تاریخ شائع کریں2012 27 June گھنٹہ 13:19
خبر کا کوڈ : 99956
اتحاد اسلامی کے منشور کی روشنی میں:

ھفتہ وار محفل مذاکرہ درس اسلام01

تنا(TNA)برصغیر بیورو
جے کے چینل اور نالج چینل کشمیر پر جمعہ ۲۲جون ۲۰۱۲سے عالمی مجلس برای تقریب مذاہب اسلامی کی طرف سے اتحاد اسلامی کے منشور کی روشنی میں ھفتہ وار محفل مذاکرہ درس اسلام کے نام سے آغاز ہوا ۔ محفل مذاکرہ کے میزبان تقریب (مذاھب اسلامی)خبررساں ادارے (تنا) کے بر صغیر کیلئے بیورو چیف اور عالمی مجلس برای تقریب مذاھب اسلامی کے رکن حجت الاسلام والمسلمین حاج عبدالحسین موسوی کشمیری نے تلاوت قرآن کے بعد اسلامی اتحاد کے منشور کے مقدمے کے ایک حصے کو پڑھ کر بحث کا آغاز کیا۔
ھفتہ وار محفل مذاکرہ درس اسلام01
تقریب خبررساں ادارے (تنا) کے مطابق میزبان حجت الاسلام والمسلمین حاج عبدالحسین نے "درس اسلام "کے نام سے اسلامی اتحاد کے منشور کی روشنی ھفتہ وار محفل مذاکرہ کا آغاز کرتے ہوئے کہا:بسم اللہ الرحمن الرحیم؛اتحاد اسلامی کے منشور کو لیکر کہ "مسلمان، اسلام کا امانتدار ہے اور اس کے حریم اور مقدسات کا دفاع سب پر واجب جاننے پر ایمان رکھنے کی بنیاد پر؛اور اسلامی اتحاد و یکجہتی کی پاسبانی ، قوموں کے درمیان خوشگوار تعلقات بنائے رکھنے اور صحیح و اصولی منطق نیز تعمیری گفتگو کی ترویج و فروغ کے بارے میں اسلام کی مخصوص سفارشات اور تاکیدات کا پابند رہتے ہوئے مسلمانوں کے درمیان ہمدلی اور تعاون کے علاوہ اسلام کی اعلی مصلحتوں کی حفاظت کو یقینی بناناہے؛ اور عالم استکبار اورصہیونیت کی طرف سے امت اسلامی کی ثقافت،مذہبی اقدار،مفادات اور استقلال پر بزدلانہ یلغار اور دشمنی کے پیش نظرتمام مادی اور معنوی صلاحیتوں کو بروی کار لانا ہے"۔

اس موضوع کو لیکر کہ امت اسلامیہ کو کس طریقے سے عملی طور پر وہ مسلمان بن کے دکھانا کہ جس کی تعلیم اللہ نے اپنی کتاب اور اپنے آخری نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعے ہم تک پہنچائی ہیں۔ جس پر روشنی ڈالیں گے جناب مفتی اعظم مفتی بشیر الدین صاحب ، امام جمعہ ماگام و نایب پرنسپل حوزیہ علمیہ باب العلم جناب حجت الاسلام والمسلمین سید محمد حسین موسوی صاحب اور امام جمعہ بیروہ ، میر واعظ وسطی کشمیر جناب مولانا سید عبد الطیف بخاری صاحب ۔ میں پہلے دعوت دونگا مفتی اعظم صاحب کو کہ وہ اس حوالے سے اپنے خیالات سے ہمیں آشنا کریں۔

