں سے ہیں، جن کا کردار سانحۂ کربلا میں نہایت مؤثر رہا۔
شیئرینگ :
حضرت ام البنین علیہا السلام ایمان، اخلاق، شجاعت اور ایثار میں اپنی مثال آپ تھیں جنہوں نے اپنے بیٹوں کو امام حسین علیہ السلام پر قربان کردیا۔
حضرت ام البنین سلام اللہ علیہا تاریخ اسلام کی نمایاں اور قابلِ احترام خواتین میں سے ہیں، جن کا کردار سانحۂ کربلا میں نہایت مؤثر رہا۔ اگرچہ وہ کربلا کے میدان میں موجود نہ تھیں، لیکن ان کے چار بیٹوں کی قربانی، ادب، شجاعت اور وفاداری نے ان کا نام ہمیشہ کے لیے تاریخ میں زندہ کر دیا۔ ان صفات کا مظاہرہ ان کی بہترین تربیت کا ثبوت ہے جو ان کی والدہ، حضرت ام البنین، کی شخصیت سے جھلکتی ہے۔ اسی وجہ سے حضرت ام البنین علیہا السلام مسلمان خواتین کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ حضرت ام البنین (ع) کے فضائل اور خوبیوں کا ذکر ہمیشہ ان کے فرزند حضرت عباس علیہ السلام کے نام کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ حضرت عباس علیہ السلام جو کربلا کے علمدار تھے اور جن کے مقام پر روزِ قیامت شہداء رشک کریں گے، اپنی شجاعت، ادب اور وفاداری میں اپنے والد حضرت علی علیہ السلام اور والدہ حضرت ام البنین علیہا السلام کے وارث تھے۔
نسب اور خاندان
تاریخی منابع کے مطابق، حضرت ام البنین علیہا السلام کی ولادت مدینہ کے جنوب میں رہنے والے طائفۂ ہوازن کے مشہور قبیلے بنی کلاب میں ہوئی۔ آپ کے والد ابوالمجل حزام بن خالد اور والدہ ثمامہ بنت سہیل بن عامر دونوں کا تعلق عرب کے معروف اور بہادر خاندانوں سے تھا۔ بنی کلاب اپنے وقت میں شجاعت، سخاوت اور دیگر اعلی صفات کی وجہ سے مشہور تھے۔ حضرت ام البنین علیہا السلام نے انہی اعلی اخلاقی اور نسبی صفات کو وراثت میں پایا۔
حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام کی شہادت کے بعد حضرت علی علیہ السلام نے اپنے بھائی عقیل بن ابی طالب جو کہ عرب قبائل کے نسب اور خصوصیات سے گہری واقفیت رکھتے تھے، سے درخواست کی کہ میرے لیے ایسی عورت تلاش کرو جو دلیر اور بہادر نسل سے ہو تاکہ وہ ایسا بیٹا جنم دے جو شجاعت اور وفاداری میں نمایاں ہو۔
عقیل نے حضرت علی علیہ السلام کو ام البنین کلابیہ کے انتخاب کا مشورہ دیا کیونکہ ان کے نسب میں ایسی صفات پائی جاتی تھیں۔ حضرت علی علیہ السلام نے اس تجویز کو قبول کیا اور یوں یہ مبارک نکاح عمل میں آیا۔
حضرت ام البنین علیہا السلام کا خواب
حضرت ام البنین علیہا السلام فرماتی ہیں کہ رشتہ ہونے سے پہلے میں نے ایک خواب دیکھا کہ میں ایک سرسبز اور گھنے باغ میں بیٹھی ہوں۔ وہاں بہتے ہوئے نہریں اور بے شمار پھل موجود تھے۔ آسمان پر چمکتا ہوا چاند اور ستارے روشن تھے اور میں انہیں دیکھ رہی تھی۔ میں اللہ کی تخلیق کی عظمت اور بغیر ستون کے کھڑے آسمان، چاند کی روشنی اور ستاروں کے بارے میں غور و فکر کر رہی تھی۔ اسی دوران اچانک چاند آسمان سے زمین پر اترا اور میری گود میں آ گیا۔ اس چاند سے ایک ایسی روشنی نکل رہی تھی جو آنکھوں کو خیرہ کر رہی تھی۔ میں حیرت اور تعجب میں مبتلا تھی کہ اسی وقت چار روشن ستارے اور میری گود میں آ گرے۔
حضرت ام البنین علیہا السلام کے والد حزام بن خالد نے اپنی قوم کے خوابوں کی تعبیر کرنے والے عالم سے اس خواب کی تعبیر پوچھی۔ معبر نے کہا یہ خواب کسی کو مت بتائیں اور یقین رکھیں کہ آپ کی بیٹی کے لیے عرب و عجم کے کسی بڑے شخص کا رشتہ آئے گا، اور اللہ تعالیٰ اسے چار بیٹے عطا کرے گا۔
