لیکن میں آپ سے کہتا ہوں۔ جو آپ کا حق ہے، اس پر مذاکرات نہ کریں۔ وہ آپ کے ہتھیار سے زیادہ آپ کی مقاومت سے ڈرتے ہیں۔ مزاحمت ہمارے ہاتھ میں صرف ایک ہتھیار نہیں ہے، بلکہ یہ ہماری ہر سانس میں موجود فلسطین سے محبت اور ارادہ ہے، جس پر ہم محاصرے اور جارحیت کے باوجود قائم رہنا چاہتے ہیں۔
شیئرینگ :
ترتیب و تنظیم: علی واحدی
بشکریہ:اسلامی ٹائمز
اللہ کے نام سے جو رحمن و رحیم ہے
میں یحییٰ ایک مہاجر کا فرزند ہوں، جس نے جلاوطنی کو عارضی وطن اور خواب کو ابدی جدوجہد میں بدل دیا۔ جب میں یہ الفاظ لکھ رہا ہوں، مجھے اپنی زندگی کا گزرا ہوا ہر لمحہ یاد آرہا ہے۔ میرے بچپن کے وہ دن جب میں گلیوں میں کھیلتا تھا، طویل برسوں پر محیط صیہونی جیل اور خون کا ہر وہ قطرہ جو اس سرزمین پر بہایا گیا تھا۔ میں خان یونس کیمپ میں 1962ء میں پیدا ہوا۔ یہ وہ دور تھا، جب فلسطین کو ایک بکھری یاد اور جس کے نقشے کو سیاستدانوں نے ایک بھولے بسرے منصوبے کی طرح تاق نسیان میں ڈال دیا تھا۔ میں وہ شخص ہوں، جس کی زندگی آگ اور راکھ کے درمیان بنی تھی اور میں نے بہت جلد یہ جان لیا تھا کہ قبضے اور غلامی کے سائے میں زندگی ایک مستقل اور دائمی قید کے سوا کچھ نہیں۔ جب میں بچہ تھا اس وقت سے میں نے محسوس کر لیا تھا کہ اس سرزمین پر زندگی عام زندگی نہیں ہے اور جو بھی یہاں پیدا ہوتا ہے، اسے اپنے دل میں ایک ناقابل تسخیر ہتھیار کے ساتھ یہ جاننا چاہیئے کہ آزادی کا راستہ بہت طویل ہے۔
میں آپ کے لیے اپنی وصیت اپنے بچپنے سے شروع کرتا ہوں۔ اس بچے سے جس نے قابض قوت پر پہلا پتھر پھینکا اور یہ جانا کہ یہ پتھر ہمارے وہ الفاظ ہیں، جو ہم اس دنیا تک پہنچانا چاہتے ہیں، جو ہمارے زخموں پر خاموش ہے۔ غزہ کی گلیوں سے میں نے یہ سیکھا کہ انسان کو اس کی عمر سے نہیں بلکہ اپنے وطن کے لیے انجام دیئے گئے اقدامات سے ناپا اور پرکھا جاتا ہے اور میری زندگی ایسی تھی۔ جیلیں، جنگیں، درد اور امید۔ مجھے پہلی بار 1988ء میں قید کیا گیا اور عمر قید کی سزا سنائی گئی، لیکن مجھے ڈرنے کا کوئی راستہ اور وجہ نظر نہیں آئی۔ ان تاریک زندانوں کی ہر دیوار میں مجھے دور افق میں ایک کھڑکی اور جیل کی ہر سلاخ میں ایک روشنی کی کرن دکھائی دی، جو آزادی کے راستے کو روشن کرتی تھی۔ صیہونی جیل نے مجھے یہ سکھایا کہ صبر صرف ایک فضیلت نہیں ہے بلکہ ایک تلخ ہتھیار ہے۔ اس فرد کی طرح جو قطرہ قطرہ سمندر کو پییتا ہے۔