مفتی اعظم کشمیر جناب مولانا مفتی بشیر الدین احمد: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم ۔ اما بعد قال اللہ تبارک و تعالیٰ فی القرآن الحمید والفرقان المجید ۔ واعتصمو بحبل اللہ جمیعاً وّلا تفرقوا۔
محترم المقام آغا صاحب جس انداز سے ، جس طریقے سے آپ نے اس مجلس مذاکرہ کا اہتمام فرمایا اور اسکے میں اپنی رائے ظاہر فرمائی وہ کافی حد تک قابل تحسین ہے۔ قرآن مجید جوکہ ایک آخری(آسمانی) کتاب اور آخری پیغام ہے ، آخری پیغمبر جناب محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوا ہے۔ قرآن ایک منشور ہے، ایک آئین ہے، ایک ضابطہ حیات ہے، ایک عظیم دستور العمل ہے ۔ جس کے زبر و زیر میں کوئی شک اور اور تبدیلی کو کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ یہ نہ کسی پارلیمنٹ کے تصدیق اور نہ کسی اسمبلی کی تائید کا محتاج ہے بلکہ بذات خود یہ تمام ادیان کی تصدیق بھی کرتا ہے اور توحید کی روشنی میں ان کی تائید بھی کرتا ہے۔ 

جہاں تک اسلام کے داعی محرکات کا تعلق ہے اسلام نے ہمیں دعوت دی ہے کہ"واعتصمو بحبل اللہ جمیعاً ولا تفرقوا سختی کے ساتھ تاکید فرمائی ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے ساتھ ، ایک مسلمانوں کی جماعت دوسرے مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ ہاتھ ملا کر ، دل ملا کر کام کریں اور کام کرنا ہے۔ توحید و رسالت کے لئے، بنی نوع انسان کی بہبودی کے لئے، بنی نوع انسان کی فلاح کے لئے ، بنی نوع انسان کی کامیابی وکامرانی ڈھونڈنے کے لئے کام کرنا ہے ۔ اس میں یہ جو اعتصام بحبل اللہ ہے ، اللہ کی رسی کو پوری طرح سے تھام کے رکھنا ہے ، آگے بڑھنا ہے تاکہ کسی تفریق کی گنجائش باقی نہ رہے، کسی فتنے کی گنجائش باقی نہ رہے، کسی غلط خیال کے پھیلنے کی یا کسی غلط عقیدے کو بڑھاوا دینے کی گنجائش باقی نہ رہے۔ 

لہٰذا جو آپ نے مضمون چن لیا ہے یہاں بحث و مباحثے یا مذاکرے کے لئے وہ کافی دلچسپ مضمون ہے ۔ اسلام بذات خود دعوت دیتا ہے امن کی، اسلام بذات خود دعوت دیتا ہے فساد سے دور رہنے کی، اسلام بذات خود دعوت دیتا ہے ایک بہترین معاشرہ تخیلق کرنے کی ۔ جس میں بے حیائی نہ ہو ، بے شرمی نہ ہو ، بد اخلاقی نہ ہو اور جس میں ایک دوسرے کے جذبات کا احترام بھی ہو۔ مثلاً ابھی میں اپنے دوستوں سے بات کر رہا تھا اسلام میں اس وقت جو پانچ مسالک ہیں جعفری، حنفی، حنبلی، مالکی، شافعی ۔ یہ پانچ مسالک کتاب و سنت کی روشنی میں اپنا پیغام پھیلاتے ہیں، پھیلانے کا انداز مختلف ہیں،کسی کا اپروچ ایک ہے اور دوسرے کا کچھ اور، لیکن تین چیزیں بنیاد ہیں، پہلے ہم دو ہی چیزیں( مشترک) مانتے تھے، لیکن میں کہتا ہوں کہ تین چیزیں ہیں ایک تو ہے توحید کتاب و سنت، توحید اور رسالت لازم ملزوم ہیں جب توحید مان لیں تو رسالت تو مان ہی لینی ہے کہ پیغمبر آخر الزمان (حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد کوئی پیغمبر نہ آنے والا ہے نہ آیا ہے۔ اس باطل عقیدے کی زبردست ہمیں دفاع کرنا ہے ، پھر اس کے بعد ولایت ، ولایت ہم سمجھتے ہیں ولایت جو ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ولایت بھی قرآن سے محفوظ ہیں۔"اعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم ۔أَلا إِنَّ أَوْلِياءَ اللَّهِ لا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لا هُمْ يَحْزَنُون"۔ یہ ولایت جو ہے بڑی اہم چیز ہے جس کو ہم کبھی کبھی بھول بھی جاتے ہیں۔ کسی غلط باطل عقیدے کی بنا پر ،یا غلط طریقے کے بنا پر لیکن ولایت جو ہے وہ خود جناب رسالت مآب سےکی نبوت کے ساتھ ساتھ اتری۔ اور نبوت کے شہنشاہ جناب محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں، وہی تاجدار نبوت بھی ہیں، وہی تاجدار شہنشاہ رسالت بھی ہیں۔ اس کے بعد ولایت کی شہنشاہیت حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہ کے سپرد ہوئی ہے۔ وہ شاہ ولایت ہیں، ولایت کے بادشاہ ہیں، ولایت کے تاجدار ہیں، ولایت کے حکمران ہیں، ولایت کے بادشاہ ہیں۔ 

