تاریخ شائع کریں2016 28 June گھنٹہ 18:06
خبر کا کوڈ : 236409

آل سعود خادم حرمین شریفین نہیں بلکہ یہ صہیونیوں اور امریکہ کے آلہ کار ہیں

عنقریب بیت المقدس دوبارہ مسلمانوں کے ہاتھوں میں آئِیگا، اصغر کربلائی
آل سعود خادم حرمین شریفین نہیں بلکہ یہ صہیونیوں اور امریکہ کے آلہ کار ہیں
حاجی اصغر علی کربلائی کا تعلق مقبوضہ جموں و کشمیر کے کرگل خطے سے ہے، وہ مقامی سیاست میں اہم عہدوں پر فائز رہے ہیں، امام خمینیؒ میموریل ٹرسٹ کشمیر کے بانیوں میں شمار ہوتے ہیں اور ادارے کے چیئرمین بھی رہ چکے ہیں، امام خمینیؒ میموریل ٹرسٹ کرگل خطے کا سرگرم ترین ادارہ ہے۔ ادارے کے ذیل میں 14 ماڈرن اسکول ہیں، جہاں تین ہزار سے زیادہ بچے زیر تعلیم ہیں، جموں میں لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے الگ الگ ہوسٹل ہیں، اسکے علاوہ امام خمینیؒ میموریل ٹرسٹ کے زیر نگران ہیلتھ کئیر اور رسیرچ سینڑ بھی فعال ہے، کرگل کے دور دراز گاؤں میں جاکر وہاں لوگوں کا علاج و معالجہ کیا جا رہا ہے، آئی کے ایم ٹی کے اہتمام سے اور بھی مختلف شعبہ ہائے زندگی اپنی ذمہ داریاں انجام دے رہے ہیں، حاجی اصغر کربلائی کی کاوشوں سے ہی یہ ادارہ کرگل کا فعال ادارہ تصور کیا جاتا ہے، اصغر کربلائی 3 بار لداخ آٹونامس ہل ڈیولپمنٹ کونسل کے کونسلر رہے ہیں، 2 بار چیئرمین ایزکیٹو رہے ہیں۔ آپ فعلاً انڈین نیشنل کانگریس پارٹی سے وابستہ ہیں اور جموں و کشمیر لیجسلیٹیو اسمبلی کرگل لداخ کے ممبر ہیں۔ اسلام ٹائمز کے نمائندے نے اصغر علی کربلائی سے ایک نشست کے دوران مسئلہ فلسطین و یوم القدس کے حوالے سے خصوصی انٹرویوکیاہے،

سوال: عالم اسلام میں مسئلہ فلسطین کی اہمیت و افادیت کیا ہے۔؟
حاجی اصغر علی کربلائی: مسئلہ فلسطین صرف عرب کا یا فلسطینیوں کا مسئلہ نہیں ہے، یہ قبلہ اول، سرزمین انبیاء ہے، قبلہ اول مسلمین ہے، انبیاء کا مدفن ہے، یہ وہ جگہ ہے جہاں سے پیغمبر اکرم ؐ کو معراج حاصل ہوا، اس لئے مسلمانوں کے لئے جتنا حرم امن الٰہی خانہ کعبہ کی اہمیت ہے، مدینہ و رسول (ص) کی اہمیت حاصل ہے، اس طرح سے بیت المقدس اور سرزمین فلسطین کی اہمیت ہے۔

