تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
حالیہ دنوں غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلنکن نے 13 جنوری کو اپنی ایک تقریر میں اعتراف کیا ہے کہ غزہ میں جنگی حکمت عملی ناکام ہوچکی ہے۔ اس اعتراف کے ساتھ انہوں نے یہ بھی بیان کیا کہ غزہ میں حماس کو ملٹری طریقوں سے شکست نہیں دی جا سکتی۔ حماس نے غزہ میں اپنے شہید ہونے والے جوانوں کی تعداد کے برابر یا زیادہ تعداد میں نئے نوجوانوں کی بھرتی کر لی ہے۔ یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے کہ جب غزہ میں فلسطینی مزاحمت نے صیہونی فوجیوں کے خلاف کارروائیوں میں اضافہ کیا ہے اور روز بروز بڑھتی کارروائیوں میں درجنوں صیہونی فوجیوں کی ہلاکتوں کی تصدیق ہو رہی ہے۔ اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکتوں سے متعلق خود اسرائیلی ذرائع ابلاغ جن میں چینل 14 اور اسرائیل ہیوم شامل ہیں، اس بات کا اعتراف کرچکے ہیں کہ گذشتہ چند ماہ میں چار سو سے زائد اسرائیلی فوجی غزہ کے محاذ پر ہلاک ہوئے ہیں۔
یہ کارروائیاں خاص طور پر ایسے اوقات میں تیز ہوئی ہیں، جب یحییٰ سنوار کی شہادت کے بعد اسرائیل نے دعویٰ کیا ہے کہ حماس کی طاقت کو ختم کر دیا گیا ہے، لیکن ان کارروائیوں نے اسرائیل کے تمام تر دعووں کو جھوٹا ثابت کر دیا ہے۔ امریکی عہدیدار کا بیان اگرچہ کسی حد تک امریکہ اور اسرائیل کی کمزوری کی عکاسی کر رہا ہے، لیکن ایک خطرہ اب بھی موجود ہے کہ امریکہ اور اسرائیل اب سیاسی عنوان سے غزہ کو حماس کے ہاتھوں سے چھین لینے کی منصوبہ بندی کر رہے ہوں گے اور یقیناً ایسا ہی ہوگا، کیونکہ امریکہ ہمیشہ جنگ کے میدان میں شکست کے بعد سیاسی میدان میں اپنے حق میں فیصلہ حاصل کرنے کے پوری کوشش کرتا آیا ہے۔اس مرتبہ بھی شاید ایسا ہی کچھ ہو۔
بہرحال دوسری طرف سیاسی میدان بھی تیار نظر آرہا ہے کہ قطری وزارت خارجہ کے سرکاری ترجمان ماجد الانصاری نے کہا ہے کہ غزہ کی پٹی پر تباہی کی جنگ کو روکنے کے لیے ہونے والے مذاکرات “معاہدے کے حوالے سے آخری مراحل میں پہنچ چکے ہیں، لیکن ہمیں اس وقت تک زیادہ پرامید نہیں ہونا چاہیئے جب تک کہ ہم اس معاہدے کو حاصل نہیں کر لیتے۔‘‘ الانصاری نے دوحہ سے ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ "ہم تفصیلات میں نہیں جائیں گے، لیکن مسودہ دونوں فریقوں کو پہنچا دیا گیا ہے۔ اب حتمی تفصیلات پر بات چیت جاری ہے۔ البتہ ابھی جنگ بندی کا باقاعدہ اعلان ہونا باقی ہے اور یہ بات درست ہے کہ حماس اور اسرائیل کے مابین معاہدے کے اصولوں پر رضامندی ظاہر کی گئی ہے۔