لہٰذا اس چیز کو ہم کبھی بھول نہیں سکتے اور حضرت علی مرتضیٰ کے بارے میں ہمارے آقائے نامدار حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے فرمایا ہے۔"انا مدینۃ العلم وعلی بابھا" میں علم و فضل کا شہر ہوں اور اس میں داخل ہونے کا دروازہ حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہ ہیں۔ لیکن اب چونکہ افراط و تفریط کی گنجائش پید اکی جاتی ہے، زیادتی کی جاتی ہے جو کہ افسوس کی بات ہے کیونکہ صحابہ کبار اور خلفای راشیدین کا درجہ ایک متعین درجہ ہے۔ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کابھی درجہ متعین ہے ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کابھی درجہ متعین ہے، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ ذو نورین کا بھی درجہ معین ہے۔

عبدالحسین :مفتی صاحب نے ابھی خلفائے راشدین اور ولایت کی نشاندہی کی، میں جناب حجت الاسلام سید محمد حسین صاحب آپ سے یہ جاننا چاہوں گا کہ آپ اس کو عملی طور پر معاشرے میں کس زاویے سے دیکھتے ہیں کہ اسے مسلمان کس حد تک قبول کر رہا ہے؟ 

نایب مدیر حوزہ علمیہ جامعہ باب العلم وا مام جمعہ ماگام بڈگام جناب حجت الاسلام والمسلمین سید محمد حسین موسوی: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم؛جو جناب مفتی اعظم دامت برکاتہ نے قرآن کے لحاظ سے تفصیلاً بیان کیا ہے میں اسکی تائيد کرتا ہوں، رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو ہیں ان کا پیغام کسی خاص طائفے کیلئے نہیں ہے "وما أَرْسَلْناكَ إِلاَّ كَافَّةً لِلنَّاس" رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تمام لوگوں کی طرف بحیثیت نبی بھیجا گیا ہے۔"وَ ما أَرْسَلْناكَ إِلاَّ رَحْمَةً لِلْعالَمين" ہم نے آپ کوعالمین کیلئے رحمت بنا کے بھیجا۔ لیکن جو خلافت ہے اس میں ولایت بھی ضروری ہے اور جس ولایت کا جناب مفتی اعظم دامت برکاتہ نے یہاں پر تذکرہ کیا یعنی صحابہ کرام چاہئے جناب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہوں یا جناب عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہوں یا جناب عثمان غنی رضی اللہ عنہ ہوں انکی شخصیت اور جناب علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ولایت کے بارے میں رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمودات موجود ہیں۔ 

عبدالحسین :میں میر واعظ سے جاننا چاہوں گا کہ اگر یہ مقامات اتنے مفید اور اتنے مستند ہیں جن پر ہمیں ناز کرنا چاہئے تھا کو اختلاف کے طور پر کیوں لیتے ہیں اور معاشرے میں اس کے جو منفی اثرات زیادہ دیکھتے ہیں اس کے اسباب کیا ہوسکتے ہیں؟ 