سوال: بیت المقدس کی بازیابی کیسے ممکن ہے۔؟
حاجی اصغر علی کربلائی: بیت المقدس کی بازیابی کے لئے مسلمانوں کو اپنے تمام اختلافات کو بھلا کے متحد ہو کر سرزمین فلسطین کی آزادی کے لئے مالی، سیاسی، اخلاقی جانی جس طرح کی بھی مدد ہوسکے، کرنے کی ضرورت ہے اور اس مسئلہ کو گھریلو سطح سے لے کر سیاسی، سماجی، مذہبی اور ہر اعتبار سے زندہ رکھنے کی ضرورت ہے، مسئلہ فلسطین اور مسئلہ بیت المقدس کی اہمیت کو لوگوں کے ذہنوں میں اُجاگر کرنے کی ضرورت ہے، اسرائیل کا جو وہاں غاصبانہ قبضہ ہے، اس کے بارے میں لوگوں کو بتانے کی ضرورت ہے کہ یہ یہودیوں کی سرزمین نہیں ہے بلکہ یہ مسلمانوں کی سرزمین ہے، یہ صرف عرب اور عجم کا مسئلہ نہیں ہے، یہ مسلمانوں کے قبلہ اول کا مسئلہ ہے، اس مسئلہ کو بہترین انداز سے لوگوں تک پہنچانے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے مالی، جانی، سیاسی اور ہر طرح سے مدد کرنے کی ضرورت ہے، اگر ہم فلسطین میں رہنے والوں کی مالی، سیاسی اور اخلاقی مدد کریں، چاہے وہ حماس ہے، الفتح ہے، جہاد اسلامی ہے تو یہ تمام گروپ خود ہی اپنی سرزمین کو آزاد کرسکتے ہیں، ہر جگہ ہمیں فلسطین اور بیت المقدس کی بات چھیڑتے رہنی چاہئے، تاکہ لوگوں کو حقیقت مسئلہ فلسطین سے آگاہی ملے اور ان کو پتہ چلے کہ مسئلہ فلسطین حقیقت میں ہے کیا۔

سوال: ابھی جو دیکھا جا رہا ہے کہ تمام دنیا کو صہیونی طاقت نے اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے، چاہے مسلم یا غیر مسلم ممالک کی بات کریں۔ کیسے ممکن ہے کہ فلسطین ان کے چنگل سے آزاد ہو جائے گا۔؟
حاجی اصغر علی کربلائی: یقیناً اسرائیل، امریکہ اور اس کے علاوہ عرب کے کچھ ممالک خصوصاً آل سعود اور قطر مل کے اسلامی دنیا کے اتحاد اور امت کی وحدت و یکجہتی کو ختم کرنے کے لئے صہیونی استعماری آلہ کاری کے طور پر کام کر رہے ہیں، لیکن آپ دیکھ رہے ہیں کہ آہستہ آہستہ ان عرب حکمرانوں کی حقیقت دن بہ دن عوام پر واضح ہو رہی ہے اور ان کے گرفت سے ان کے چنگل سے آہستہ آہستہ مسلمان آزاد ہو رہے ہیں، کل تک جو یہ شوشہ تھا کہ آل سعود سارے مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہیں، آج وہ حقیقت دنیا پر واضح ہوچکی ہے اور یہ پتہ چل چکا ہے کہ یہ کوئی خادم حرمین نہیں ہیں، بلکہ یہ صہیونی اور امریکہ کے آلہ کار ہیں اور مسلمانوں کے پیٹ میں خنجر گھونپ رہے ہیں، چاہے وہ یمن میں ہو، بحرین میں ہو، شام میں ہو، عراق و افغانستان میں ہو، دنیا یہ مشاہدہ کرچکی ہے کہ کس طرح سے مصر میں اخوان المسلمین کی حکومت کو ختم کرنے کے لئے سعودی عرب نے کوششیں کیں، کس طریقے سے حماس کو ختم کرنے کے لئے انھوں نے صہیونیوں کے ساتھ مل کر سازشیں کیں اور یہ سب اب ایکسپوز ہو رہا ہے، اب آہستہ آہستہ لوگوں کو پتہ چل رہا ہے کہ آل سعود کیا ہیں، آل خلیفہ کیا ہیں اور کس طریقے سے یہ مسلمانوں کے اندر اتحاد و یکجہتی کو ختم کرنے کے لئے کوششیں کر رہے ہیں، اب دن بہ دن امریکہ دنیا کے سامنے ایکسپوز ہو رہا ہے، اقوام متحدہ ایکسپوز ہو رہا ہے، مجھے امید ہے کہ عنقریب ان شاء اللہ یہ ساری کٹھ پتلی حکومتیں ختم ہوں گے اور قبلہ اول اور سرزمین فلسطین و بیت المقدس دوبارہ مسلمانوں کے ہاتھوں میں آئے گا اور مسلمان وہاں پر مل کر نماز ادا کرسکیں گے۔

