تاریخ شائع کریں2012 28 June گھنٹہ 10:56
خبر کا کوڈ : 100016
اتحاد اسلامی کے منشور کی روشنی میں:

ھفتہ وار محفل مذاکرہ درس اسلام01 آخری حصہ

تنا(TNA)برصغیر بیورو
جے کے چینل اور نالج چینل کشمیر پر جمعہ ۲۲جون ۲۰۱۲سے عالمی مجلس برای تقریب مذاہب اسلامی کی طرف سے اتحاد اسلامی کے منشور کی روشنی میں ھفتہ وار محفل مذاکرہ درس اسلام کے نام سے آغاز ہوا ۔ محفل مذاکرہ کے میزبان تقریب (مذاھب اسلامی)خبررساں ادارے (تنا) کے بر صغیر کیلئے بیورو چیف اور عالمی مجلس برای تقریب مذاھب اسلامی کے رکن حجت الاسلام والمسلمین حاج عبدالحسین موسوی کشمیری نے تلاوت قرآن کے بعد اسلامی اتحاد کے منشور کے مقدمے کے ایک حصے کو پڑھ کر بحث کا آغاز کیا۔
ھفتہ وار محفل مذاکرہ درس اسلام01 آخری حصہ
مباحثہ "درس اسلام۰۱"کا آخری حصہ:
عبدالحسین:مفتی اعظم صاحب ابھی بتا رہے تھے کہ اتحادی فورم کو کیسے موثر رہے ہیں اور انہیں مذید زیادہ موثر بنایا جاسکتا ہے۔ 

مفتی اعظم مولانا مفتی بشیر الدین :میں عرض کرونگا آغا صاحب شاید ابھی آپ کو اس کی واقفیت نہیں لیکن تمام کشمیریوں کو اس کی واقفیت ہے۔ اتحاد ملت کے نام سے ایک تنظیم بنی ہے۔ تقریباً دس بارہ تنظیموں پر مشتمل ہےجن کا مقصد یہ ہے کہ جو اوپر والی سطح ہے آپ ہیں ، میں ہوں، یہ ہیں، وہ ہیں(علماء کی طرف اشارہ)، ہم میں اتفاق ہے۔ لیکن نچلی سطح جو ہے ، زمینی سطح جو ہے اس پر تھوڑی بہت درار پڑی ہے۔ اس کے لئے مثلاً پچھلے سال کچھ واقعات ہمارے سامنے آئے۔ یہ میں آپ کو بتادوں کہ یہاں ایک نواحی علاقہ کے ایک گاؤں میں دو، دروں(طائفوں) کے درمیان تنازعہ پیدا ہوا شیعہ اور سنی کے درمیان ۔ اس میں ہمارے مقتدر اصحاب، علماء نے چاہئے جمعیت اہل حدیث کے ساتھ تعلق رکھتے ہوں، یا جماعت اسلامی کے ساتھ، یا متعدد علماء کے ساتھ یعنی جو تھے جو اپنی سرکردگی میں جن کو میں نے باضابطہ ایک ٹیم کی صورت میں وہاں بھیج دیا اور ان کے جو بھی اختلافات تھے ان کو حتی الامکان جتنا بھی ہوسکا اس کو کم کرنے کی بلکہ ختم کرنے کی کوشش کی ۔ اس میں ہماری بہت بڑی کامیابی ہے کہ ہم اس وقت بھی میرے سامنے میری عدالت عظمیٰ کے سامنے تقریباً دو، چار، پانچ کیس ایسے ہیں جہاں ٹکراؤ پیدا ہوا ہے جماعت اہلحدیث کے درمیان اور جماعت اسلامی کے درمیان، لیکن میں ان دونوں کا خادم ہوں ، میں کوشش کر رہا ہوں بحیثیت مفتی اعظم اور بحیثیت اتحاد ملت کے خادم شریعت ہونے کے ناطے اس اختلاف کو دور کروں۔ 

عبدالحسین:میں واپس میر واعظ صاحب سے جاننا چاہوں گا کہ آپ نے ایک نشاندہی کی کہ علماء کو کچھ کرنا چاہئے یقیناً ابھی جو ہم دیکھ رہے ہیں کہ کشمیر میں اسلامی ماحول کی حفاظت کرنے میں علماء نے اچھا خاصا کردار ادا کیا جبکہ ماضی میں یہاں بہت برے حالات تھے اور اس کو زیادہ مؤثر بنانے کے لئے اور دوسرے جو ہمارے ہمسایہ ہیں اس بات کو مثالی طور پر لیں کہ اسلام کے تعلیمات کی روشنی میں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کیسے محبت سے رہا جاسکتا ہے۔ آپ اس بارے میں بتائیے کہ آپ کیا کہنا چاہئے گے کہ اس کو زیادہ مؤثر بنانے کے لئے کیا کرنا چاہئے؟ 