میرواعظ وسطی کشیمر،سربراہ انجمن مظہر الحق و امام جمعہ بیروہ بڈگام:بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ؛بنیادی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کو یہ سمجھنا چاہئے کہ جو امت مسلمہ ہے اسے ایک طرف برائیوں کو مٹانا اور نیکیوں کو فروغ دینا ہے، عدل اور انصاف کا علمبردار بننا ہے ، حق کی حمایت کرنی ہے اور یہ کام امت کو سونپا گیا ہے لیکن یہ انفرادی طور پر نہیں ہوسکتا ہے۔ اس کے لئے ہمیں یہ تاکید کی گئی ہے کہ ہم دنیا میں جماعت بن کر رہیں اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا واضح ارشاد ہے کہ انہوں نے فرمایا: " یداللہ علی الجماعہ فَمَنْ شَذَّ ، شَذَّ فی النَّارِ " یعنی خد اکی جو نصرت ہے وہ مدد ہے وہ تب آسکتی ہے جب ہم منظم ہو کر(متحد) رہیں جماعت بنکر رہیں اور جماعت مضبوط کرنے کے لئے جو ہمارے عباداتی مراسم ہیں ان کو اجتماعی بنایا گیاہے۔ نماز اجتماعی طور پڑھی جاتی ہے، حج اجتماعی طور ادا کیا جاتا ہے ، زکوٰۃ اجتماعی طور ادا کرنی ہے، تو اسی طرح یہ بھی ہے کہ جو مسلمانوں کے باہمی تعلقات ہیں ان کو اخوت کی بنیادپر،محبت کی بنیاد پر، شفقت کی بنیاد پر استوار کیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ نبی کریم (ص) نے فرمایا کہ جو مسلمان ہے ان کی مثال" کاالبنیان" دیوار کی طرح ہے جس کا ایک حصہ دوسرے کو سہارا دیتا ہے ، ایک حصہ دوسرے سے پیوستہ رہتا ہے یا یہ فرمایا کہ مسلمانوں کی حیثیت اجتماعی ہے وہ ایک جسم کی طرح ہے اگر ایک عضو میں تکلیف ہو تو پورا جسم، وہ درد محسوس کرتا ہے ۔ تو در اصل جو ہمیں اتفاق سے کام کرنا تھا دنیا ۔ 

عبدالحسین:میرا سوال عملی صورت کے بارے میں تھا، تھیوری تو ہمارے پاس ہے مگر پریکٹکل صورتحال ویسی نہیں پائی جاتی کیوں؟ 

میرواعظ عبدالطیف:میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ بد قسمتی سے جو ہمارے علماء ہیں وہ بنیادی باتوں کے بجائے فروعی باتوں پر زیادہ زور دیتے ہیں۔ 

عبدالحسین:میں یہاں پر مفتی اعظم صاحب سے یہی سوال کرنا چاہوں گا کہ اگر علماء اس کے ذمہ دار ہیں تو علماء کے بارے میں ایسا کون سا طریقہ ہوسکتا ہے کہ جس سے وہ ٹرانسپیرنسی(شفافیت) عوام میں دیکھنے کو ملتی۔ جیسے کہ ہمیں کہا گیا کہ آپ اسلام کے امین ہیں ، امانتدار ہیں کیونکہ آپ کو غیر مسلمانوں تک اسلام کو پہنچانا ہے ۔ آپ بتائیں کہ علماء کو عملی طور پر کیا کرنا چاہئے؟ 

