تہران روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کے خاتمے کے لیے ثالث کے طور پر کام کرنے کے لیے تیار ہے
اب تک امریکہ کی سمجھ میں یہ آ جانا چاہیے کہ ایرانی قوم کے خلاف پابندیوں کی شکل میں یا دھمکی کے انداز میں، زور زبردستی کی زبان کام نہيں آتی یقینی طور پر ہمارا فیصلہ اقدامات کی بنیاد پر ہوتا ہے۔
شیئرینگ :
اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر سید ابراہیم رئيسی نے کہا ہے: اب تک امریکہ کی سمجھ میں یہ آ جانا چاہیے کہ ایرانی قوم کے خلاف پابندیوں کی شکل میں یا دھمکی کے انداز میں، زور زبردستی کی زبان کام نہيں آتی یقینی طور پر ہمارا فیصلہ اقدامات کی بنیاد پر ہوتا ہے۔
ایران کے صدر سید ابراہیم رئيسی نے نیویارک میں مقامی وقت کے مطابق پیر کی شام امریکہ کی خارجہ پالیسیوں کے ماہرین اور دانشوروں سے ملاقات کی۔
صدر ایران نے اس موقع پر ایٹمی معاہدے کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے امریکہ کی جانب سے ایٹمی معاہدے کی خلاف ورزیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ میں حکومت بدلنے اور اس کی جانب سے اپنے وعدوں پر عمل کے اعلان کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران نے بھی اچھے معاہدے کے لئے آمادگی کا اعلان کیا لیکن کچھ دنوں کے بعد یہ واضح ہو گيا کہ دوسرے فریق اپنے وعدوں کے پابند نہیں ہیں۔
صدر مملکت نے ایران میں بلوؤں کے سلسلے میں امریکہ کی اندازے کی غلطی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کی حکومت نے کچھ نام نہاد ایرانی ایجنٹوں کے مشوروں اور اپنی خفیہ ایجنسیوں کے غلط اندازوں کی بناء پر مذاکرات چھوڑ کر بلوؤں سے امید لگا لی تھی جبکہ امریکہ کو معلوم ہونا چاہیے کہ اسلامی جمہوریہ ایران ایک ایسا تنومند درخت ہے جسے اس طرح کے جھونکے ہلا نہيں سکتے۔
انہوں نے کہا کہ دشمن، ایران کو شام بنانے کی کوشش میں تھے لیکن انہيں غلط فہمی تھی کیونکہ وہ اب بھی ایرانی قوم اور اسلامی انقلاب کو پہچان نہيں پائے ہيں۔
صدر ایران نے، امریکی حکومت کی جانب سے شہید سلیمانی کے قتل کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے، انہيں علاقے میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کا بہادر کمانڈر اور ان کے قتل کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کی تباہی قرار دیا اور کہا کہ شہید سلیمانی دہشت گردی اور داعش کے خلاف شجاعت کے ساتھ جنگ کرنے والے ایک بہادر کمانڈر تھے اور اگر انہوں نے داعش کو نہ روکا ہوتا تو دہشت گردی پورے یورپ میں پھیل گئی ہوتی، اس داعش کو ختم کیا جس کے بارے میں امریکہ نے واضح طور پر کہا ہے کہ اسے امریکی حکومت نے بنایا ہے۔
صدر ایران نے، شہید قاسم سلیمانی کے قتل کو، ریاستی دہشت گردی کی مثال قرار دیا اور اس بھیانک جرم کے ذمہ داروں کو سزا دیئے جانے کی ضرورت پر زور دیا۔
صدر نے کہا کہ خلیج فارس میں امریکہ کی موجودگي اور بحری جہازوں کو روکنے اور انہیں ضبط کرنے سے علاقے میں بد امنی پھیل رہی ہے۔
صدر ایران نے ایران میں خواتین کی صورت حال کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے سائنس و ٹکنالوجی، کھیل کود اور سیاست و حکومت کے مختلف شعبوں میں ایرانی خواتین کی موجودگي کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ برسوں کے واقعات میں ایک خاتون کے ساتھ حادثہ ہوا اور تمام میڈیکل رپورٹوں سے ثابت ہوا کہ پولیس کی طرف سے انہيں کوئي چوٹ نہيں پہنچائی گئی لیکن کیا امریکہ اور مغرب کے ذرائع ابلاغ اس حقیقت کو بتانے پر تیار ہوئے ؟
انہوں نے کہا: پوری دنیا میں سب سے زيادہ امریکہ میں خواتین جیل میں ہیں اور حالیہ دنوں میں ایک حاملہ خاتون امریکہ میں چوری کے شک میں پولیس کے ہاتھوں مار ڈالی گئی اور یہ گزشتہ برس امریکی پولیس کے ہاتھوں ہونے والی ایک ہزار دو سو ہلاکتوں کی ایک مثال ہے لیکن امریکی ذرائع ابلاغ اس بارے میں رپورٹ کیوں نہیں تیار کرتے ؟
صدر ایران نے اسی طرح کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے کبھی مذاکرات سے دوری اختیار نہيں کی ہے کیونکہ اس کے پاس اپنے اقدامات اور موقف کے لئے منطقی دلائل ہيں اور جنوبی کوریا سے ایران کے جو اثاثے چھوڑے گئے ہيں وہ ایران کا حق تھے اور امریکہ کو جواب دینا چاہیے کہ کیوں اس نے غیر منصفانہ طور پر ایرانی قوم کے حق کو روک رکھا تھا ؟