افسوسناک امر ہے کہ حکومت اور مشران کا کردار کہیں دکھائی نہیں دے رہا۔ وہاں کے مقامی افراد کی اگر بات کریں تو پارا چنار کے شیعہ سنی متحد رہنا چاہتے ہیں۔ وہ جنگ کے مخالف ہیں۔ وہ تو آپس میں رابطے میں بھی ہیں، امن کیساتھ رہنا چاہتے ہیں، وہ وحدت کے خواہاں ہیں، لیکن یہ خفیہ ہاتھ ہے، جو وہاں فرقہ واریت کو ہوا دے کر بدامنی کو فروغ دے رہا ہے۔
شیئرینگ :
تحریر: تصور حسین شہزاد
پارا چنار ایک بار پھر لہو رنگ ہے۔ وادی کے چاروں اطراف بارود کی بارش ہے اور یہاں آگ کو بڑھاوا دینے میں نہ صرف مقامی لوگ، بلکہ افغانستان سے آنیوالے تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گرد بھی مقامی افراد کی مدد کر رہے ہیں، جس کا مقصد صرف اور صرف ضلع کرم کے شیعہ قبائل کو تنگ کرنا ہے۔ ضلع کرم کی جغرافیائی حیثیت انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ اس کے 45 فیصد علاقے افغانستان کے اندر تک ہیں۔ مثال کے طور پر پارا چنار اور پیواڑ وہ علاقے ہیں، جو افغانستان کے اندر ہیں۔ پیواڑ سے تو رات کو افغان شہر جلال آباد کی روشنیاں دکھائی دیتی ہیں، جبکہ خود پارا چنار، جن علاقوں میں گھرا ہوا ہے، ان میں کارا خیلہ، تولہ، نستی کوٹ، لقمان خیل، زیران، ملانا، شلوزان، بُرکئی سمیت دیگر علاقے ہیں اوپر جائیں تو تری منگل ہے، جہاں طالبان کا آنا جانا لگتا رہتا ہے۔ ان علاقوں میں سنی اکثریت ہے۔
اصل واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک شیعہ شہری کی انتقالی زمین کیساتھ 30 کنال شاملاٹ کی اراضی تھی۔ اس 30 کنال اراضی پر ہمسایہ قبضہ کرنا چاہتا تھا اور اس کا جھگڑا کافی عرصے سے چل رہا تھا۔ ان دونوں افراد کی خاندانی دشمنی کافی پرانی ہے۔ اس جلتی پر تیل یُوں ڈالا گیا کہ چونکہ زمین ہتھیانے کی کوشش کرنیوالا سنی اور جس کی ملکیت ہے، وہ شیعہ ہے۔ تو یوں، اس سنی نے علاقے کے سنی علماء سے مدد مانگی کہ ’’آپ کا سنی بھائی، شیعوں کے ’’ظلم‘‘ کا شکار ہو رہا ہے، اور آپ خاموش ہیں‘‘، اس پر مولوی کی ’’اسلامی غیرت‘‘ جوش میں آئی اور اس نے نہ صرف سپیکر میں اعلان کر دیا بلکہ کچھ مسلح گروہوں سے رابطے کرکے انہیں بھی بُلوا لیا اور یوں ایک ٹکڑا زمین کی لڑائی، شیعہ سنی جنگ میں بدل گئی۔ اس لڑائی کا آغاز بوشہرہ اور مالی خیل گاوں کے قبائل میں شروع ہوا، جو اب پھیل چکا ہے۔ 6 دنوں میں اس وقت تک 50 سے زائد افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں، جبکہ 300 سے زائد زخمی ہیں۔ پاراچنار میں شاہراہ ہر قسم کی آمد و رفت کیلئے بند ہے، پارا چنار میں شاہراہ بند ہونے اور مسلسل جھڑپوں سے شہریوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔
اس لڑائی میں بھاری اسلحہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ میزائل اور مارٹر گولے تک داغے جا رہے ہیں۔ مسلسل فائرنگ ہو رہی ہے۔ پارا چنار میں موجود ذرائع سے بات ہوئی تو ان کا کہنا ہے کہ اس معاملے کو ٹھنڈا کرنے کیلئے مشران، حکومت اور اداروں کا کردار مشکوک ہے۔ مشران بھی مخلص نہیں اور حکومت بھی نہیں چاہتی کہ امن ہو۔ اگر حکومت اور مشران چاہیں تو ایک لمحے میں مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ امن قائم ہوسکتا ہے، مگر وہ خود نہیں چاہتے کہ امن قائم ہو۔ اس جنگ میں شدت اُس وقت آئی، جب افغانستان سے طالبان نے بھی آکر مقامی سنیوں کو مدد فراہم کی۔ افغانستان سے آنیوالے طالبان کو مبینہ طور پر افغان حکومت اور بھارت دونوں کی مکمل سپورٹ حاصل ہے۔ بھارت دراصل پاکستان میں بدامنی کو فروغ دینے میں ہمیشہ پیش پیش رہا ہے۔ گلگت بلتستان ہو یا بلوچستان، کرم ایجنسی ہو یا ملک کے اندر احتجاجی سیاست، کہیں نہ کہیں بھارت کی مداخلت ضرور نظر آجاتی ہے۔ ضلع کرم میں جاری اس حالیہ خوفناک جنگ کے تانے بانے بھی دہلی سے ملتے دکھائی دیتے ہیں۔