آپ کے لیے میری نصیحت یہ ہے کہ جیل سے مت ڈرو، جیل ہماری آزادی کے طویل راستے کا صرف ایک حصہ ہے۔ زندان نے مجھے یہ سکھایا کہ آزادی صرف ایک سلب و غصب شدہ حق نہیں ہے بلکہ درد سے پیدا ہونے والا اور صبر سے پرورش یافتہ خیال و مقصد ہے۔ جب مجھے 2011ء میں وفا الاحرار معاہدہ کے تحت رہا کیا گیا تو میں اب پہلے والا یحییٰ سنوار نہیں تھا۔ میں مضبوط ہوگیا تھا اور میرا عزم بالجزم ہوگیا تھا۔ اب مجھے سمجھ آرہی تھی کہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں، وہ صرف ایک عارضی جدوجہد نہیں ہے بلکہ ایسا مقدر ہے، جسے ہم اپنے خون کے آخری قطرے تک آگے لے جائیں گے۔ میری وصیت یہ ہے کہ تم اپنے وقار پر، جس پر سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا اور اپنے اس خواب پر جو کبھی نہیں مرتا، مسلح ہو کر ڈٹے رہو۔ دشمن چاہتا ہے کہ ہم مزاحمت کرنا چھوڑ دیں اور اپنے مسئلے کو ایک لامتناہی مذاکرات میں بدل دیں۔
لیکن میں آپ سے کہتا ہوں۔ جو آپ کا حق ہے، اس پر مذاکرات نہ کریں۔ وہ آپ کے ہتھیار سے زیادہ آپ کی مقاومت سے ڈرتے ہیں۔ مزاحمت ہمارے ہاتھ میں صرف ایک ہتھیار نہیں ہے، بلکہ یہ ہماری ہر سانس میں موجود فلسطین سے محبت اور ارادہ ہے، جس پر ہم محاصرے اور جارحیت کے باوجود قائم رہنا چاہتے ہیں۔ میں وصیت کرتا ہوں کہ شہداء کے خون کے ساتھ وفادار رہیں۔ ان لوگوں کے ساتھ عہد وفا جو ہمارے لیے کانٹوں سے بھرے اس راستے پر چلے اور اپنے خون سے آزادی کی راہ ہموار کرگئے، لہٰذا ان قربانیوں کو سیاست دانوں اور سفارتکاروں کے ہاتھوں کھلونا بنا کر ضائع نہ کریں۔ ہم یہاں اس لیے ہیں کہ جو راستہ ہمارے پیشروؤں نے شروع کیا ہے، اس کو جاری رکھیں اور ہم اس راستے سے کبھی نہیں ہٹیں گے، چاہے اس کی ہمیں کتنی ہی بڑی قیمت کیوں نہ ادا کرنی پڑے۔ غزہ مزاحمت کا دارالحکومت اور فلسطین کا دل تھا، ہے اور رہے گا۔ اس دل کی دھڑکن کبھی نہیں رکے گی، خواہ ہمارے لیے زمین کتنی ہی تنگ کیوں نہ ہو جائے۔
جب میں نے 2017ء میں غزہ میں حماس کی قیادت سنبھالی تو یہ صرف اقتدار کی منتقلی نہیں تھی بلکہ اس مزاحمت کا تسلسل تھا، جو پتھروں سے شروع ہوا اور بندوقوں سے جاری رہا۔ میں ہر روز اپنے محصور لوگوں کے درد کو محسوس کرتا اور میں جانتا تھا کہ آزادی کی طرف بڑھنے والے ہر قدم کی ہمیں قیمت چکانی ہوگی، لیکن میں آپ کو بتاتا ہوں کہ مقاومت ترک کرنے کی قیمت بہت زیادہ ہے۔ لہٰذا اپنی زمین سے اس طرح چپک جاؤ جیسے جڑ مٹی سے چپکی ہوئی ہے۔ یاد رکھو کوئی بھی ہوا ان لوگوں کو نہیں اکھاڑ سکتی، جنہوں نے جینے کا فیصلہ کر لیا ہو۔ طوفان الاقصیٰ کی جنگ میں، میں صرف ایک گروہ یا تحریک کا کمانڈر نہیں تھا بلکہ آزادی کا خواب دیکھنے والے ہر فلسطینی کی آواز تھا۔ میرا یقین تھا کہ مزاحمت صرف ایک آپشن نہیں بلکہ ایک فرض ہے۔ میں چاہتا تھا کہ یہ جنگ فلسطینی جدوجہد کی کتاب کا ایک نیا صفحہ بن جائے، جہاں تمام دھڑے ایک ہی محاذ پر متحد ہو کر ایک ایسے دشمن کے خلاف قیام کریں، جس نے کسی بچے، بوڑھے، عورت حتیٰ پتھر اور درخت کے درمیان بھی کبھی فرق نہیں کیا۔
