تاریخ شائع کریں2017 16 June گھنٹہ 20:18
خبر کا کوڈ : 271785

رمضان المبارک اور شب ہائے قدر

س سے بڑھ کر اور کیا خیر ہو گا کہ انسان کو اپنے حقیقی ہدف کے قریب کر دے اور صراط مستقیم پر لا کھڑا کر دے
ماہ مبارک رمضان ،ظرف نزول قرآن ، نزول ملائکہ ، شب قدر ، ہزار مہینوں سے خیر ،فجر تک سلامتی ، روزہ۔ خدا وند عالم نے ایک مومن کے لئے کیسا مائدہ مہیا کیا ہے؟ اس مائدے کی ہر چیز بذات خود ایک اعلیٰ ترین معنوی غذا ہے،اس ماہ کو ضیافت الہی سے تعبیر کیا جاتا ہے اور خدا اس ماہ میں اپنے بندوں کی ضیافت فرماتا ہے اور اسکے بندے اس کے مہمان کہلاتے ہیں
رمضان المبارک اور شب ہائے قدر
بسم اللہ الرحمن الرحیم

ضیافت الہی:

 ماہ مبارک رمضان ،ظرف نزول قرآن ، نزول ملائکہ ، شب قدر ، ہزار مہینوں سے خیر ،فجر تک سلامتی ، روزہ۔ خدا وند عالم نے ایک مومن کے لئے کیسا مائدہ مہیا کیا ہے؟ اس مائدے کی ہر چیز بذات خود ایک  اعلیٰ ترین  معنوی  غذا ہے،اس ماہ کو ضیافت الہی سے تعبیر کیا جاتا ہے اور خدا اس ماہ میں اپنے بندوں کی ضیافت فرماتا ہے اور اسکے بندے اس کے مہمان کہلاتے ہیں ،سرور عالم ﷺ نے شعبان المعظم کےآخرمیں ماہ رمضان سے قبل ایک خطبہ دیااور   فرمایا ’’ ائے لوگوں ،برکت  ،رحمت و بخشش کا مہینہ  تمہارے لئے آرہاہے ،یہ خدا کا بہترین مہینہ ہے اس کے دن بہترین دن  اسکی راتیں بہترین راتیں ، اس کی گھڑیاں بہترین گھڑیاں ہیں ،اس مہینے میں تم خدا کی جانب بلائے گئے ہو خدا کی کرامت سے بہرمند قرارپائے ہو  اس مہینے میں تمہاری سانسیں  خدا کی تسبیح  ،تمہاراسونا عبادت اور تمہارے اعمال قبول شدہ  اور تمہاری دعائیں مستجاب ہیں[1]۔

جس طرح  انبیا ء علیہم السلام پر ختمی المرتبت ﷺ کو عظمت ،شرافت ،اور فضلیت حاصل ہے اسی طرح اس ماہ مبارک کو تما م مہینوں پر عظمت ،شرافت ،کرامت  اور فضیلت حاصل ہے  اور اس کی سب بڑی فضلیت  قرآن کریم کا اس میں نازل ہونا ہے ، یعنی ماہ مبارک رمضان وہ ظرف زمان ہے کہ جس میں خدا کی جانب سے اسکے رسول ﷺ  کے قلب منور پر یہ کتاب نازل ہوئی ، اسی لئے ان میں  ایک خاص سنخیت بھی ہے ،جس سے اس ماہ کی عظمت و شرافت  وکرامت کا پتہ چلتا ہے ، اسی ماہ مبارک میں   عبادتوں کا ثواب دوسرے مہینوں کی نسبت سے زیادہ ہے ،مومن کو سونا جاگنا حتیٰ کے سانس کا آنا جانا تسبیح شمار ہوتا ہے ۔

اس ماہ عظیم میں خدا کی کتاب عظیم نازل ہو ئی اور جس شب میں نازل ہو ئی اس شب کو شب قدر کہا جاتا ہے ۔ اس شب کی چند خصوصیات ہیں کہ جن کا ذکر قرآن کریم نے کیا ہے ۔

بابرکت رات:

 قرآن کریم نے اس عظیم شب کی شناخت میں ارشاد فرمایا ، حم. وَ الْكِتابِ الْمُبِينِ. إِنَّا أَنْزَلْناهُ‏ فِي‏ لَيْلَةٍ مُبارَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنْذِرِينَ فِيها[2]حم ، روشن و واضح کتاب کی قسم ،بیشک ہم نے اس کتاب مبین کو مبارک رات میں نازل کیا بیشک ہم راستہ دیکھانے والے ہیں ، اگر آیہ کریمہ پر غور کیا جائے تو مبارک رات کی صفت ہے جس کا ظاہر اس بات میں ہے کہ یہ  رات بذات خود مبارک ہے    یعنی اس رات میں اتنی وسعت اور ظرفیت تھی کہ اس میں قرآن جیسی عظیم کتاب قلب منور مصطفی ﷺ پر نازل ہو ۔

اس شب کاادراک:

قرآنی آیات کی روشنی میں یہ بات مسلم ہے  اس رات کی عظمت اتنی ہے کہ اس کا درک جز خدا کے علاوہ کسی اور کے لئے ممکن نہیں مگر یہ جس کو خدا اس کی شناخت کروا دے ، جیسا کہ سور قدر میں ارشاد ہوا ، وَ ما أَدْراكَ ما لَيْلَةُ الْقَدْرِ[3]تمہیں کس نے پہچنوایا کہ شب قدر کیا ہے ۔یعنی سرور عالم پر بھی اس کی شناخت  جز اسکے نہیں ہو سکتی تھی کہ خدا اس کی شناخت کرائے اور یہ  کہ اس شب کی عظمت کا تقاضا تھا کہ اس کی شناخت مرسل اعظم ﷺ کو کرئی جا ئے ، گویا کہ یہ شب الہی رازوں میں سے ایک راز ہے کہ جس کا تعلق عالم غیب سے ہے اور  عالِمُ الْغَيْبِ فَلا يُظْهِرُ عَلى‏ غَيْبِهِ أَحَداً [4]اور عالم غیب  خدا کسی ایک پر بھی ظاہر نہیں ہوتا ،إِلاَّ مَنِ ارْتَضى‏ مِنْ رَسُولٍ[5]  مگر یہ کہ جس کورسالت کےلئے چن لے،خدا شب قدر  کی شناخت اپنے حبیب ﷺ کوخود ہی کر ا رہا ہے ۔

ہزار راتوں سے بہتر:

لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْر سورہ قدر میں ہی شب قدر کی فضلیت کو ایک اور زاویے سے بیان کیا گیا کہ یہ رات ہزار مہینوں سے خیر رکھتی ہے خیر دراصل اخیر کا معنٰی دے رہا ہے ، گویا کہ اس شب کا کسی اور شب سے کوئی قیاس نہیں ،خیر سے مراد وہ چیز کہ جس میں ہر ایک کو رغبت ہو ہر ایک  جس کی طرف مائل ہو شب قدر کا یہ خیر بھی ذاتی ہے جس طرح برکت اسکی ذاتی ہے  ، اسکے خیر و برکت کی وجہ سے اسے قرآن کاکے نزول کےزمان کا ظرف قرار دیا گیا ۔

خیر کس چیز میں:

یہ رات کسی چیز میں خیرہے  ،اس سے بڑھ کر اور کیا خیر ہو گا کہ انسان کو اپنے حقیقی ہدف کے قریب کر دے اور صراط مستقیم پر لا کھڑا کر دے ، خدا وندمتعال اور انبیاء علیہم السلام کا انتہائی ہدف بھی یہی ہے کہ انسان اپنے حقیقی ہدف کوپالے اپنی فطرت پر پڑی گرد و خاک کو جھاڑ دے اور ماہ مبارک رمضان کا مہینہ اس کام کے لئے بہترین مہینہ اور کہ جس میں انسان خالصتاًاپنے  مُنعم کی جانب متوجہ رہتا ہے اوراس ماہ میں روزے نماز اور تلاوت کی تکرار ہو تی ہے ایک ماہ تکرار عمل عادت بنے کے لئے بہت ہو تا ہے ،یہ مہینہ ایک مسلمان کو یہ میدان مہیا کرتا ہے کہ وہ اپنے افکار و اعمال کو بلند کرے اور شب قدر کا ظرف زمانی اس عمل کم عمل کو بھی زیادہ سے زیادہ کردیتا ہے اور اس کی کندی کو تندی اور سرعت بخشتا ہے   لہذااس رات کو ہزار مہینوں سے خیر کہا گیا، ایک عمل جو ہزار مہینوں میں وہ سفر طے نہیں کر سکتا جو اس رات میں طے کر لے گا  لہذا اس رات میں عبادات کی بہت ارزش و منزلت ہے ۔

