میزبان درس اسلام سید عبدالحسین کشمیری درس اسلام کی دوسری محفل کی پہلی نشست کا آغاز کرتے ہوئے :بسم اللہ الرحمٰن الرحیم؛درود و سلام پیغمبر آخر الزمان ، رحمۃ اللعالمین اور آپ کی آل و اصحاب منتجبین پر ۔محفل مذاکرہ "درس اسلام" کے دوسری محفل کی پہلی نشست کو لیکر حاضر ہیں۔ جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ پچھلی نشست میں مفتی اعظم(مفتی بشیرالدین صاحب) نے جس نقطے کی طرف اشارہ کیا کہ مسلمانوں کو شیعہ ہوں یاسنی کو مقدسات کا خیال رکھنا چاہئے اور ابھی اسی موضوع کو لے گفتگو کرینگے میر واعظ وسطی کشمیر مولانا سید عبد الطیف بخاری صاحب اور انجمن شرعی شیعیان کے نمائندہ اور حوزہ علمیہ جامعہ باب العلم کے استاد جناب حجۃ الاسلام والمسلمین سید محمد حسین موسوی صاحب اور امام جمعہ مسجد امام اعظم لاوے پورہ اور معروف اسلامی اسکالر جناب مولانا غلام محمد پرے صاحب ۔
آپ لوگوں سے میں یہ جاننا چاہوں گا کہ جو اختلافی مسائل ہیں ، مقدسات کی اہانت کرنا توہین کرنا، اس کی روک تھام کے لئے اور اس میں ایک صحیح اسلامی رنگ حاکم بنانے کے لئے کیا کچھ کرنا چاہئے؟۔
میرواعظ سید عبدالطیف بخاری: یہ بات تو ہمارے درمیان مشترک ہے کہ جو صحابہ کی جماعت ہے۔ یہ ایک مثالی جماعت تھی جس کی تربیت، جس کی تشکیل خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمائی۔ پچھلے گفتگو میں مفتی بشیر الدین صاحب نے ایک نقطہ ابھارا کہ" امہات المومنین" کے بارے میں شیعہ علماء کا کیا نقطہ نظر ہے اور صحابہ کے بارے میں کیا نقطہ نظر ہے۔
جب ہم دیکھتے ہیں حدیث میں ہے کہ"لاتتخذوا اصحابی غرضا بعدی" میرے بعد صحابہ کو تنقید کا نشانہ نہیں بنانا۔ تو اس سلسلے میں سب سے پہلے میں یہ جاننا چاہوں گا کہ شیعہ علماء کا اس سلسلے میں نقطۂ نظر کیا ہے تاکہ غلط فہمیاں دور ہوجائیں۔
عبدالحسین: بہت شکریہ میر واعظ صاحب میں آج پچھلی نشست کی گلچینی کے بارے میں اشارہ کرنا چاہتا تھا مگر آپ نے جو سوال کیا اور پہلی محفل کی آخری نشست میں بھی میں نے اشارہ کیا کہ امام خامنہ ای جو مرجع تقلید ہیں، عالم اسلام کے ولی فقیہ ہیں ۔اس حوالے سے اُن کا فتویٰ آیا ہے کہ اہلسنت کے مقدسات کی توہین کرنا حرام ہے۔ اور جو شیعہ اہلبیت اطہار (علیہم السلام) کو بہت عزیز مانتا ہو کہ میرے لئے سب سے عزیز اہل بیت اطہار (علیہم السلام) ہیں، مگر اس کا یہ دعویٰ تب تک صحیح نہیں ہوسکتا ہے جب تک نہ وہ اپنے عمل سے ثابت کر دکھا ئے۔