حماس کا کیا مطالبہ ہے؟ حماس کے چند ایک موٹے موٹے مطالبات میں غزہ سے اسرائیلی فوج کا انخلاء ہے، قیدیوں کا تبادلہ ہے، جس میں لگ بھگ 1600 سے زائد قیدیوں کی فہرست اسرائیل کو پہنچا دی گئی ہے۔ اسی طرح غزہ میں آئندہ حکومت بنانے کے عنوان سے اسرائیل کی شرط ہے کہ غزہ میں مغربی کنارے جیسی اتھارٹی قائم ہو، یعنی حماس کا عمل دخل ختم ہو جائے، اسی طرح اسرائیل کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ حماس کے اعلیٰ کمانڈروں کو غزہ سے ملک بدر کیا جائے اور وہ کسی اور ملک میں جا کر رہ سکتے ہیں، جہاں ان کو نقصان نہ پہنچانے کی اسرائیلی ضمانت دی جا رہی ہے۔
حماس اور اسرائیل کے شرائط اور ایک دوسرے سے مطالبات کو دیکھ کر تو ایسا ہی لگتا ہے کہ شاید یہ معاہدہ کبھی انجام پانے والا ہے ہی نہیں۔ کیونکہ نہ تو حماس نے ایسی کوئی شرط مان لینی ہے کہ جس کی وجہ سے خود حماس نہ صرف فلسطینیوں میں زیر سوال بن جائے اور ساتھ ساتھ حماس کے اندر بھی ایک اختلافی مسئلہ جنم لے۔ حقیقت میں اسرائیل کی یہ شرائط اس وجہ سے رکھی گئی ہیں کہ حماس کو اندر سے کمزور اور کھوکھلا کیا جائے، کیونکہ جیسا کہ پہلے کہا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل جنگ کے میدان میں شکست کھا چکے ہیں اور اب سیاسی میدان یعنی مذاکرات کی میز پر میدان کی شکست کھائی ہوئی جنگ کو سازشوں کے ذریعے جیت کر سرخرو ہونا چاہتے ہیں۔
میرے اپنے ذاتی تجزیہ کے مطابق حماس ایسی کوئی شرط قبول نہیں کرے گی کہ جس میں حماس کے عہدیداروں کو غزہ بدر ہونا پڑے، اسی طرح دس لاکھ سے زائد فلسطین رفح کراسنگ پر موجود ہیں، جن کو اسرائیل واپس آنے کی اجازت نہیں دینا چاہتا، تاہم اس معاہدے میں ایک اہم شرط یہ بھی موجود ہے۔ اگر حماس ایسی کسی شرط کو قبول کرے تو پھر خود حماس کی فلسطینی عوام میں سیاسی مقبولیت کا جنازہ نکل جائے گا۔ اب دوسری طرف خود غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کی اپنی کیا حالت ہوچکی ہے؟ کیوں آخر جنگ بندی کے معاہدے پر بات شروع کی گئی ہے۔؟ ایک وجہ تو حماس کی از سر نو مزاحمتی کارروائیوں میں بڑی تعداد میں مرنے والے صیہونی فوجی ہیں، دوسری اہم وجہ سیاسی میدان کی چال کے ذریعے وہ حماس کو ٹریپ کرنا چاہتے ہیں، جیسا کہ انہوں نے لبنان میں جال بچھایا تھا، لیکن ناکام ہوگئے تھے۔
تیسری وجہ شاید ٹرمپ بھی ہوسکتا ہے، جو نیتن یاہو پر دبائو بڑھا رہا ہوگا کہ جلد از جلد جنگ کو ختم کرو۔ چوتھی وجہ اسرائیلی فوج کا غزہ میں مزید جنگی زمینی کارروائیوں میں حصہ لینے سے انکار کا مسئلہ بھی ہے۔ پانچواں مسئلہ خود اسرائیل کے غاصب حکومت کے عہدیداروں کی باہمی لڑائی اور اختلافات ہیں، یعنی آرمی چیف کو باقاعدہ وزیر جنگ نے ڈانٹ دیا ہے اور اسی طرح آرمی چیف نے اپنے نائب کے ساتھ شدید لڑائی کی ہے، جس کی خبریں اسرائیلی ذرائع ابلاغ کی زینت بن چکی ہے۔ غاصب اسرائیل کے نام نہاد وزیر انصاف نے سپریم کورٹ کے جج کے ساتھ لڑائی کی ہے اور اسی طرح دیگر عہدیداروں کی باہمی لڑائیوں کے قصے عام ہوچکے ہیں۔ اسرائیلی حزب اختلاف کے اہم عہدیدار لائبر مین کہتے ہیں کہ اگر نیتن یاہو نے غزہ جنگ میں یہی پالیسی جاری رکھی تو پھر اسرائیلی 2026ء تک نابود ہو جائے گا۔