میرواعظ سید عبدالطیف بخاری:پہلی چیز یہ ہے کہ ہمیں ٹالرنس(قوت برداشت) پیدا کرنی ہے ، ایک دوسرے کو برداشت کرنا ہے۔ اگر ہم ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا مادہ اپنے میں پیدا کریں،بقائے باہم طریقے پر کام کرنا چاہیں، اسلام کا کام کرنا چاہئں، اسلام کی خدمت کرنی چاہئں۔ تو میرا خیال ہے کہ انشاء اللہ، اللہ ہماری مدد کرے گا۔ 

تو دوسری بات یہ کہ ہمیں ایکدوسروے مسلک کی مسجدوں میں جانا چاہئے۔ جو علماء اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ ملت میں ایک اتحاد پید اہوجائے ۔ ہمیں گراس روٹ لیول پر جانا چاہئے ، مسجدوں میں جانا چاہئے اور جو اتحاد کا پیغام ہے اتفاق کا پیغام ہے یہ عام لوگوں تک پہنچنا چاہئے۔ جس طرح ہم یہ کہتے ہیں کہ نماز کے بارے میں تو ہر جگہ مسجد میں ہمارے جو خطیب حضرات ہیں تو وہ خطبات دیتے ہیں ، نماز کی اہمیت بیان کرتے ہیں، کئی حج کی اہمیت بیان کرتے ہیں۔ تو اسی طرح جو اتفاق کی بات ہے ۔ اتفاق اور اتحاد یہ تو اساسی چیز ہے اسلام کی۔ تو اس پر بھی جو مفتی اعظم نے اتحاد ملت باےیا ہے ، مسلم پرسنل لاء بورڈ اس کی وساطت سے بھی ملت میں اتفاق کرنے کی کوشش کررہے ہیں تو اس میں ذاتی طور میں گواہ ہوں ۔ تو ہمیں ایسے پروگرام بنانے چاہئے کہ جو مرکزی مسجد ہو اس میں جاکر لوگوں کو اتحاد کا پیغام دیں۔ اور جو نفرت کی دیواریں ہیں ان کو مٹائیں اور محبت کے پیغام کو ہم عام کریں۔ تو اس سلسلے میں ہمیں اتنی فراخ دلی ہونی چاہئے کہ ایک دوسرے کی مسجد میں ہم جاسکے ، ایک مسلک والی مسجد میں دوسرے مسلک کا بھی جاسکے ، ایک دوسرے کے پیچھے ہم نماز بھی پڑھیں اتنی فراخ دلی ہمیں اپنے میں پیدا کرنی چاہئے۔ اس کے علاوہ جو مفتی صاحب نے ولایت کی بات کی ۔ اس سلسے میں ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ پورے برصغیر میں خاص طور کشمیر میں جو اولیائے کرام نے پیغام دیا ہے، وہ محبت کا پیغام ہے، وہ اخوت کا پیغام ، وہ شفقت کا پیغام ہے اس پیغام کو ہمیں گھر گھر پہنچانے کی ضرورت ہے۔ چونکہ یہاں ہماری جو کشمیر کی اکثریت ہے لوگوں کی وہ اولیائے کرام سے بہت عقیدت رکھتی ہیں ۔ تو اگر ہم ان کا پیغام محبت جو ہے، پیغام اخوت جو ہے اگر ہم لوگوں کو اس کے بارے میں جانکاری دے دیں تو میرا خیال ہے کہ یہ جو نااتفاقی ہے اس پر بہت حد تک قابو پاسکتے ہیں۔
عبدالحسین:میں مفتی اعظم سے پہلے سید حسین صاحب سے اس بارے میں جاننا چاہوں گا ایک ہی سوال دونوں حضرات سے کہ یہ جو اولیاء اللہ کا محبت کا پیغام جو اصل میں اسلام کا پیغام ہے ، رحمت کا پیغام ہے اس کو زیادہ مؤثر بنانے کے لئے آپ کیا کچھ سوچتے ہیں کہ کرنا چاہئے؟ 

استاد حوزہ علمیہ جامعہ باب العلم سید محمد حسین::یہ اولیاء اللہ جو ہیں خد انے ان کے بارے میں فرمایا ہے" أَلا إِنَّ أَوْلِياءَ اللَّهِ لا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لا هُمْ يَحْزَنُونَ " اولیاء اللہ کے بارے میں قرآن میں ذکر ہوا ہے کہ انبیاء کے بعد ہم ان کی قدر کر لینگے ۔ اسلام اتنا وسیع دین ہے کہ ہم کو اسلام نے کسی کافر معبود کو جو کافروں کا معبود ہو اس کو برا بھلا کہنے کی اجزات نہیں دی ہے۔ قرآن مجید فرماتا ہے کہ غلط خدا کو برا بھلا کہوں گے تو وہ اصلی حق خدا کو برا بھلا کہیں،ہمیں گوارا نہیں ۔ پھر اولیاء الہٰی کی کوئی بات ہی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ خود قرآن میں ہم پڑھیں گے۔ " إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ " مومنوں کے درمیان اصلاح کرو یہ افساد کی بات نہیں ہے ۔ اس کے علاوہ ایک حدیث میں جناب جعفر صادق علیہ السلام کے ہاں آیا عرض کروں وہ فرماتے ہیں کہ ‘روزِ محشر ندا ہوجائیگی تمام مخلوقات پر"قوموا زوار اللہ فدخلو الجنۃ" زوارین خدا اٹھ جائینگے جنت میں داخل ہوجائینگے ۔ جب وہ جماعت اٹھے گی اور در جنت پر پہنچیں گی ان کو پوچھا جائے گا کہ "من انتم" تم کون ہو۔ کہیں گے کہ ہم زوارانِ خدا ہیں ۔ ان سے بتایا جائے گا آپ کیا کر رہے تھے وہ کہیں گے ‘‘کنا نزورلوجہ اللہ کنا نجالس لوجہ اللہ’’ ہم خدا کے لئے کسی سے ملنے جاتے تھے ، ایک دوسرے سے ملاقات کرتے مجلسیں کرتے تھے وہ خدا کے لئے کرتے تھے۔ 