شیعہ یعنی جس کا عقیدہ ہے کہ میرا امام زندہ ہیں۔ اور زندہ امام کے دور میں اس کے پاس ہر وہ کام کرنے کے لئے جواز ہونا چاہئے کہ اس کا زندہ امام کیا کہہ رہے ہیں ، امام زمانہ (عج) اس کو کیا کہہ رہے ہیں ۔ ظاہر سی بات ہے کہ امام زمانہ (عج) کے ساتھ عوام کو دسترس نہیں ہے،آپ پردہ غیب میں ہیں۔ امام زمانہ(عج) اُن کے نائب برحق جو ہیں ان کی تقلید شیعہ کرتے ہیں۔ اور شیعہ کے لئے یہ ضروری ہے کہ اُس کا مجتہد زندہ ہونا چاہئے ۔ اگر امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ ہمارے مرجع تقلید تھے مگر انہوں نے وفات کی ہے اس لئےاگر جو ہمارے نئے مسائل ہیں اس کے لئے ہمیں زندہ نائب امام کی طرف رجوع کرنا لازمی ہے ۔ اسی لئے یہ جو پچھلی نشست میں, میں نے جس فتوے کی بات کی تھی اور اتفاقا آج میں نے میگزین بھی ساتھ لایا ہے جس میں امام کا فتوی چھپ چکا ہے۔ امام خامنہ ای اپنے فتوی میں فرماتے ہیں :
اہانت به نمادھای برادران اہل سنت از جمله اتہام زنی به ہمسر پیامبر اسلام (حضرت عایشه)حرام است۔این موضوع شامل زنان ہمه پیامبران و به ویژہ سید الانبیاء پیامبر اعظم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم می شود"۔
فرماتے ہیں کہ اہل سنت کے مقدسات کی توہین کرنا حرام ہے از جملہ زوجہ پیغمبر اسلام (حضرت عایشہ) پر تہمت لگانا حرام ہے ۔ اس موضوع میں جملہ ازواج انبیاء بالخصوص سید الانبیاء پیغمبر اعظم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شامل ہیں۔ اس موضوع کو لے کرامام نے واضح طور پر پیغام دیا ہے کہ جو کوئی سنی مقدسات کی چاہئے وہ اصحاب یا ازواج نبی کے عنوان سے ہوں ،"اہلسنت کے مقدسات "کا کلمہ استعمال کرکے انہوں نے واضح فرمایا ہے کہ جو بھی اہلسنت کے نزدیک محترم اور مقدس ہیں ان کی توہین کرنا حرام ہے۔ یعنی وہ شیعہ جو ایسا کچھ کرتا ہے وہ حقیقت میں فعل حرام کرتا ہے یعنی اسے اس پر جہنم کی بشارت ملتی ہے جنت کی بشارت نہیں۔
میرواعظ سید عبدالطیف: اسطرح وہ اپنے امام کی نافرمانی کرتے ہیں؟
عبدالحسین: جی ہاں نافرمانی ہے ہی ،لیکن امام نے حرام قرار دیا ہے۔انہوں نے جائز نہیں ،ایسا نہیں کیا جانا چاہئے وغیرہ نہیں کہا بلکہ حرام قرار دیا ہے۔حرام کا مرتکب یعنی جہنم کا مستحق ہے۔
امام کے فتوے کے بارے میں کوئی کہہ سکتا ہےکہ امام خامنہ ای چونکہ ولی فقیہ ہیں اہل سنت کو جذب کرنے کیلئے ایسا فتوی دیا ہو گا نہیں یہ شیعہ عقیدہ ہے ۔یہ آيت اللہ ناصر مکارم شیرازی ہیں (حضرت آیت اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی کی تصویر کے ساتھ اس حوالے بیان کو دکھاتے ہوئے)انہوں بلا فاصلہ جب امام خامنہ ای نے یہ فتویٰ دیا اس اپر اپنے درس خارج کے آغاز میں اس موضوع پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا:
اخیرا یک روحانی نما،آدم بی سواد،مجنون و مزدور به نام شیعه،فحاشی عجیب به ہمسران پیامبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآله وسلم)کردہ و به مقدسات برخی مذاھب اہانت بسیاری داشته و نسبت ھای ناروای عجیبی را به ہمسران پیامبر (صلی اللہ علیه وآله وسلم) نسبت داہ است۔