سوال: رہبر معظم نے گذشتہ سال فرمایا تھا کہ اسرائیل آئندہ پچیس سالوں کے اندر دنیائے ہستی سے مٹ جائے گا، اس فرمان کی تشریح جاننا چاہیں گے۔؟
حاجی اصغر علی کربلائی: رہبر معظم ولی امر مسلمین نے جو بات کہی کہ سرزمین فلسطین بہت جلد آزاد ہوگا اور اسرائیل کی غاصب اور ناجائز حکومت آئندہ پچیس سال میں ختم ہوجائے گی، اور یہ ابھی ہو رہا ہے اور دن بہ دن اسرائیل اپنی نابودی کی طرف جا رہا ہے اور اس میں دن بہ دن تیزی آرہی ہے، حماس اپنی طاقت بڑھا چکی ہے، جہاد اسلامی اپنی طاقت بڑھا چکی ہے، آپ نے دیکھا کہ کس طریقے سے 2014ء کی جنگ میں حماس نے اور جہاد اسلامی نے اپنی طاقت اسرائیل سے منوائی، اب اسرائیل کے اندر یہ خلفشار پیدا ہو رہا ہے اور یہ بات گھونج رہی ہے کہ ہمیں حماس کے ساتھ بات چیت کرنی چاہئے اور ہم نے یہ جو غاصبانہ پالیسی اپنا رکھی ہے، اسے ترک کرنا چاہئے، اب وہ یہودی جو انسانیت پر یقین رکھتے ہیں، وہ صہیونی نظریہ کو بالکل رد کر رہے ہیں، اب سرزمین اسرائیل سے ہی یہ آوازیں اٹھ رہی ہیں، تو مجھے لگتا ہے واقعاً رہبر معظم امام خامنہ ای کی جو پیشن گوئی ہے، وہ حقیقت ہونے والی ہے اور بہت جلد سرزمین فلسطین آزاد ہوگا اور اسرائیل صفحۂ ہستی سے مٹ جائے گا۔

سوال: جمعۃ الوداع کو بطور یوم القدس منانے کا جو فلسفہ امام خمینی (رہ) کا تھا، اس فلسفہ کی وضاحت چاہیں گے۔؟
اصغر علی کربلائی: ہم دیکھتے ہیں کہ امام خمینی (رہ) نے 1987ء میں جب مسلمانوں کو کہا کہ یہ سرزمین فلسطین عرب کا ایشو نہیں ہے، عربی مسئلہ نہیں ہے، یہ صرف فلسطینیوں کا مسئلہ نہیں ہے تو اس وقت تک عام مسلمانوں میں یہ مسئلہ فلسطین اتنا زیادہ اُجاگر نہیں تھا جتنا آج ہے، یہ امام خمینی (رہ) کی قیادت اور ان کی روشن ضمیری ہے، جنھوں نے ماہ رمضان کے آخری جمعہ کو یوم القدس قرار دیکر دنیا کے تمام مسلمانوں کو بتا دیا کہ یہ قبلہ اول کا مسئلہ ہے، سرزمین انبیاء کا مسئلہ ہے اور اسی کی وجہ سے دنیا کے مسلمانوں پر واضح ہوگیا کہ یہ عرب اور اسرائیل کی جنگ نہیں ہے، یہ مسلمانوں اور غاصب صہیونیوں کی جنگ ہے، یہ مسلمانوں اور صہیونیوں کی جنگ ہے، یہ مسلمانوں کے دلوں سے جڑا ہوا مسئلہ ہے اور یہ قبلہ اول مسلمین کا مسئلہ ہے، یہ بات امام خمینی (رہ) کے واضح اور روشن خیالات کی بدولت ہی دنیا پر واضح ہوگیا، ہم نے دیکھا کہ گذشتہ تیس سالوں میں اسرائیل کے مظالم اور فلسطینیوں کے حق کی آواز پوری دنیا پر روشن ہوگئی، اب یہ یوم القدس نہ صرف عرب ممالک میں منایا جاتا ہے بلکہ دنیا کے ہر گوشہ میں ہر ملک میں منایا جاتا ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ محسوس کر رہے ہیں کہ یوم القدس ایک پیش خیمہ ہوگا ،ایک بنیاد ہوگی اور ایک پہل ہوگی کہ بیت المقدس اور فلسطین کا مسئلہ حل ہو جائے اور فلسطینیوں کو آزادی حاصل ہوگی اس دن کے نتیجے میں۔؟
حاجی اصغر علی کربلائی: یقیناً یہ اسی دن کا نتیجہ ہے کہ حماس اور جہاد اسلامی تمام عرب ممالک کی غداریوں کے باوجود زندہ ہیں اور مضبوطی کے ساتھ ڈٹے ہوئے ہیں، یہ اسی دن کا نتیجہ ہے کہ حزب اللہ جیسی الٰہی اور حق پرست تنظیم اسرائیل کے ساتھ دو دو ہاتھ کر رہی ہے اور جس طریقے سے مسئلہ فلسطین اجاگر ہوا ہے، یہ امام خمینی (رہ) کے اس اعلان کا نتیجہ ہے اور نہ صرف مجھے بلکہ عالم اسلام کو امید ہے کہ اگر بیت المقدس اور فلسطین آزاد ہوگا تو اسی یوم القدس کی بدولت آزاد ہوگا۔