ملائکہ کا نزول:

تَنَزَّلُ الْمَلائِكَةُ و الرح ُ ،اس شب ایک خصوصیت کہ جو سور قدر میں بیان ہو ئی وہ اس ظرف زمان میں ملائکہ کا نزول ہے ،تنزل کا کلمہ بیان کر رہا ہے کہ بار بار ہے یعنی جب جب  شب قدر ہو گی تب تب نزول ملائکہ ہے دوسرے یہ کہ ملائکہ جو خود جمع ہے اور اس پر الف لام داخل ہے جو خود جمع پر دلالت کرتا ہے یعنی شب قدر میں نازل ہو نے والے ملائکہ تعداد بہت زیادہ ہے  ، تیسرے یہ کہ  تنزل  اس بات پر دلالت کررہا ہے کہ ایک لینے والا ہے اور ایک دینے والا ہے یعنی ملائکہ دینے والے ہیں اور جو چیز دے رہے ہیں وہ چیز کو ئی ہے جو لے رہا ہے ، چھوٹے یہ کہ صیغہ اثر پذیری کوبھی ظاہر کرتا ہے یعنی فعل کا اثر مفعول پر ظاہر ہوتا ہے  یعنی نزول ملائکہ ایک فعل ہے جو کسی مفعول پر اثر انداز ہورہا ہے  یعنی جو چیز لارہے ہیں اور جس پر لارہے وہ اس کے اثر کو قبول کررہا ہے ، بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ أَمْر،ملائکہ اپنے رب کی اجازت سے ہر امر کو لے کر آتے ہیں ۔

باقرالعلوم امام محمد باقر علیہ  السلام  سے ، إِنَّا أَنْزَلْناهُ‏ فِي‏ لَيْلَةٍ مُبارَكَةٍ[6] کے بارے میں پوچھا گیا ،آپ نے فرمایا کہ شب قدر ہر سال رمضان کے آخری عشرے میں میں ،پس قرآن شب قدر کے علاوہ نازل نہیں ہوا (جس کے لئے ) خدا کا فرمان ہے ، فِيها يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ‏،[7]امام علیہالسلام نے فرمایا ’’ شب قدر میں اس سال کے تمام امور کو مقدر کیا جاتا ہے  چاہیے خیر ہوں یا شر ۔  یہیں سے اس شب  کی وجہ تسمیہ بھی معلوم ہو جاتی ہے ’’ شب قدر ‘‘ یعنی جس رات سال بھر کے امور معین اور مقدر ہوں ۔

شب قدر سلامتی ہے:

سَلامٌ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْر  اس شب کی ایک اور خصوصیت یہ کہ یہ شب  طلوع فجر تک’’سلام ‘‘ ہے مفردات کے مطابق ’’سلام ‘‘ اور’’سلامت‘‘  کا معنٰی ا ٓفات ظاہری اور باطنی  سے خالی و عاری ہو نا ہے [8]، پس آیہ کریمہ میں یہ سلام و سلامتی عنایت الہی سے متعلق ہے اور کیونکہ خدا وند عالم کے اسماء میں سے ایک اسم مبارک ’’سلام ‘‘ ہے اس اسم مبارک کا اثر اس رات پر اس طرح ظاہر ہوتا ہے  کہ  یہ رات سلامتی محض بن جاتی ہے   کہ جس سے خیر کا معنٰی اور بھی واضح اور روشن ہوجاتاہے اس رات کا ظرف خداکی صفت ’’سلام ‘‘ اپنی سلامتی کو لیتا ہے اور خدا کی رحمت کو اسکے بندوں کے شامل حال کرتا ہے ۔

تحریر: حجت الاسلام رضوان علوی
 


[1] ۔عیون اخبار الرضا علیه السلام ج 1، ص 230 و اربعین شیخ بهائى ص 162
[2] .سورہ دخان آیت ۱تا۴
[3] ۔سورہ قدر آیت ۲
[4] ۔سورہ جن آیت ۲۶
[5] ۔ایضاً آیت ۲۷
[6]۔سورہ دخان آیت۳
[7] ۔ایضاً آیت ۴
[8] ۔مفرادت راغب مادہ سلم 
https://taghribnews.com/vdcjove8iuqeaaz.3lfu.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