طوفان الاقصیٰ اجسام سے زیادہ ارواح اور ہتھیاروں سے پہلے عزم و ارادے کی جنگ تھی۔ میں نے جو کچھ چھوڑا، وہ میری ذاتی نہیں بلکہ اجتماعی میراث ہے، ہر اس فلسطینی کے لیے جس نے آزادی کا خواب دیکھا اور ہر اس ماں کے لیے جس نے اپنے شہید بچے کو کندھوں پر اٹھایا، نیز ہر اس باپ کے لیے جو ایک مجرم اور ستمگار کے ہاتھوں ماری گئی اپنی بیٹی کے لیے بلک بلک کر رویا۔ میری آخری وصیت یہ ہے کہ ہرگز فراموش نہ کریں کہ مزاحمت بے معنی شے ہے، اس میں صرف گولی نہیں چلائی جاتی بلکہ مزاحمت وہ زندگی ہے، جو عزت اور وقار کے ساتھ گزاری جاتی ہے۔ جیل اور محاصرے نے مجھے سکھایا کہ جنگ بہت طویل ہے اور راستہ بڑا کٹھن ہے، لیکن اس نے مجھے یہ بھی سکھایا کہ جو لوگ ہتھیار ڈالنے سے انکار کرتے ہیں، وہ اپنے ہاتھوں سے خود معجزے کرتے ہیں۔
اس بات کا انتظار مت کرو کہ دنیا تمہیں انصاف دے گی۔ میں نے ایک زندگی گزاری ہے اور خود مشاہدہ کیا ہے کہ دنیا ہمارے درد کے مسئلے پر خاموشی اختیار کر لیتی ہے۔ انصاف کا انتظار نہ کریں بلکہ خود انصاف بنیں۔ فلسطین کا خواب اپنے دلوں میں بسائے اپنے ہر زخم کو ہتھیار اور ہر آنسو کو امید کا چشمہ بنا دیں۔ یہ میری وصیت ہے کہ اپنے ہتھیار مت پھینکو، اپنے پتھر دور نہ رکھو، اپنے شہیدوں کو مت بھولو اور اس خواب کا ہرگز سودا نہ کرو، جو تمہارا حق ہے۔ ہم یہیں، اپنی سرزمین جو ہمارا دل اور ہمارے بچوں کا مستقبل ہے، میں ساکن رہیں گے۔ میں تمہیں فلسطین کی وصیت کرتا ہوں، اس سرزمین کی، جس سے میں آخری سانس تک محبت کرتا ہوں اور اس خواب کے لیے، جو میں نے اپنے کندھوں پر اس پہاڑ کی طرح اٹھا رکھا ہے، جو کبھی نہیں جھکتا۔
اگر میں گروں تو تم میرے ساتھ نہ گرنا۔ وہ پرچم سربلند رکھنا، جو کبھی نہیں گرا اور میرے خون کو ایک پل بنا لینا، تاکہ ہماری راکھ سے پیدا ہونے والی نسل پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہو۔ یہ نہ بھولیں کہ وطن صرف سنانے کی کہانی نہیں ہے، بلکہ جینے کے لیے ایک سچ ہے۔ اور اس دھرتی کی کوکھ سے پیدا ہونے والے ہر شہید کے بعد مزاحمت کرنے والے ہزاروں اور مجاہد پیدا ہوتے ہیں۔ اگر طوفان واپس آجائے اور میں تمہارے درمیان نہ رہوں تو یاد رکھنا کہ میں آزادی کی لہروں کا ایک قطرہ تھا اور اگر زندہ رہا تو تمہیں اس راستے پر چلتا دیکھ سکوں۔ دشمن کے گلے کا کانٹا بنیں، ایسا سیلاب بنیں، جو پیچھے نہیں ہٹتا اور اس وقت تک آرام و سکون سے نہ بیٹھیں، جب تک دنیا یہ تسلیم نہیں کر لیتی کہ ہمارے حقوق ہیں اور ہم ایک محدود گروہ نہیں ہیں۔