سوال: انتشار اور آپسی تضاد جو پوری مسلم دنیا میں پایا جا رہا ہے، کیا اس انتشار اور آپسی تضاد میں قبلہ اول کی بازیابی ممکن ہے۔؟
حاجی اصغر علی کربلائی: جو انتشار اور آپسی تضاد مسلمانوں کے درمیان امریکہ، اسرائیل اور کچھ عرب کٹھ پتلی حکمران پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، یہ تقریباً ایکسپوز ہوچکا ہے اور یہ بات آج سے پانچ برس پہلے اتنی واضح نہیں تھی جتنی آج ہے، پہلے مانا جاتا تھا کہ آل سعود مسلمانوں کی نمائندگی اور قیادت کر رہے ہے، لیکن آج ان کی وہ حیثیت نہیں ہے، آج ان کی وہ پذیرائی مسلمانوں کے درمیان نہیں ہے، مسلمان آج انھیں شک کی نظر سے دیکھتے ہیں، عرب ممالک کے جتنے بھی سربراہان ہیں، ان کو شک کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے، ان کو امریکہ اور صہیونیوں کی کٹھ پتلی کے طور پر دیکھتے ہیں، میں تسلیم کرتا ہوں کہ کچھ کچھ جگہوں پر ہمارے نادان دوست اتنے آگاہ نہیں ہیں، وہ ان کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں، لیکن عامۃ المسلمین بالخصوص نسل جوان ان چیزوں سے کافی حد تک اب آگاہ ہوچکی ہے، اب یہ ان کی منافرت، اختلاف اور پھوٹ ڈالنے والی پالیسی کو پہچان گئے ہیں اور بہت جلدی یہ تمام لوگ دنیا کے سامنے ننگے ہو جائیں گے۔

سوال: ابھی زمانہ آگاہی اور بیداری کا ہے، پھر بھی ایک کثیر تعداد ان سے جڑی ہوئی ہے اور داعش ان سے وجود میں آچکا ہے اور شام، عراق، یمن آگ میں جل رہا ہے، پھر کیوں مسلمان نوجوان ان چیزوں کے شکار ہوتے جا رہے ہیں۔؟
حاجی اصغر علی کربلائی: دیکھئے عالمی میڈیا کا تقریباً نوے فیصد صہیونیوں کے قبصہ میں ہے، چاہے وہ الیکٹرانک میڈیا ہو یا پرنٹ میڈیا، دولت ان کے پاس ہے، اس کے برعکس اسلامی دنیا خاص کر اسلامی جمہوری ایران کے پاس کچھ بھی نہیں ہے، اگر مسلمان ممالک کے پاس تھوڑا بہت میڈیا ہے بھی تو اس پر بھی پابندی لگی ہوئی ہے، جس کی وجہ سے حق کی آواز اور سچائی کی آواز کو لوگوں تک پہنچنے سے روک رہے ہیں، داعش جیسی دہشت گرد تنظیم جس کو امریکہ اور اسرائیل نے مل کر پروان چڑھایا اور جس تیزی کے ساتھ وہ ابھرا اور عراق، شام، یمن و بحرین میں انسان سوز کارروائیاں کیں، لیکن عامۃ المسلمین نے اس منصوبے کو سمجھا اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ شام سے، عراق، یمن سے انھیں کھدیڑا جا رہا ہے اور اب یہ سکڑ رہے ہیں، داعش اب اتنی مضبوط طاقت نہیں رہی جتنی 2014ء میں تھی، اب وہ حیثیت نہیں رہی ان کی، اس لئے مستقبل میں کامیابی و کامرانی مسلمانوں کی ہوگی۔