ایسی متعدد اور بھی کئی وجوہات ہیں، جن کی بناء پر غاصب صیہونی حکومت کو مجبور ہو کر غزہ جنگ بندی کا معاہدہ کرنا پڑ رہا ہے، لیکن اس معاہدے کی آڑ میں دشمن کی کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح حماس کو اس معاہدے کے ذریعے سیاسی اور جنگی میدان سے آئوٹ کر دیا جائے اور اس کام کے لئے ہر قسم کا حربہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کے انتہائی دائیں بازو کے وزیر "ایتمار بن گویر" نے غزہ پر تباہی کی جنگ کو ختم کرنے کے معاہدے کی مخالفت کا اعلان کیا ہے، جسے انہوں نے مصر، قطر اور امریکہ کی قیادت میں بالواسطہ مذاکرات میں ٹھوس پیش رفت کی روشنی میں اسلامی تحریک مزاحمت "حماس کے سامنے ہتھیار ڈالنے کا معاہدہ” قرار دیا ہے۔
سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں بن گویر نے اپنے اتحادی پارٹنر وزیر خزانہ بیزلیل سموٹریچ سے مطالبہ کیا کہ وہ اس معاہدے کی مخالفت میں ان کے ساتھ شامل ہو جائیں اور اگر اس پر عمل درآمد ہوتا ہے تو حکومت سے علیحدگی اختیار کر لیں، "کیونکہ یہ حماس کو تسلیم کرنے کی نمائندگی کرتا ہے۔ بن گویر بہت پریشان نظر آیا، جب اس نے سموٹریچ کو مخاطب کیا کہ "آئیے وزیراعظم (بینجمن نیتن یاہو) کے پاس جائیں اور انہیں بتائیں کہ اگر وہ اس معاہدے کو منظور کرتے ہیں تو ہم حکومت سے دستبردار ہو جائیں گے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ بن گویر اور سمورٹریچ کی جماعتیں ایک فہرست کے ساتھ اسرائیلی کنیسٹ میں پہنچی ہیں، لیکن وہ دو الگ الگ جماعتیں ہیں۔
اسرائیلی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ اسموٹریچ کو بن گویر کی دعوت قبول کرنے کی طرف راغب نہیں کیا جائے گا، کیونکہ حکومت کو ختم کرنا ان کے مفاد میں نہیں ہے، کیونکہ رائے عامہ کے جائزوں سے انھیں انتخابات میں کامیابی کی امید نہیں۔ بن گویر بھی اکیلے حکومت کو ختم نہیں کرسکتا، کیونکہ اس کے پاس 4 اراکین ہیں۔ اس کی تلافی "نیو ہوپ” پارٹی کے سربراہ گیڈون ساعر کریں گے، جنہیں نیتن یاہو نے حال ہی میں وزیر خارجہ مقرر کیا تھا اور ان کے پاس یہ تعداد پوری ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اس تمام تر صورتحال کو دیکھنے کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر غزہ جنگ بندی کا معاہدہ عملی جامہ پہنتا ہے تو بھی اسرائیل کو ایک بڑی شکست ہوگی اور اگر یہ جنگ اسی طرح جاری رہتی ہے تو پھر بھی اسرائیل خسارے میں ہے، یعنی اسرائیل ہر دو طرح سے ڈوب رہا ہے اور یہی غزہ جنگ بندی کا مستقبل اور نتیجہ نظر آتا ہے۔