(اسکا ترجمہ کرنے سے پہلے) میں داستان بتاؤں گا کہ، بات کیا ہے۔ ‘‘ایک شخص اس لباس میں (شیعہ حوزہ ہای علمیہ کے فاضل طالبعلموں اور اساتذہ کا مخصوص لباس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) کویت کا ایک شخص لندن میں بیٹھ کے مجلس پڑھتے ہیں اور مجلس کے دوران وہ ام المومنین حضرت عائشہ کے نسبت بد کلامی کرتے ہیں اس پر سعودی عرب کچھ شیعہ اپنے علماء سے سوال کرتے ہیں اور وہاں کے شیعہ علماء امام خامنہ ای کو استفتاء کرتے ہیں کہ ہمیں بتائیے کہ اس کا شرعی جواز کیا ہے۔ کیا ایسا کچھ کہا جاسکتا ہے۔ تو آپ نے دیکھا کہ امام نے صراحتاً فتویٰ دیا کہ حرام ہے’’۔ مگر حضرت آیت اللہ العظمیٰ ناصر مکارم شیرازی کتنے لطیف الفاظ میں لکھتے ہیں کہ اخیرا یک روحانی نما،آدم بی سواد.... یعنی ابھی ایک عالم نما شخص ،ان پڑھ،دیوانہ،شیعہ کے نام پر ایجنٹ،ازواج پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نسبت عجیب بد کلامی کی ہے، اور بعض مذہبی مقدسات کی زبردست توہین کی ہے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج کے نسبت ناروا تہمتیں لگائی ہیں۔
انہوں نے اپنے درس خارج میں اس پر مفصل بحث کی انہوں نے مذید کہا:" ان سے بڑکر وہ بڑے نادان لوگ ہیں جو اسے مستند تسلیم کرگئے ہیں ۔ یہ لوگ بھول گئے ہیں کہ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے سلمان رشدی کو ازواج نبی کے نسبت بد کلامی اور مقدسات کی توہین کرنےپر مرتد قرار دیا تھا۔" انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سینکڑوں شیعہ علماء نے اس بیان کی بھر پور مذمت کی ہے لیکن شیعہ علماء کی بات قبول کرنے کے بجائےاس ایجنٹ کی بات کو قبول کی جاتی ہے"۔
البتہ پھر ہم نے دیکھا کہ شیخ الرئیس جامعہ الازھر"ڈاکٹر احمد الطیب" انہوں نے اس فتوے کو "فتوی کریمہ"عنوان کرتے ہوئے اس فتوے کو شیعہ سنی مسلمانوں کے درمیان اختلاف پیدا کرنے والوں کے منہ پر طمانچہ قرار دیا ہے ۔ انہوں نے بہت زبردست اس کی قدر دانی کی ہے۔ اور اسی طرح پورے عالم میں بڑی علمی شخصیتوں اسے سراہا۔ عرب ورلڈ میں اس پر بحث چلی، علماء نے اس پہ بحث کی، میڈیا میں باتیں آئی اور انصافا یہ نئی بات نہیں ہے۔ یہ آج شیعہ نہیں کہہ رہے ہیں ۔ مگر یہ جاننا چاہئے کہ ایک شیعہ کتنا اکاؤنٹیبل ہے ایک شیعہ جب کوئی بات کرے جلدی سے آپ کو ان سے پہلے یہ پوچھنا ہے کہ کیا آپ کا امام اس کی اجازت دیتا ہے ۔ آپ سند دکھائیے ، فتویٰ دکھائیے۔
استاد حوزہ علمیہ جامعہ باب العلم سید محمد حسین: یہ بتائيں یہ عالم جو تھا،درواقع علماء کے لباس میں جاہل جو تھا یہ اصلاً کس کا ایجنٹ تھا۔؟