جب حضرت علی علیہ السلام کے بھائی حضرت عقیل علیہ السلام جو قبائل عرب کے نسب شناس تھے، خواستگاری کے لیے حزام بن خالد کے پاس آئے، تو حزام نے اپنی بیٹی کے خواب کو یاد کرتے ہوئے انہیں خوشخبری دی اور کہا: میری بیٹی! یقیناً اللہ تعالیٰ نے تمہارے خواب کو حقیقت میں بدل دیا ہے۔ دنیا اور آخرت کی خوش بختی کی بشارت ہو! پھر حزام نے اپنی اہلیہ ثمامہ سے مشورہ کیا اور کہا کہ کیا تم ہماری بیٹی فاطمہ (ام البنین) کو امیرالمومنین علی علیہ السلام کے نکاح کے لائق سمجھتی ہو؟ جان لو کہ ان کا گھر وحی، نبوت، علم، حکمت، ادب اور اخلاق کا مرکز ہے۔ اگر تم اپنی بیٹی کو اس گھر کے لائق سمجھتی ہو تو ہم اس مبارک رشتے کو قبول کریں گے۔
تاریخ میں لکھا گیا ہے کہ حضرت ام البنین سلام اللہ علیہا نے جب حضرت علی علیہ السلام کے گھر میں قدم رکھا تو انہوں نے امام علی علیہ السلام سے درخواست کی کہ انہیں ان کے اصل نام فاطمہ کے بجائے "ام البنین" کے لقب سے پکارا جائے۔ یہ اس لیے کہ امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام اپنی والدہ حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام کا نام سن کر اپنی والدہ کی یاد میں غمگین نہ ہوں اور ان کے دلوں میں یتیمی کا درد تازہ نہ ہو۔
کردار اور تربیت
حضرت ام البنین علیہ السلام نے نہ صرف حضرت علی علیہ السلام کی بہترین زوجہ ہونے کا حق ادا کیا بلکہ حضرت امام حسن علیہ السلام، حضرت امام حسین علیہ السلام اور بی بی زینب علیہا السلام کے لیے ایک شفیق اور محبت کرنے والی ماں کی حیثیت سے بھی اپنی مثال قائم کی۔ اپنے بیٹوں کو امام حسین علیہ السلام کے مشن کے لیے قربان کر دینا ان کی وفاداری اور ایمان کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔
حضرت ام البنین علیہا السلام کی زندگی ہمیں ایثار، شجاعت، اور اہلِ بیت سے وفاداری کا درس دیتی ہے، اور ان کا کردار آج بھی مسلم خواتین کے لیے مشعلِ راہ ہے۔
حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کی حضرت ام البنین علیہا السلام سے خواستگاری کا واقعہ اسلامی تاریخ کا ایک خوبصورت واقعہ ہے جو اس عظیم خاتون کی شرافت، ایمان اور بلند مقام کو واضح کرتا ہے۔
حضرت ام البنین علیہا السلام کے بیٹے
حضرت ام البنین علیہا السلام کے امام علی علیہ السلام سے چار بیٹے تھے: حضرت عباس علیہ السلام، عبد اللہ، عثمان اور جعفر۔ ان سب میں سب سے بڑے حضرت عباس علیہ السلام تھے، جو 4 شعبان 26 ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ یہ تمام فرزند حضرت علی علیہ السلام اور حضرت ام البنین علیہا السلام کی مثالی تربیت کے باعث بلند اوصاف کے حامل تھے۔ ان چاروں جوانوں نے سب سے پہلے اپنے والد حضرت علی علیہ السلام کے اوصاف اور اخلاق کو اپنایا۔ اس کے بعد اپنی والدہ حضرت ام البنین علیہا السلام سے ادب، ایثار، وفا اور قربانی کی اعلی قدریں سیکھیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک رشادت، نجابت، شرافت، جوانمردی اور اخلاق کے اعلی ترین درجے پر فائز تھا۔
جب امیر المومنین علیہ السلام شہید ہوئے، تو حضرت عباس علیہ السلام کی عمر تقریباً 14 سال تھی اور ان کے باقی بھائی ان سے بھی کم عمر کے تھے۔ لیکن ان کی وفاداری اور قربانی کربلا کے میدان میں تاریخ کا ناقابلِ فراموش باب بن گئی۔ حضرت ام البنین سلام اللہ علیہا کی امام حسین علیہ السلام سے بے پناہ محبت اور سانحۂ کربلا کے بعد ان کے صبر و استقامت کی کہانی تاریخ اسلام کے دردناک مگر قابلِ فخر واقعات میں شامل ہے۔
مجھے میرے حسین علیہ السلام کی خبر دو!
