بیرونی طاقتوں بالخصوص سعودی عرب نے عراقی انتخابات میں ہمیشہ مداخلت کی ہے اور عراق میں سنی شیعہ اختلافات کو ہوا دینے کے لیے وسیع سرمایہ گزاری کی ہے
شیئرینگ :
عراق میں پارلیمانی انتخابات پانچ ماہ بعد متوقع ہیں۔ قبل از وقت انتخابات کا انعقاد عراق کے معروضی حالات کے عکاس ہیں۔ ابھی انتخابات کی باقاعدہ تاریخوں کا اعلان نہیں ہوا ہے، لیکن مختلف سیاسی گروہ اور جماعتیں متحریک ہوگئی ہیں۔ بدقسمتی سے عراق میں جب بھی پارلیمانی انتخابات کا اعلان ہوتا ہے تو ملک میں تقسیم در تقسیم اور فرقہ وارانہ اور لسانی اختلافات کے نعرے بلند ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ عراق کے انتخابات میں تین دھڑے سنی، شیعہ اور کرد نمایاں ہو کر سامنے آتے ہیں، سیاسی جماعتیں اور سیاسی اتحاد اس تفریق سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
دوسری طرف بیرونی طاقتوں بالخصوص سعودی عرب نے عراقی انتخابات میں ہمیشہ مداخلت کی ہے اور عراق میں سنی شیعہ اختلافات کو ہوا دینے کے لیے وسیع سرمایہ گزاری کی ہے۔ عراق میں صدام کے سقوط کے بعد جو دستور اور آئین مرتب کیا گیا، اس میں انتخابی قوانین بھی بعض مشکلات کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ عراق میں شیعہ مسلمانوں کی اکثریت ہے اور دینی سیاسی اتحاد کامیاب ہوتا ہے، جو شیعوں کی اکثریت اور کردوں کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہو جائے تو شیعہ اکثریتی ووٹ بھی اکثریت کے درمیان اختلاف کا باعث بن جاتے ہیں۔
عراق کے انتخابات عراق کی سالمیت کے لیے ہمیشہ چیلنج بن کر منعقد ہوتے ہیں۔ اس دفعہ کے پارلیمانی انتخابات ایسے عالم میں انجام پا رہے ہیں کہ امریکی افواج کے انخلا کی خبریں عام ہیں۔ اسی طرح عراقی عدالت نے شہید حاج قاسم سلیمانی اور ابو مہدی مہندس شہید کے قتل کے جرم میں ڈونالڈ ٹرامپ کو سزائے موت سنا دی ہے۔ عراق کے پارلیمانی انتخابات میں ابھی کافی وقت ہے، لیکن مختلف سیاسی جماعتوں، گروہوں اور الائنس کی سیاسی سرگرمیاں اس بات کا پتہ دے رہی ہیں کہ اس بار کے انتخابات ماضی سے بھی زیادہ شور شرابے کے حامل ہونگے۔