حالیہ دنوں غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلنکن نے 13 جنوری کو اپنی ایک تقریر میں اعتراف کیا ہے کہ غزہ میں جنگی حکمت عملی ناکام ہوچکی ہے۔ اس اعتراف کے ساتھ انہوں نے یہ بھی بیان کیا کہ غزہ میں حماس کو ملٹری طریقوں سے شکست نہیں دی جا سکتی۔ حماس نے غزہ میں اپنے شہید ہونے والے جوانوں کی تعداد کے برابر یا زیادہ تعداد میں نئے نوجوانوں کی بھرتی کر لی ہے۔ یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے کہ جب غزہ میں فلسطینی مزاحمت نے صیہونی فوجیوں کے خلاف کارروائیوں میں اضافہ کیا ہے اور روز بروز بڑھتی کارروائیوں میں درجنوں صیہونی فوجیوں کی ہلاکتوں کی تصدیق ہو رہی ہے۔ اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکتوں سے متعلق خود اسرائیلی ذرائع ابلاغ جن میں چینل 14 اور اسرائیل ہیوم شامل ہیں، اس بات کا اعتراف کرچکے ہیں کہ گذشتہ چند ماہ میں چار سو سے زائد اسرائیلی فوجی غزہ کے محاذ پر ہلاک ہوئے ہیں۔
یہ کارروائیاں خاص طور پر ایسے اوقات میں تیز ہوئی ہیں، جب یحییٰ سنوار کی شہادت کے بعد اسرائیل نے دعویٰ کیا ہے کہ حماس کی طاقت کو ختم کر دیا گیا ہے، لیکن ان کارروائیوں نے اسرائیل کے تمام تر دعووں کو جھوٹا ثابت کر دیا ہے۔ امریکی عہدیدار کا بیان اگرچہ کسی حد تک امریکہ اور اسرائیل کی کمزوری کی عکاسی کر رہا ہے، لیکن ایک خطرہ اب بھی موجود ہے کہ امریکہ اور اسرائیل اب سیاسی عنوان سے غزہ کو حماس کے ہاتھوں سے چھین لینے کی منصوبہ بندی کر رہے ہوں گے اور یقیناً ایسا ہی ہوگا، کیونکہ امریکہ ہمیشہ جنگ کے میدان میں شکست کے بعد سیاسی میدان میں اپنے حق میں فیصلہ حاصل کرنے کے پوری کوشش کرتا آیا ہے۔اس مرتبہ بھی شاید ایسا ہی کچھ ہو۔
بہرحال دوسری طرف سیاسی میدان بھی تیار نظر آرہا ہے کہ قطری وزارت خارجہ کے سرکاری ترجمان ماجد الانصاری نے کہا ہے کہ غزہ کی پٹی پر تباہی کی جنگ کو روکنے کے لیے ہونے والے مذاکرات “معاہدے کے حوالے سے آخری مراحل میں پہنچ چکے ہیں، لیکن ہمیں اس وقت تک زیادہ پرامید نہیں ہونا چاہیئے جب تک کہ ہم اس معاہدے کو حاصل نہیں کر لیتے۔‘‘ الانصاری نے دوحہ سے ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ "ہم تفصیلات میں نہیں جائیں گے، لیکن مسودہ دونوں فریقوں کو پہنچا دیا گیا ہے۔ اب حتمی تفصیلات پر بات چیت جاری ہے۔ البتہ ابھی جنگ بندی کا باقاعدہ اعلان ہونا باقی ہے اور یہ بات درست ہے کہ حماس اور اسرائیل کے مابین معاہدے کے اصولوں پر رضامندی ظاہر کی گئی ہے۔