اسلام ٹائمز: کیا آپکا ماننا یہ ہے کہ مسلمانوں سے ہی دولت کما کر حرمین شریف مسلمانوں میں انتشار پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔؟
حاجی اصغر علی کربلائی: آج پوری دنیا کو پتہ ہے کہ ان تمام داعش و القاعدہ و طالبان اور جتنے بھی تکفیری نظریات ہیں، ان سب کے پیچھے اب امریکہ نہیں، ان کے پیچھے جو مالی طاقت ہے جو سیاسی طاقت ہے، وہ آل سعود اور آل خلیفہ کی ہے۔

سوال: اس سال ایرانیوں کے حج پر جانے پر پابندی ہے، اس حوالے سے آپکے تاثرات کیا ہیں؟ کیوں یہ ان مقدس مقامات کو ذاتی ملکیت سمجھتے ہیں،؟ کیا یہ مسلم امہ کی ملکیت نہیں ہے اور مقدس مقامات نہیں ہیں، کیوں مسلمانوں کو انکے فرائض کی انجام دہی سے روکا جا رہا ہے۔؟
حاجی اصغر علی کربلائی: میں سمجھتا ہوں کہ ان کا یہ قدم تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگا، پچھلے سال جو منا میں حادثہ ہوا، جس میں ہزاروں حجاج کرام شہید ہوئے، یہ ان حاجیوں کا خون ہے جو رنگ لائے گا، جن کی وجہ سے آل سعود آج دنیا کے سامنے ننگا ہوا، اگر یہ واقعہ نہیں ہوا ہوتا تو شاید آل سعود اس حد تک ایکسپوز نہیں ہوا ہوتا، اب یہ کوشش کر رہے ہیں کہ ایرانی حاجیوں کو روکیں، تاکہ جو واقعہ وہاں رونما ہوا اس پر پردہ ڈالیں، اب آل سعود صرف ایک ہی چیز لے کر بیٹھیں ہیں کہ کہ حرمین شریفین ہماری ملکیت ہے اور عالم اسلام آج یہ کہہ رہا ہے کہ یہ تمام مسلمانوں کی ملکیت ہے، یہ کسی خاندان کی موروثی ملکیت نہیں ہے، اب آل سعود اپنا تسلط جمائے رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اسی کوشش کا نتیجہ ہے کہ ایرانی حاجیوں پر انھوں نے پابندی لگائی ہے، لیکن میں آپ کو بتاؤں کہ یہ زیادہ دیر چلنے والا نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: کرگل کے عوام جنکو آپ ہمیشہ آگاہی و بیداری کی طرف لے گئے اور آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ کرگل کا معاشرہ ایک بیدار معاشرہ ہے تو عالم اسلام میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس حوالے سے کرگل کی عوام کتنی آگاہ ہے اور بیداری عوام پر کتنا کام ہو رہا ہے۔؟
حاجی اصغر علی کربلائی: عالم اسلام کا کوئی بھی ایشو ہو تو اس پر کرگل کی عوام سب سے پہلے اپنا ردعمل ظاہر کرتی ہے، ہر سال جمعۃ الوداع کو یوم القدس ہو، ہزاروں کی تعداد میں مرد و زن گھروں سے نکل کر حسینی پارک کرگل میں جمع ہو جاتے ہیں اور یہ سلسلہ پچھلے کئی دہایوں سے چلا آرہا ہے، آیت اللہ شہید نمر کا مسئلہ ہوا، تو سب سے پہلے کرگل نے ہی ردعمل ظاہر کیا، یعنی عالم اسلام میں کوئی بھی مسئلہ ہو، چاہے فلسطین کا مسئلہ ہو، شام، عراق، بحرین کا مسئلہ ہو، سب سے پہلے کرگل کی عوام ہی ردعمل دیتی ہے، کیونکہ ہم کوشش کرتے ہیں کہ عالم اسلام کے مسائل سے لوگوں کو آگاہی فراہم کریں اور اسی کا نتیجہ ہے کہ یہاں پر جس طریقے سے یوم القدس منایا جاتا ہے، برسی امام خمینی (رہ) منائی جاتی ہے اور دوسرے ایام شہداء منائے جاتے ہیں، کہیں اور پر شاید اس طریقے سے نہ منائی جاتی ہو۔