مفتی اعظم کشمیر مفتی بشیر الدین:آغا صاحب بات تو یہ ہے کہ میں نے جس آیہ کریمہ کی تلاوت کی کہ "واعتصمو بحبل اللہ جمیعاً ولا تفرقوا" یہ ایک خطاب ہے مسلمانوں کی طرف، یا خطاب ہے بنی نوع انسان کی طرف، جمادات کی طرف تو نہیں، پہاڑوں کی طرف نہیں ، شجر و اشجار کی طرف نہیں، بلکہ یہ جاندار سمجھدار شخص کی طرف ہے یا اشا ص کی طرف۔ چونکہ اسلام کے شروع ہونے کے بعد رائے مختلف ہوگئی، سمجھ میں سوچ میں فرق آگئی، دین کے معنی میں کسی نے کچھ بتا دیا کسی نے کچھ سنا اس کو ظاہر کیا اس کی وجہ سے یہ اختلافی نوعیت پیدا ہوگئی۔ میں نے کہا کہ دو ہی چیزیں جو بنیاد ہے، اساس ہے اسلام کی وہ توحید و رسالت ہے۔ اب شاخیں نکل گئی۔"رفع یدین"کہاں آ جائے گا،"آمین بالجحر"کہاں آ جائے گا۔بیس رکعتیں کہاں آجائے گی،تیس رکعتیں کہاں آجائے گی،آٹھ رکعتیں کہاں آ جائے گی یہ سب ایک سوچ ایک سمجھ سے تعلق رکھتی ہے۔ 

عبدالحسین: یعنی یہ تو علمی باتیں ہیں مگر ان علمی باتوں کو اختلافی نوعیت کیوں دی جاتی ہیں۔
 
مفتی اعظم :یہی تو مصیبت ہے یعنی ان چیزوں کو اختلاف نہیں بنانا چاہئے ۔ آپ بتائیں کہ اگر کسی کو ہمیں سمجھانے کی کوشش کرنی ہو تو" ادْعُ إِلى‏ سَبيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ " یہ قرآن کا پیغام ہے کہ حکمت کے ساتھ بتاو،جو نہیں سمجھتا چھوڑ دو اس کو اپنے حال پر۔ لیکن بات تو یہ ہے جہاں تک یہ ہے "لایجتمعوا امتی علی الدلالہ"ہماری امت جو ہے اکثریت امت ہے۔"ولاکثرحکم کل"اکثریت حکم کل ہے ۔ جب اکثر یت کسی چیز کو مانتی ہے وہی صحیح بات ہے ۔ 

لہٰذا ہم اس موضوع سے ہٹ کے اب یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اس کشمیر میں اتنا اختلاف شدید نہیں ہے جتنا کہ ہم اپنے دوسرے ہمسایہ ملکوں میں دیکھتے ہیں۔ یہاں اللہ کا فضل و کرم ہے یہاں ہم(سنی) آپ کی بات کو تسلیم کرتے ہیں آپ(شیعہ) ہماری بھی بات کو تسلیم کرتے ہیں ۔ ہم(سنی) گولی نہیں اٹھاتے ہیں۔ آپ لوگوں(شیعوں) کو مارنے کے لئے یا آپ (شیعہ)تلوار نہیں اٹھاتے ہیں ہم(سنی) کو مارنے کے لئے۔ یہ اللہ کا فضل و کرم ہے یہاں وہ صورتحال نہیں ہے۔ بلکہ صورتحال اس کے برعکس ہے۔ یہاں مرج آن مرج پالیسی (ایکدوسرے میں ضم ہونے کی حکمت عملی )ہے۔(یہاں پر مفتی اعظم نے اپنے گھر کی مثال بیان کی کہ ان کے گھر میں شیعہ فاضل نوجوان پڑھیں ہیں اورخاندان کے زعیم انکی ترقی کے لئے اپنے اولاد پر ترجیح دیتے رہے،بحث کی طوالت کے پیش نظر اس عبارت کو حذف کیا گيا ہے)۔ 