عبدالحسین: یہ تو ظاہر سی بات ہے کہ جو اسلام دشمن طاقتیں ہیں، جن کو شیعہ سنی کو آپس میں لڑانے میں فائدہ ہے وہ تو اسرائیل کا فائدہ ہے، امریکہ کا فائدہ ہے۔ یہی تو پہچاننا ہے کہ اسلام کے لباس میں اسلامی سماج میں کون اسلام کا ایجنٹ ہے اور کون امریکا اور اسرائیل کا ایجنٹ یہ جاننا ضروری ہے۔
سربراہ انجمن مظہر الحق میرواعظ سید عبدالطیف: اس سلسلے میں ایک بات کہوں کہ میں نے احمد حسین دیدات کی ایک تقریر کی ریکارڈڈ کیسٹ دیکھ لی۔ جس میں احمد دیدات صاحب اپنی تقریر میں فرما رہے تھے کہ ایک شخص جو بنیادی یہودی تھا اس کو پاکستان میں بھیجا گیا شیعہ عالم بنا کے تو اس نے وہاں حضرت عائشہ صدیقہ (رضی اللہ تعالی عنہ) کا پتلا بنایا اور اس کی توہین کی۔ تو اس سے پاکستان میں شیعہ سنی فسادات بھڑک اٹھے ۔ تو اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دراصل یہ جو سامراجی قوتیں ہیں،جو اسلام دشمن قوتیں ہیں ، صیہونی قوتیں ہیں ، تو ان کا یہ پروگرام ہے کہ وہ مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کریں۔
عبدالحسین:میں یہاں پر جناب مولانا سید حسین صاحب سے یہ جاننا چاہوں گا کہ آپ جب دیکھتے ہیں کہ الحمد للہ حقائق بھی سامنےآرہے ہیں کہ کوئی ایسا ہاتھ ضرور ہے کہ جو ایسا کھیل کھیل رہا ہے جس سے صرف مسلمان بکھر جائے اور ان کی قدرتی وسائل اور توانائی ناتوانی میں تبدیل ہوجائے۔ آپ سے جاننا چاہیں گے کہ آپ ان کی نشاندہی کرنے کے لئے کیا کچھ تجویز کرینگے کہ ایسے لوگوں کو کیسے پہچانا جاسکتا ہے کہ جو اسلام کے لباس میں اسلام کی بیخ کنی کرتے ہیں؟
استاد حوزہ علمیہ جامعہ باب العلم: وہ وہی انسان ہوگا جو شیعہ بنکر سنی کے مقدسات کی توہین کر لے گا یا سنی بنکر شیعوں کے مقدسات کی توہین کرلے گا۔ ایسے لوگوں کو مفتن تصور کیا جاسکتا ہے۔ وہ پیڈ (کرایے پر)ہوتے ہیں ایجنٹ ہوتے ہیں ۔ دوقوتیں جو ہیں جو اس وقت مسلمانوں کے قتل و غارت گری چاہتے ہیں ۔ یا آپ جانتے ہیں کہ امریکہ سالانہ کتنے ملین ڈالر شیعہ علماء کو خریدنے کیلئے مختص کرتا ہے؟
عبدالحسین:بیس ملین ڈالر
مولانا سید محمد حسین: شیعہ علماء کو قتل کروانے کے لئے اور مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کے لئے کتنا؟
عبدالحسین:بیسوں ملین ڈالر
مولانا سیدمحمد حسین: لہٰذا ہمیں اسقدر ہوشیار رہنا چاہئے تمام شیعوں کو بھی اور تمام سنی برادری کو بھی، جو جس مسالک سے وابستہ ہے سنی مسلک سے چاہئے حنفی ہو، مالکی ہو شافعی ہو یا جو بھی مسلک ہو ، ہمیں خبردار رہنا چاہئے جہاں کوئی بھی تفرقہ کی بات کرے گا وہ استعماری طاقتوں کا ایجنٹ ہے۔
عبدالحسین:سید حسین صاحب یہ بھی بتائیے گا کیا ایک شیعہ کی پہچان یہ ہے کہ وہ خلفاء راشدین کی اہانت کرے ، صحابہ کی اہانت کرے، ازواج نبی (ص) کی اہانت کرے ، کیا یہ تعریف شیعہ کی ہے؟