سوال: جب سے اسلامی انقلاب ایران میں کامیاب ہوا، تب سے ہی کرگل میں ایک بیداری کی تحریک چلی ہے، لیکن کیا وجہ ہے کہ کرگل میں آپسی انتشار دیکھنے کو مل رہا ہے۔؟
حاجی اصغر علی کربلائی: ہمارے یہاں پر دو گروپ ہیں، ایک اسلامیہ اسکول اور ایک امام خمینی (رہ) مموریل ٹرسٹ ہے اور جہاں تک انجمن صاحب زمان کی بات ہے، وہ کسی سے کوئی اختلافات نہیں رکھتے بلکہ وہ انقلاب کے ہمراہ ہیں، اسلامیہ اسکول کی پوزیشن جو پہلے تھی، اب وہ اس پر نہیں ہے، وہ بھی تمام دن مناتے ہیں، چاہے یوم القدس ہو، برسی امام خمینی (رہ) ہو یا کوئی اور خاص دن، اب آہستہ آہستہ یہ بھی سمجھ چکے ہیں، اب عالم اسلام میں جو بھی ایشوز ہوتے ہیں، ان پر یہ بھی ردعمل ظاہر کرتے ہیں، کرگل قوم آج کسی بھی انجمن کے ساتھ منسلک ہو، سبھی مل کر اور متحد ہو کر اپنی آواز دنیا تک پہچاتے ہیں، عالم اسلام کے ایشوز پر کرگل میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔

سوال: مسلمانوں کے مشترکہ مسائل کے حل کیلئے اتحاد اسلامی کی اہمیت و ضرورت کے بارے میں آپکے تاثرتات کیا ہیں۔؟
حاجی اصغر علی کربلائی: آج اتحاد اسلامی کے لئے نہ شیعہ ہونا ایشو ہونا چاہئے اور نہ سنی ہونا ایشو ہونا چاہئے، ہمیں صرف ایک امت واحدہ اور امت مسلمہ کے ایشوز اٹھانے ہیں، آپ جس مکتب کی بھی پیروی کریں، اپنے فقہی مسائل کے اعتبار سے اور اپنے عقیدے کے اعتبار سے، لیکن ہم سبھی کا مقصد ایک ہونا چاہئے کہ اس رویے زمین پر دین اسلام کا احیاء ہو اور عالم کائنات میں اسلام اور مسلمان اتنے مضبوط ہوں کہ ان کی حکمرانی سارے عالم پر قائم ہو اور اس کے لئے ہمیں اتحاد و اتفاق کی فضا کو قائم کرنی ہے اور آپسی اختلافات کو ختم کرنا ہوگا، بقول امام خمینی (رہ) ’’جو بھی شیعہ سنی اختلافات کی بات کر ے گا نہ وہ شیعہ ہے اور نہ سنی ہے‘‘ ہم سبھی کو اسلام اور امت مسلمہ کی ہی بات کرنی چاہئے، اسی میں مسلمانوں کی فلاح اور بہبودی ہے۔
https://taghribnews.com/vdcdz90xnyt0so6.432y.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