عبدالحسین:میں یہاں پر میر واعظ صاحب سے ان کی بات کو آگے لینا چاہوں گا کہ جنہوں نے ایک اشارہ کیا کہ علماء کی ذمہ داری ہے اور بڑی خوشی کی بات ہے ۔مفتی صاحب نے خود اس کی مثال دی کہ عملی طور پر ہم کیا کرتے آئے ہیں ،اسلامی تعلیمات کو کیسے نافذ کرتے ہیں۔ آپ بتائیے کہ جو ان سے چشم پوشی کرتے ایسی تصویر کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور منفی پہلو کی تبلیغ ہوتی ہے۔ آپ کی نظر میں کیا کچھ کیا جانا چاہئے کہ ایسی صورتحال ملے جیسےکہ آپ نے مثال دی" جسد واحد" کی ایسا عملی طور پر کیسے ممکن ہے کیونکہ تھیوری تو ہمارے پاس سب کچھ موجود ہے ۔ جس طرح عملی مثال مفتی صاحب نے دی ۔ آپ کیا بتائیں گے کہ عملی طور پر کیا کچھ کرنا چاہئے؟ 

امام جمعہ بیروہ میرواعظ سید عبدالطیف:عملی طور میں سمجھتا ہوں جو ہمارے علماء ہیں چاہئے وہ کسی بھی مسلک سے تعلق رکھتے ہو تو پہلی بات یہ ہے کہ ان کو جو دین کی بنیادی باتیں ہیں، اساسی باتیں ہیں ان پر ان کو اپنی توجہ مرکوز کرنی چاہئے ۔ تو جہاں تک فروعات کا تعلق ہے ہم جب اتفاق کی بات کہتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ کوئی اپنا مسلک تبدیل کر کے ایک ہی مسلک والے بن جائے بلکہ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اگر کہیں کوئی باتوں میں اختلاب بھی ہے تو اس کے باوجود ہم متحد رہ سکتے ہیں۔ جو بنیادی باتیں ہیں ، جو مشترکہ باتیں ہیں مثلا جیسے مفتی صاحب نے بتایا کہ رسالت کا معاملہ ہے ، توحید کا معاملہ ہے، ولایت کا معاملہ ہے تو ان معاملوں پر تو ہم متفق ہو سکتے ہیں ۔ قرآن تو ہمارا ایک ہے، امت کو یکجہت بنانے کے لئے ان کے قبلہ کو مقرر کیا گیا ہے تو ان باتوں پر ہم متفق توہوسکتے ہیں تو جو ہمارے اختلافی معاملات ہیں ان کو تو ہم کو عوام میں چھیڑنا نہیں چاہئے۔ بلکہ جو اختلافی معاملات ہیں وہ علماء کو مل جل کر طے کرنے چاہئے کہ اگر کنہی پر اختلاف ہے تھوڑا بہت تو اس کو حل کیا جاسکتا ہے۔ ایک بات یہ ہے۔ 

تو دوسری بات یہ ہے کہ ہمیں اس لئے بھی عملی طور متحد ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ اگر ہم انتشار کا شکار رہیں تو اس وقت ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارا جو سماج ہے وہ بہت سی برائیوں میں مبتلا ہورہا ہے کئی ڈرگ ایڈکشن ہورہی ہے کہیں پر بے راہ روی ہے ۔ 

عبدالحسین:ضائع تو مسلمان ہی ہوتے ہیں اس کی طرف ہم دھیان ہی نہیں دے رہے ہیں جزاک اللہ ۔ 

میرواعظ:(جی)کہیں پر عزت خطرے میں ہیں ،کہیں پر فضول خرچیاں ہورہی ہیں۔ تو جو ہمارے مسائل ہیں اس وقت ان سے توجہ ہٹا کر اگر ہم اختلافی معاملات کی بات کریں تو یہ ٹھیک نہیں ہے۔ 