استاد حوزہ علمیہ جامعہ باب العلم مولانا سید حسین: شیعہ کی یہ تعریف نہیں ہے شیعہ وہ ہے جو کفار کے معبود کو بھی بُرا بھلا نہ کہے پھر ازواج مطہرات کی بات ہی نہیں ہے۔ اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کوئی بات ہی نہیں ہے۔ کیا اسلام انہیں حکم نہیں دیتا ہے کافروں کے معبودوں کو بُرابھلا نہ کہیں۔ ان کو بُرا مت کہو کیوں؟ وہ آپ کے حقیقی معبود کو بُرا کہیں گے۔ جب ہمیں ان کو برا کہنے کی اجازت نہیں تو اصحاب رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کوئی بات ہی نہیں ۔ ازواج رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں بد زبانی کرنے کی کوئی اجازت نہیں ہے۔
عبدالحسین:جی ہاں: قرآن کہتا ہے کہ وہ آپ کی ماں ہیں۔ مولانا غلام محمد پرے صاحب میں آپ سے یہ جاننا چاہوں گا کہ آپ اس موضوع کو کہ کبھی شیعہ سنی مقدسات کی اہانت کرتے ہیں اور کبھی سنی کچھ ایسا کام کرتے ہیں کہ اس مرحلے میں ابھی شاید اس کی نشاندہی نہ کروں میں آپ سے جاننا چاہوں گا کہ اس اسلامی سماج کاجو ایک مشترک دشمن ہے اس کو پہچاننے کے لئے مسلمانوں کو کیا کچھ کرنا چاہئے؟
امام جمعہ مسجد امام اعظم لاوے پورہ مولانا غلام محمد پرےصاحب: سب سے پہلے میں داد تحسین دوں گا کہ یہ جو شیعہ حضرات کے سب سے بڑے نمائندے ہیں عالم اسلام میں سید علی خامنہ ای صاحب ان کا یہ فتوٰ ی آیا ہے تو اس سےغلط فہمیاں عالم اسلام میں دور ہوجاتی ہیں۔ جو شیعہ سنی کے درمیان خلش پیدا ہوگئی ۔ تو یہ میگزین جو آپ نے دکھایا،الحمد اللہ اس میں بھی آگیا ہے۔ تو یہ باضابطہ ایک فتویٰ ہے کہ حرام ہے۔میں یہ سمجھتا ہوں کہ سب سے بڑی ذمہ داری مذہبی قیادت پر بنتی ہے۔ کیونکہ عام آدمی جو ہوتا ہے وہ علوم سے بے خبر ہوتا ہے، وہ حقائق سے بالکل بے بہرہ ہوتا ہے تو وہ اہل تشیعہ ہو یا اہل سنت ہوں یا اور لوگ ہوں، ان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے جو ماننے والے ہوتے ہیں ، اپنے جو ان کے مقلدین ہیں وہ لوگ انہیں یہ بتائیں کہ اختلاف ایسا نہیں ہے کہ ہم ایک دوسرے کو کافر کہیں ۔ رہی بات یہ کہ کون کرتا ہے یہ تو بالکل مبرا بات ہے ، بالکل صاف بات ہے کہ یورپ اب اس جگہ پر پہونچ گیا ہے کہ وہ مسلمانوں کی قتل و غارت کرتا ہے، افغانستان میں دیکھئے، عراق میں دیکھئے، اب ایران پر نظریں گڑی ہوئی ہیں ۔ تو اس مقام پر ہماری ذمہ داری بنتی ہے خصوصیت کے ساتھ، میں میڈیا کے حوالے سے یہ بات بتانا چاہتا ہوں اپنے اہلسنت برادری کو بھی اور شیعہ برادری کو انتہائی ادب کے ساتھ کہ وہ مذہبی قیادت خصوصیت کے ساتھ کہ وہ لوگوں کو بتائیں عام لوگ جو ہیں جذباتی لوگ ہوتے ہیں تو ان کو یہ بتائے کہ الحمد للہ ہمارا اعتقاد ہے کہ " وَ السَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهاجِرينَ وَ الْأَنْصارِ وَ الَّذينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوا عَنْهُ " تو اللہ ان سے راضی ہے ، انہوں نے اپنی جانین قربان کی ہیں بدر میں ، احد میں اور امہات المومنین کے متعلق جو سید علی خامنہ ای مدظلہ العالی نے فتویٰ دیا ہے کہ حرام ہے اہانت ازواج پیغمبر ، تو کچھ کہی پر غلط فہمیاں ہیں جودور کرنے کی ضرورت ہے۔
عبدالحسین: میں آپ کا شکریہ کہوں کہ کچھ لب و لہجہ آپ کا ایسا لگا کہ جو ڈاکٹر یوسف قرضاوی صاحب ہے انہوں نے جو اس فتوے کے بارے میں الفاظ کہے ۔ آپ نے تقریباً وہی لب و لہجہ اخیتار کیا ہے کہ:
"من قبل از ہر چیز بر خود لازژ می دانم کہ مراتب تقدیر و تشکر خود را از حضرت آيت اللہ خامنہ ای رہبر جمہوری اسلامی ایران بہ خاطر صدور فتوی ایشان مبنی بر تحریم اہانت بہ حضرت عایشہ و دیگر امہات مؤمنن کہ در حقیقت از سمبل ھای قابل احترام پیروان اہل سنت و جماعت ہستند،ابراز دارم و امیدوارم کہ حق این فتوا رعایت شدہ و کسی کہ از آن سرپیچی می کند مواخذہ شود"۔
یعنی" سب سے پہلے میں اپنے آپ پر لازم سمجھتا ہوں کہ جمہوری اسلامی ایران کے قائد حضرت آیت اللہ خامنہ ای کا حضرت عایشہ اور دیگر امہات مومنین کی اہانت کرنے کو کو حرام قرار دینے پر اپنی طرف سے قدردانی اور شکریہ کروں کیونکہ حقیقت میں یہ سب اہل سنت و جماعت کیلئے مقدسات ہیں اور امید کرتا ہوں کہ اس فتوا کا حق ادا کیا جائے اور اسکی مخالفت کرنے والے کا مواخذہ کیا جائے"۔
عبدالحسین میرواعظ سے مخاطب ہوتے ہوئے:ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سب متحرک ہو کر مستحسن باتوں کو معاشرے میں عام کریں اور تفرقہ انگیز باتوں کو تشہیر کرنے سے روکیں ۔دیکھا جاتا ہےکہ جو تفرقہ انگیز باتیں ہیں ان کو تشہیر کرنے میں سارے لوگ متحرک ہوتے ہیں ،لیکن جو مستحسن باتیں ہیں جو معاشرے میں عام ہونی چاہئے وہ عام نہیں ہوتی ہیں ۔ اس کے علل و اسباب کیا ہوسکتے ہیں؟
امام جمعہ مسجد جامع بیروہ بڈگام میرواعظ سید عبدالطیف: دراصل جو ہمارا معاشرہ ہے بدقسمتی سے اس میں کنفلکٹ ،سوشل کنفلکٹ ،یا گروپ کنفلکٹ ہوتے ہیں تو اس کی بنیادی کچھ اور ہوتی ہیں۔ کہیں سیاسی جھگڑا ہوتا ہے، کہیں کوئی گھریلوں جھگڑا ہوتا ہے تو ہم کیا کرتے ہیں ، ہم اس کو مذہب کا رنگ دیتے ہیں۔ اگر کہیں سیاسی جھگڑا ہے تو ایک سیاسی خیال رکھنے والا ایک مسلک کو اختیار کرتا ہے اور دوسرا دوسرے مسلک کو اختیار کرتا ہے یا کہیں کوئی گھریلوں لڑائی ہے ، کہیں اقتدار کی لڑائی ہے ، کہیں مفادات کی لڑائی ہے ۔ تو اس سلسلے میں ہم ایک دم جو وہ گھر کی لڑائی ہے وہ ہم مسجد میں لے آتے ہیں۔ تو پھر ہمارے درمیان مذہبی تفرقات پیداہوتے ہیں ۔ تو ہمیں یہ چاہئے کہ ہمارے جو مذہبی معاملات ہیں ان کو ہم گھریلوں لڑائی جھگڑوں سے دور رکھیں۔