افسوسناک امر ہے کہ حکومت اور مشران کا کردار کہیں دکھائی نہیں دے رہا۔ وہاں کے مقامی افراد کی اگر بات کریں تو پارا چنار کے شیعہ سنی متحد رہنا چاہتے ہیں۔ وہ جنگ کے مخالف ہیں۔ وہ تو آپس میں رابطے میں بھی ہیں، امن کیساتھ رہنا چاہتے ہیں، وہ وحدت کے خواہاں ہیں، لیکن یہ خفیہ ہاتھ ہے، جو وہاں فرقہ واریت کو ہوا دے کر بدامنی کو فروغ دے رہا ہے۔ اس خفیہ ہاتھ کا کھوج لگانے کی ضرورت ہے۔ جس نے دو خاندانوں کی لڑائی کو شیعہ سنی لڑائی بنا پر پورے ریجن میں آگ لگا دی ہے۔ پارا چنار کے نوجوان اداروں سے بھی نالاں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم نے ہمیشہ اداروں کی حمایت کی ہے، ان کیساتھ تعاون کیا ہے، مگر افسوس کہ ہمارے ساتھ ہمارے ادارے بھی دھوکہ کر رہے ہیں۔ نوجوانوں کے مطابق ہم اپنے مورچوں میں موجود تھے اور اپنے علاقے کا دفاع کر رہے تھے۔ دشمن کے سامنے ایک مضبوط ڈھال بنے ہوئے تھے۔ مگر ادارے کے لوگ آئے اور کہا، آپ گھروں کو چلے جائیں، ہم آپ کا دفاع کریں گے۔ ہم نے ان پر اعتماد کیا۔ گھروں کو چلے گئے۔ مورچے خالی کر دیئے۔ دشمن نے بھرپور حملہ کیا اور ہمارے دفاع کی ذمہ داری لینے والے بھی فرار ہوگئے اور ہمیں دشمن کے رحم و کرم پر چھوڑ گئے۔
پارا چناری نوجوانوں کا جذبہ بلند ہے۔ وہ فرقہ واریت کیخلاف ہیں۔ وہ امن چاہتے ہیں، لیکن بعض قوتیں اپنے مفادات کیلئے وہاں امن نہیں ہونے دے رہیں۔ اب ملک کے دیگر شہروں میں بھی اس جنگ کیخلاف آوازیں اٹھنا شروع ہوگئی ہیں۔ ایم ڈبلیو ایم پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس نے اعلان کیا ہے کہ یہ مسئلہ حل نہ کروایا گیا تو وہ پارا چنار کی طرف امن مارچ کا اعلان کر دیں گے۔ علامہ راجہ ناصر عباس تحریک انصاف کے اتحادی ہیں۔ کے پی میں حکومت بھی تحریک انصاف کی ہے۔ انہیں احتجاجی کال دینے کی بجائے وزیراعلیٰ کے پی علی امین گنڈا پور سے فوری رابطہ کرنا چاہیئے اور صوبائی حکومت کے ذریعے مسئلہ حل کروانا چاہیئے۔ وہ اس چینل کو استعمال کرکے معاملہ حل کروا بھی سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ کراچی اور لاہور سمیت متعدد شہروں میں اس جنگ کیخلاف احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے ہیں۔ پورا پاکستان مطالبہ کر رہا ہے کہ بیگناہ لوگوں کی قتل و غارت کو روکا جائے، املاک کو نقصان سے بچایا جائے۔ لیکن افسوس کہ وفاقی حکومت بھی خاموش ہے۔
وہ اس لئے کہ کے پی میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے اور وفاقی حکومت یہ کہنے کی پوزیشن میں آئے گی کہ تحریک انصاف سے صوبہ سنبھالا ہی نہیں جا رہا ہے۔ یہ مجرمانہ غفلت اور سوچ ہے۔ جس کی مذمت کی جانی چاہیئے۔ وفاق پورے ملک کا ذمہ دار ہے۔ اگر پاراچنار جل رہا ہے تو وفاق کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے، یہ سوچے بغیر کہ وہاں کس کی حکومت ہے۔ لیکن افسوس کہ ہم لاشوں پر بھی سیاست کرنے سے باز نہیں آتے۔ پارا چنار میں جاری یہ تصادم بہت خوفناک ہے، اسے فوری نہ روکا گیا تو اس آگ کی تپش پورے ملک میں پھیل سکتی ہے۔ دشمن ہماری کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمیں الجھانے کیلئے ایسے واقعات کو سپورٹ کرتا ہے۔ سی پیک کا دوسرا مرحلہ پاکستان دشمنوں کو ایک آنکھ نہیں بھا رہا، اس حوالے سے دشمن کی کوشش ہے کہ پاکستان میں احتجاجی مظاہرے ہوں، توڑ پھوڑ ہو، قتل و غارت ہو اور بیرونی سرمایہ کار خود بخود بھاگ جائیں۔ ہمیں اپنے وطن کی سلامتی کیلئے ان مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا ہوگا۔ اس میں تاخیر ملک کیلئے نقصان دہ ہوسکتی ہے۔