امریکی وزارت خارجہ کے مشیر نے ایک تقریر میں امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان اختلافات کی موجودگی کو تسلیم کیا اور امریکی حکومت کی ریاض کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کی پاسداری پر زور دیا۔
امریکی وزارت خارجہ کے مشیر ڈیرک شولے نے "الحره" چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا: "ریاض اور واشنگٹن کے درمیان اختلافات ہیں جن پر واضح طور پر بات کی جاتی ہے، لیکن امریکہ کے ساتھ طویل تعلقات ہیں۔ سعودی عرب، اور ہم اب بھی شراکت دار ہیں۔"
انھوں نے کہا: تعلقات میں کچھ اختلافات ہیں، جیسا کہ ستر کی دہائی میں ہوا جب سعودی عرب نے اسرائیل کے ساتھ 1973 کی جنگ کے بعد تیل کی برآمدات پر پابندی لگا دی، لیکن واشنگٹن کی ریاض کے ساتھ تمام شعبوں بالخصوص توانائی میں مضبوط شراکت داری ہے۔
مشیر ڈیرک شولے نے یہ بھی کہا کہ صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ سعودی عرب کے ساتھ سیکورٹی پارٹنرشپ کے لیے پرعزم ہے۔
واشنگٹن اور ریاض کے درمیان نئی کشیدگی اس وقت پیدا ہوئی جب سعودی عرب کی قیادت میں اوپیک + نے گیس کی آسمان چھوتی قیمتوں کی گرمی میں تیل کی پیداوار میں 20 لاکھ بیرل یومیہ کمی کی اور امریکی کانگریس کے متعدد ارکان نے ریاض کے ساتھ تعلقات پر نظرثانی کا مطالبہ کیا۔
چونکہ پیداوار میں کمی تیل کی قیمتوں میں اضافہ کر سکتی ہے، اس لیے بہت سے لوگ اس پیداوار میں کمی کو روسی صدر ولادیمیر پوٹن کی یوکرین میں جنگ اور اس کے خلاف امریکی پابندیوں کو کمزور کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھتے ہیں۔
امریکی وزارت خارجہ کے مشیر ڈیرک شولے نے "الحره" چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا: "ریاض اور واشنگٹن کے درمیان اختلافات ہیں جن پر واضح طور پر بات کی جاتی ہے، لیکن امریکہ کے ساتھ طویل تعلقات ہیں۔ سعودی عرب، اور ہم اب بھی شراکت دار ہیں۔"
انھوں نے کہا: تعلقات میں کچھ اختلافات ہیں، جیسا کہ ستر کی دہائی میں ہوا جب سعودی عرب نے اسرائیل کے ساتھ 1973 کی جنگ کے بعد تیل کی برآمدات پر پابندی لگا دی، لیکن واشنگٹن کی ریاض کے ساتھ تمام شعبوں بالخصوص توانائی میں مضبوط شراکت داری ہے۔
مشیر ڈیرک شولے نے یہ بھی کہا کہ صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ سعودی عرب کے ساتھ سیکورٹی پارٹنرشپ کے لیے پرعزم ہے۔
واشنگٹن اور ریاض کے درمیان نئی کشیدگی اس وقت پیدا ہوئی جب سعودی عرب کی قیادت میں اوپیک + نے گیس کی آسمان چھوتی قیمتوں کی گرمی میں تیل کی پیداوار میں 20 لاکھ بیرل یومیہ کمی کی اور امریکی کانگریس کے متعدد ارکان نے ریاض کے ساتھ تعلقات پر نظرثانی کا مطالبہ کیا۔
چونکہ پیداوار میں کمی تیل کی قیمتوں میں اضافہ کر سکتی ہے، اس لیے بہت سے لوگ اس پیداوار میں کمی کو روسی صدر ولادیمیر پوٹن کی یوکرین میں جنگ اور اس کے خلاف امریکی پابندیوں کو کمزور کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھتے ہیں۔