عبدالحسین: نہیں ،(مستحسن باتوں کو )عوام تک پہنچانے کے لئے کیا کچھ کرنا لازمی ہے؟جسطرح پچھلی نشست میں آپ نے بڑی تاکید کے ساتھ جو جملہ کہا کہ علماء کی ذمہ داری بنتی ہے ۔ اور ابھی مولانا غلام محمد صاحب نے بھی اسی بات کی طرف اشارہ کیا کہ علماء کی ذمہ داری بنتی ہے ۔ تو اس کے لئے علماء کی مرکزیت لازمی بنتی ہے تاکہ ایک جگہ پر جوابدہی اور اکاونٹبلٹی رہے اس کے لئے کیا کچھ کرنا چاہئے کیونکہ جب آپ بار بار اس کی طرف اشارہ کرتے ہیں ، قطعاً آپ کے لئے کوئی رائے حل بھی ذہن میں ہوگا ۔ ذرا بتائیے کہ ایسے کیا کچھ علماء کو عملی طور پر کرنا ہوگا تاکہ عوام کے درمیان اسلام کی وہی بات پہنچے جو عوام کے مفاد میں اور اسلام کے مفاد میں ہو؟
میرواعظ عبدالطیف: ایک شاعر نے کہا ہے کہ:دلوں کی دوریاں بڑھتی رہینگی______ اگر کچھ مشورے باہم نہ ہونگے"۔ تو میرا خیال ہے کہ علماء کو بیٹھنا چاہئے ، آپس میں بات کرنی چاہئے ۔ تو اگر ہم مل کر بیٹھیں تو جو غلط فہمیاں ہیں ان کو دور کیا جاسکتا ہے۔ تو ہمارے جو عام لوگ ہیں وہ بدقسمتی سے افواہوں پر زیادہ بھروسہ کرتے ہیں اور جو علمی مسائل ہیں ہمارے جو علماء ہیں وہ عام لوگوں میں وہ مسائل لیکے جاتے ہیں ۔ دراصل جو دقیق مسائل ہیں ، پیچیدہ مسائل ہیں، اجتہادی مسائل ہیں ، ان کو تو علماء کو ملنا چاہئے ، ان کے لئے کوئی ایسا انتظام ہونا چاہئے کہ ایسی میٹینگین ہم منعقد کریں علماء کی۔ تو اس میں ہم غلط فہمیوں کو دور کرسکیں اور جب علماء متفق ہوجائیں۔
عبدالحسین:کیا آپ چاہتے ہیں کہ علماء کا ایک شوریٰ ہونا چاہئے؟
میرواعظ: ہاں شوریٰ ہونا چاہئے ۔ میرا خیال ہے کہ جب علماء ایک دوسرے کے قریب آجائینگے تو لوگ بھی قریب آجائینگے۔
عبدالحسین: مولانا غلام محمد صاحب میں آپ سے جاننا چاہوں گا کہ آپ کی رائے میں اس شوریٰ کو ، اس علماء کی نشست کو کیسے یقینی بنایا جاسکتاہے؟
مولانا غلام محمد پرے صاحب: سب سے پہلے یہ بات ہے آغا صاحب کہ یہ جو قرآن مجید میں کہا گیا ہے کہ:" ِ تَعالَوْا إِلى كَلِمَةٍ سَواءٍ بَيْنَنا وَ بَيْنَكُمْ أَلاَّ نَعْبُدَ إِلاَّ اللَّهَ وَ لا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئاً "حالانکہ یہ نجران کے وہ عیسائی جو تھے ان کے ساتھ یہ معاملہ ہوا لیکن قرآن تو بہر حال ایورگرین ہے صدا بہار ہے ، یہ تو قیامت تک ہدایت کا ایک نسخہ ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ اس جگہ پر ہم جمع ہوجائیں جو ہم میں اور تمہارے درمیان مشترک ہے۔ پھر اس کے بعد جو فروعی اختلافات ہیں۔ اختلافات تو ضروری ہیں، وہ تو ہیں اس کا ہم انکار نہیں کرسکتے۔ لیکن اختلاف مذموم کچھ ہے اور اختلاف محمود کچھ اور ہے۔ تواس کے لئے بجا فرمایا میر واعظ صاحب نے کہ اس کے لئے کہیں پر بیٹھنا ہے تو آپ پر بھی ذمہ داری بنتی ہے مجھ پر بھی ذمہ داری بنتی ہے سب لوگوں پر یہ جو علماء کی ایک جماعت ہے ان پر ذمہ داری بنتی ہے کہ کہیں پر بیٹھیں ایک میٹنگ کریں، سات روز کے بعد ، پندرہ روز کے بعد، کہیں اس جگہ اُس جگہ تو ان مسائل کا حل نکلے گا۔