سانحۂ کربلا کے بعد جب بشیر امام سجاد علیہ السلام کے نمائندہ کی حیثیت سے مدینہ پہنچا تو حضرت ام البنین علیہا السلام اس کے استقبال کے لیے آئیں۔ انہوں نے فوراً پوچھا: امام حسین علیہ السلام کے بارے میں کیا خبر ہے؟
بشیر نے کہا: آپ کے بیٹے عباس علیہ السلام شہید ہو گئے ہیں۔
یہ سن کر حضرت ام البنین علیہا السلام نے دوبارہ کہا: "بشیر! میرے امام حسین علیہ السلام کے بارے میں بتاؤ!"
بشیر نے بتایا کہ ان کے دیگر بیٹے بھی کربلا میں شہید ہو گئے ہیں، لیکن حضرت ام البنین علیہا السلام نے پھر بھی یہی کہا: "بشیر! مجھے میرے حسین علیہ السلام کے بارے میں بتاؤ!"
جب بشیر نے امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی خبر دی، تو حضرت ام البنین علیہا السلام نے بلند آواز میں نالہ و فریاد کی۔
سانحۂ کربلا کے بعد، حضرت ام البنین علیہا السلام نے بی بی زینب علیہا السلام کے ساتھ یزید کی حکومت کے خلاف احتجاج میں بھرپور کردار ادا کیا۔ وہ روزانہ اپنے بیٹے حضرت عباس علیہ السلام کے فرزند کو لے کر قبرستان بقیع جاتی تھیں اور وہاں چار قبریں کھینچ کر اپنے شہید بیٹوں کے لیے مرثیے پڑھتی تھیں۔ ان کی مرثیہ خوانی اتنی سوزناک تھی کہ مدینہ کے لوگ ان کے گرد جمع ہو جاتے تھے اور گریہ کرتے تھے۔ حتی کہ سخت دل دشمن، جیسے مروان بن حکم بھی ان کے مرثیوں کو سن کر رو پڑتا تھا۔
حضرت ام البنین علیہا السلام کے مرثیے اور عزاداری کا سلسلہ ان کے وصال تک جاری رہا۔ ان کی محبت اور وفاداری نہ صرف امام حسین علیہ السلام اور ان کے اہلِ بیت کے لیے ایک لازوال مثال ہے، بلکہ یہ مظلوموں کی حمایت اور حق کے لیے قیام کا درس بھی دیتی ہے۔
آپ کی وفات
بعض محققین کے مطابق حضرت ام البنین علیہا السلام کی وفات 13 جمادی الثانی 64 ہجری قمری کو ہوئی۔ زیادہ تر مورخین کا خیال ہے کہ ان کی وفات طبیعی تھی اور کوئی خاص وجہ یا حادثہ اس کے پیچھے نہیں تھا۔ جبکہ بعض مورخین کا کہنا ہے کہ ام البنین علیہا السلام کی شہادت بنی امیہ کے مظالم کا نتیجہ تھی۔ ان کے دلگداز مرثیے، جو کربلا کے مظالم کو آشکار کرتے اور بنی امیہ کی حکومت کے خلاف لوگوں کو بیدار کرتے تھے، ممکنہ طور پر ان کی موت کا سبب بنے۔ بعض روایات کے مطابق انہیں زہر آلود شہد کے ذریعے شہید کیا گیا۔
حضرت ام البنین علیہا السلام کو قبرستان بقیع میں دفن کیا گیا، جہاں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعض قریبی رشتہ دار خواتین کے ساتھ آرام فرما رہی ہیں۔