حماس کا کیا مطالبہ ہے؟ حماس کے چند ایک موٹے موٹے مطالبات میں غزہ سے اسرائیلی فوج کا انخلاء ہے، قیدیوں کا تبادلہ ہے، جس میں لگ بھگ 1600 سے زائد قیدیوں کی فہرست اسرائیل کو پہنچا دی گئی ہے۔ اسی طرح غزہ میں آئندہ حکومت بنانے کے عنوان سے اسرائیل کی شرط ہے کہ غزہ میں مغربی کنارے جیسی اتھارٹی قائم ہو، یعنی حماس کا عمل دخل ختم ہو جائے، اسی طرح اسرائیل کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ حماس کے اعلیٰ کمانڈروں کو غزہ سے ملک بدر کیا جائے اور وہ کسی اور ملک میں جا کر رہ سکتے ہیں، جہاں ان کو نقصان نہ پہنچانے کی اسرائیلی ضمانت دی جا رہی ہے۔
حماس اور اسرائیل کے شرائط اور ایک دوسرے سے مطالبات کو دیکھ کر تو ایسا ہی لگتا ہے کہ شاید یہ معاہدہ کبھی انجام پانے والا ہے ہی نہیں۔ کیونکہ نہ تو حماس نے ایسی کوئی شرط مان لینی ہے کہ جس کی وجہ سے خود حماس نہ صرف فلسطینیوں میں زیر سوال بن جائے اور ساتھ ساتھ حماس کے اندر بھی ایک اختلافی مسئلہ جنم لے۔ حقیقت میں اسرائیل کی یہ شرائط اس وجہ سے رکھی گئی ہیں کہ حماس کو اندر سے کمزور اور کھوکھلا کیا جائے، کیونکہ جیسا کہ پہلے کہا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل جنگ کے میدان میں شکست کھا چکے ہیں اور اب سیاسی میدان یعنی مذاکرات کی میز پر میدان کی شکست کھائی ہوئی جنگ کو سازشوں کے ذریعے جیت کر سرخرو ہونا چاہتے ہیں۔
میرے اپنے ذاتی تجزیہ کے مطابق حماس ایسی کوئی شرط قبول نہیں کرے گی کہ جس میں حماس کے عہدیداروں کو غزہ بدر ہونا پڑے، اسی طرح دس لاکھ سے زائد فلسطین رفح کراسنگ پر موجود ہیں، جن کو اسرائیل واپس آنے کی اجازت نہیں دینا چاہتا، تاہم اس معاہدے میں ایک اہم شرط یہ بھی موجود ہے۔ اگر حماس ایسی کسی شرط کو قبول کرے تو پھر خود حماس کی فلسطینی عوام میں سیاسی مقبولیت کا جنازہ نکل جائے گا۔ اب دوسری طرف خود غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کی اپنی کیا حالت ہوچکی ہے؟ کیوں آخر جنگ بندی کے معاہدے پر بات شروع کی گئی ہے۔؟ ایک وجہ تو حماس کی از سر نو مزاحمتی کارروائیوں میں بڑی تعداد میں مرنے والے صیہونی فوجی ہیں، دوسری اہم وجہ سیاسی میدان کی چال کے ذریعے وہ حماس کو ٹریپ کرنا چاہتے ہیں، جیسا کہ انہوں نے لبنان میں جال بچھایا تھا، لیکن ناکام ہوگئے تھے۔
تیسری وجہ شاید ٹرمپ بھی ہوسکتا ہے، جو نیتن یاہو پر دبائو بڑھا رہا ہوگا کہ جلد از جلد جنگ کو ختم کرو۔ چوتھی وجہ اسرائیلی فوج کا غزہ میں مزید جنگی زمینی کارروائیوں میں حصہ لینے سے انکار کا مسئلہ بھی ہے۔ پانچواں مسئلہ خود اسرائیل کے غاصب حکومت کے عہدیداروں کی باہمی لڑائی اور اختلافات ہیں، یعنی آرمی چیف کو باقاعدہ وزیر جنگ نے ڈانٹ دیا ہے اور اسی طرح آرمی چیف نے اپنے نائب کے ساتھ شدید لڑائی کی ہے، جس کی خبریں اسرائیلی ذرائع ابلاغ کی زینت بن چکی ہے۔ غاصب اسرائیل کے نام نہاد وزیر انصاف نے سپریم کورٹ کے جج کے ساتھ لڑائی کی ہے اور اسی طرح دیگر عہدیداروں کی باہمی لڑائیوں کے قصے عام ہوچکے ہیں۔ اسرائیلی حزب اختلاف کے اہم عہدیدار لائبر مین کہتے ہیں کہ اگر نیتن یاہو نے غزہ جنگ میں یہی پالیسی جاری رکھی تو پھر اسرائیلی 2026ء تک نابود ہو جائے گا۔