عبدالحسین:میں یہاں پر سید حسین صاحب سے جاننا چاہوں گا کہ یہ اختلافی مسائل جو ہیں ، اصل میں ہماری خوبی ، ہنر اور اسلام کا علمی پہلو ہے۔ جنہیں صرف علمی اختلاف کہا جاسکتا ہے۔لیکن جن مسائل کو ہمیں فوکس کرنا چاہئے(توجہ دینی چاہئے) جیسے معاشرے میں بے راہ روی ہے، دین گریزی ہے ان مسائل میں شیعہ سنی کے نام پر تفکیک نہیں ہے اس کی طرف ہم کیوں توجہ نہیں دے رہے ہیں جبکہ ان اختلافی مسائل کو جو کہ خوبی ہے ان کو خرابی کی طور پر پیش کرتے ہیں۔ اس کی اصلاح کیسے کی جاسکتی ہیں؟ 

امام جمعہ ماگام:اس کی اصلاح صرف (اس طرح سے ہو سکتی ہےکہ)اگر ہم توحید و نبوت کے علاوہ ایک کتاب خدا قرآن مجید کو اٹھائیں (جس میں کہا گیا ہے): " وَ أَطيعُوا اللَّهَ وَ رَسُولَهُ وَ لا تَنازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَ تَذْهَبَ ريحُكُمْ" ایک اور بات کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا ہے کہ مسلمان جسد واحد کے مانند ہے۔ اگر کہی ایک بال کو کوئی زک پہنچائیں تو تمام بدن کو درد پہنچنا چاہئے۔ اگر ہم ان بچوں کو جو اسلام راستے سے دورہوچکے ہیں یا بیٹیاں جو ہیں اسلام کے راستے سے فرار کرتی ہیں ۔یہ سب مغربی ثقافتی یلغار کی وجہ سے ہے۔ شہوت کو تحریک کرنے والےویڈیو(چینلیں ،سائٹیں) ان پر پابندی لگائی جائے۔ ٹی وی چینلوں میں ایسی فحاشیت ہے اگر اس (ثقافتی یلغار) کو روکا نہ جائے اس سے بدتر حالات ہوجائیں گے۔ اس کے لئے اس کی سب ذمہ داری علماء پر ہیں تاکہ وہ علماء متفق ہو کر لوگوں کو خبر دار کریں ،ان سے باز رہنے کی تلقین کرینگے۔ 

عبدالحسین :میں واپس مفتی صاحب سے پوچھتا ہوں کہ وہ بتائیں ہمیں کہ اگر ان مسائل کو جن کو ہمیں زیادہ طور پر توجہ دینا چاہئے۔ جو ہمارے معاشرے میں سماج میں جو خرابیاں ہیں اس میں شیعہ سنی کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کا ہے ۔ ہمیں پہلی پرائرٹی(اہمیت) کے طور پر مسلمان اور اسلام کے تحفظ کے لئے کیا کچھ کرنا چاہئے؟ 

مفتی اعظم مفتی بشیر الدین:میں اس صورت میں ایک گذارش کروں گا کہ ہم نے پانچ چھہ سال پہلے اتحاد ملت کے نام سے ایک باضابطہ ایک فورم تشکیل دی ہے ۔ اتحاد ملت کے نام سے جس میں، میں ان کا خدمتگار ہوں، میں ان کا سردار نہیں البتہ ان کی خدمت کر رہا ہوں۔ اور اس خدمت کے طور پر ہم نے کافی پیش رفت کی ہے۔ اس میں جماعت اسلامی بھی شامل ہے، جمعیت اہل حدیث بھی ہے، حنفی بھی ہے، علماء ہیں، اسٹوڈنٹس فیڈریشن ہے اور دوسری بڑی بڑی تنظیمیں تقریباً نو دس شیعہ حضرات بھی ہیں اس میں ۔ جو باضابطہ ایک اتفاق ، ایک لائحہ عمل، ایک منزل کی طرف رواں دواں ہیں۔ 

عبدالحسین:مفتی صاحب اس کی توضیح دینگے کہ ہم کس طرح عملی طور پر جو فورم اتحاد کے بنائے جاتے ہیں سماج کے لئے مؤثر بناتے ہیں؟(مباحثے کے دوسرے حصے میں جاری)
https://taghribnews.com/vdcjmheh.uqehizl3fu.html
منبع : تنا کشمیر بیورو
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