عبدالحسین:وقت اجازت نہیں دے رہا ہے ۔ آخر میں مفتی صاحب سے پوچھنا چاہوں گا کہ آپ اس حوالے کیا پیغام دینا چاہیں گے ؟ 

مفتی اعظم کشمیر مفتی بشیر الدین:میں یہ پیغام دینا چاہوں گا کہ اولیائے کرام کا درجہ جو ہے انبیائے کرام ، خلفائے راشدین اور صحابہ کبار کے بعد بہت ہی اعلیٰ اور بلند ہیں۔ وہ اولیائے کرام جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے " أَلا إِنَّ أَوْلِياءَ اللَّهِ لا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لا هُمْ يَحْزَنُونَ " اور اس سلسلے میں بخاری شریف میں ایک حدیث ہے جس کے راوی ہیں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ وہ فرماتے ہیں کہ ایک روز ہمارے رسول پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ممبر پاک پر وعظ فرما رہے تھے اور فرمایا کہ قیامت کے روز ایک جماعت دیکھنے کو ملے گی جو جماعت بڑے حشاش بشاش ہونگے ، ان کے چہروں پر نہ خوف طاری ہوگا ، ان کے دلوں پر نہ کوئی لرزہ طاری ہوگا، بلکہ وہ حشاش بشاش ہونگے ۔ انبیاء اور مرسلین وہ ان کو دیکھ کر رشک کرینگے پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صحابہ کبار نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہ کون سی جماعت ہوگی فرمایا: " أَلا إِنَّ أَوْلِياءَ اللَّهِ لا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لا هُمْ يَحْزَنُونَ " ان کا درجہ یہی ہے۔
 
یہ جو اتفاق کی بات کر رہے ہیں میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ سنی شیعہ ، اہلحدیث یا حنفی ، مالکی وغیرہ یہ اپنی اپنی جگہ پر ہیں لیکن شیعہ سنی کے درمیان جو بات ہے اس میں شیعہ کو بھی جن کے بارے میں یاغلط فہمی ہو رہی ہے یا کی جارہی ہے کہ وہ صحابہ کبار کے بارے میں تھوڑا سا فرق کرتے ہیں اس کو فرق کو مٹانا ہے۔ 

امہات المومنین کے بارے میں ان کی کیا رائے ہے اس رائے کو کوئی رائے دکھا جائے وہ ہماری مائیں ہیں۔ اوراسی طرح ہم اپنے بھائیوں کو کہیں گے کہ حسنین علیہ السلام کا درجہ بہت بلند و بالا ہے ۔ حضرت شاہ ولایت کا درجہ بہت بلند و بالا ہے۔ حضرت امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہ ان کے بارے میں جو کچھ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ۔ وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے" إِنَّما يُريدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهيراً " اہلبیت کا درجہ قرآن مجید میں موجود ہیں۔ اس درجے کو ہمیں سمجھنا ہے۔ ہم کو سمجھنا ہے کہ اہلبیت کا درجہ بہت بلند و بالا ہے۔ جب یہ تمام چیزیں ایک دوسرے کی بات سمجھیں گے تو کوئی اختلاف نہیں۔ 

عبدالحسین:جزاک اللہ ۔ میں مفتی اعظم کا بہت شکریہ ادا کرتا ہوں انہوں نے بہت واضح الفاظ میں اختلاف کا نقطہ سامنے رکھا جس پر الحمد للہ ہمارے مرجع اور ولی فقیہ نے واضح طور پر حکم دیاہے کہ اہلسنت کے مقدسات کی اہانت کرنا حرام ہے اور جہاں تک ازواج انبیاء کا سوال ہے ۔(اس حوالے سے فرمایا ہے) تمام انبیاء کے ازواج کی اہانت کرنا حرام ہے چونکہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمام انبیاء سے افضل ہیں ان کی ازواج کی اہانت کرنا اتنا ہی بڑا گناہ ہے۔
https://taghribnews.com/vdchzvnz-23nvvd.4lt2.html
منبع : تنا کشمیر بیورو
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