عبدالحسین: میں یہاں پر مولانا سید حسین صاحب آپ سے جاننا چاہوں گا کہ امام خامنہ ای کا ایک اور بیان ہے کہ :
"خط قرمز از نظر نظام اسلامی و از نظر ما، عبارت است از اھانت به مقدسات یکدیگر،آن کسانی که نادانسته،از روی غفلت،گاھی از روی تعصبھای کور و بیجا،چه سنی و چه شیعه، به مقدسات یکديگر توھین میکند،نمیفھمند چه میکند۔ بھترین وسیله برای دشمن ھمین ھا ھستند؛بھترین ابزار در دست دشمن ھمین ھا ھستند؛این خط قرمز است"
(یعنی اسلامی نظام میں اور ہمارے لئے مقدسات کی توہین کرنا موت کی لکیر ہے،جو کوئی جان بوجھ کر یا ان جانے میں ،یا غفلت سے یا اندھے اور بی معنی تعصب کی وجہ سے وہ سنی ہو یا شیعہ ایک دوسرے کے مقدسات کی توہین کرتے ہیں،نہیں جانتے ،نہیں سمجھتے ہیں کہ کیا کررہیں ہیں کہ ایسا کرنا دشمن کے لئے سب بہترین ذریعہ ہے اور یہی دشمن کے لئے سب سے بہتریں آلہ کار ہیں؛یہ موت کی لکیر ہے۔)
جب ہمیں ہماری امامت ہمیں اس قسم کی رہبری سامنے رکھتی ہے تو جو لوگ اس موت کی لکیر کو پار کرتے ہیں ان کے ساتھ کیسا سلوک کیا جانا چاہئے؟
استاد حوزہ علمیہ جامعہ باب العلم: میں یہاں عرض کرتا ہوں آپ کے سوال کے ذیل میں کہ شیعہ امامیہ کا عقیدہ ہے کہ پہلا امام حضرت علی مرتضیٰ علیہ السلام اور آخری امام حضرت حجۃ ابن الحسن عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف ہیں جو فریقین کی کتابوں میں درج ہے کہ امام بارہ ہیں۔اور قرآن کا فرمان ہے کہ" يَوْمَ نَدْعُوا كُلَّ أُناسٍ بِإِمامِهِمْ" ہر ایک مسلمان کو پوچھا جائے گا امام کے متعلق ، شیعہ کو اپنے امام کے حکم سے باہر نکلنا نہیں ہے، اپنے امام کے حکم کے مطابق عمل کرنا ہے ۔ اگر اس وقت امام پردہ غیب میں ہیں نائب امام موجود ہیں وہ ہیں جناب آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای انہوں نے اس کو حرام قرار دیا ہے ہم کو یہ حرام ماننا ہے ، ہمیں اہلسنت کے مقدسات کی اہانت کرنا حرام ہے ۔
عبدالحسین جو کوئی خط شکنی کرتا ہے اس موت کی لکیر کو پھاندتا ہے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جانا چاہئے۔
امام جمعہ ماگام: وہ لوگ دائرہ اسلام میں نہیں ہیں وہ اسلام کی مخالفت کرتے ہیں اور حق یہ ہے کہ وہ حقیقی شیعہ ہی نہیں ہے۔ (انہیں اسلام اور تشیع کا ترجمان تسلیم نہیں کیا جاسکتا ہے)۔
درس اسلام کی دوسری محفل کی پہلی نشست کیلئے وقفہ بحث اگلی نشست میں جاری