ایسی متعدد اور بھی کئی وجوہات ہیں، جن کی بناء پر غاصب صیہونی حکومت کو مجبور ہو کر غزہ جنگ بندی کا معاہدہ کرنا پڑ رہا ہے، لیکن اس معاہدے کی آڑ میں دشمن کی کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح حماس کو اس معاہدے کے ذریعے سیاسی اور جنگی میدان سے آئوٹ کر دیا جائے اور اس کام کے لئے ہر قسم کا حربہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کے انتہائی دائیں بازو کے وزیر "ایتمار بن گویر" نے غزہ پر تباہی کی جنگ کو ختم کرنے کے معاہدے کی مخالفت کا اعلان کیا ہے، جسے انہوں نے مصر، قطر اور امریکہ کی قیادت میں بالواسطہ مذاکرات میں ٹھوس پیش رفت کی روشنی میں اسلامی تحریک مزاحمت "حماس کے سامنے ہتھیار ڈالنے کا معاہدہ” قرار دیا ہے۔
سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں بن گویر نے اپنے اتحادی پارٹنر وزیر خزانہ بیزلیل سموٹریچ سے مطالبہ کیا کہ وہ اس معاہدے کی مخالفت میں ان کے ساتھ شامل ہو جائیں اور اگر اس پر عمل درآمد ہوتا ہے تو حکومت سے علیحدگی اختیار کر لیں، "کیونکہ یہ حماس کو تسلیم کرنے کی نمائندگی کرتا ہے۔ بن گویر بہت پریشان نظر آیا، جب اس نے سموٹریچ کو مخاطب کیا کہ "آئیے وزیراعظم (بینجمن نیتن یاہو) کے پاس جائیں اور انہیں بتائیں کہ اگر وہ اس معاہدے کو منظور کرتے ہیں تو ہم حکومت سے دستبردار ہو جائیں گے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ بن گویر اور سمورٹریچ کی جماعتیں ایک فہرست کے ساتھ اسرائیلی کنیسٹ میں پہنچی ہیں، لیکن وہ دو الگ الگ جماعتیں ہیں۔
اسرائیلی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ اسموٹریچ کو بن گویر کی دعوت قبول کرنے کی طرف راغب نہیں کیا جائے گا، کیونکہ حکومت کو ختم کرنا ان کے مفاد میں نہیں ہے، کیونکہ رائے عامہ کے جائزوں سے انھیں انتخابات میں کامیابی کی امید نہیں۔ بن گویر بھی اکیلے حکومت کو ختم نہیں کرسکتا، کیونکہ اس کے پاس 4 اراکین ہیں۔ اس کی تلافی "نیو ہوپ” پارٹی کے سربراہ گیڈون ساعر کریں گے، جنہیں نیتن یاہو نے حال ہی میں وزیر خارجہ مقرر کیا تھا اور ان کے پاس یہ تعداد پوری ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اس تمام تر صورتحال کو دیکھنے کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر غزہ جنگ بندی کا معاہدہ عملی جامہ پہنتا ہے تو بھی اسرائیل کو ایک بڑی شکست ہوگی اور اگر یہ جنگ اسی طرح جاری رہتی ہے تو پھر بھی اسرائیل خسارے میں ہے، یعنی اسرائیل ہر دو طرح سے ڈوب رہا ہے اور یہی غزہ جنگ بندی کا مستقبل اور نتیجہ نظر آتا ہے۔