38 ویں عالمی وحدت اسلامی کانفرنس کے نام مرجع عالیقدر آیت اللہ نوری ہمدانی کا پیغام
استکبار سے مقابلے کا مقولہ اور مظلوموں کی آئیڈیالوجی قرآن میں اخوت اور بھائی چارے کے نظیرئیے سے ماخوذ ہے۔ لہذا اگر امت اسلامیہ کے دشمن حملہ آور ہوں تو امت اسلامیہ کو ان کا مقابلہ اور اپنا دفاع کرنے کی ضرورت پہلے سے زیادہ واضح ہوجاتی ہے۔
شیئرینگ :
تقریب نیوز کے مطابق 38ویں عالمی وحدت اسلامی کانفرنس کی افتتاحی تقریب میں مرجع عالیقدر آیت اللہ نوری ہمدانی کا مندرجہ ذیل پیغام پڑھ کر سنایا گیا:
الحمدلله رب العالمین و السلام و الصلوة علی سیدنا و نبینا ابی القاسم المصطفی محمد و علی اهل بیته الطیبین الطاهرین سیما بقیة الله فی الارضین
سلام علیکم و رحمة الله و برکاته
قال الله تعالی فی محکم کتابه:
ولاتکونوا کالذین تفرقوا و اختلفوا من بعد ما جاءهم البینات و اولئک لهم عذاب عظیم
سوره آل عمران آیه 105
38 ویں عالمی وحدت اسلامی کانفرنس کے شرکاء اور محترم مہمانوں کو خیر مقدم کہنے کے ساتھ چند نکات کی جانب اشارہ کرنا چاہتا ہوں۔
امت مسلمہ کی ترقی اور سربلندی کے حصول کے لیے مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور تفرقہ سے اجتناب کی ضرورت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کیونکہ آزاد اور مسلم اقوام کی سعادت ان کے درمیان اتحاد اور قربت پر منحصر ہے۔ یہ فطری بات ہے کہ تفرقہ اور اختلافات اسلامی قوموں کے لئے مشکلات کا باعث ہیں، اور یقیناً استکبار کا سب سے اہم ہدف اسلامی معاشروں میں تفرقہ ڈالنا اور ان پر تسلط قائم کرنا ہے۔ اس لیے اسلامی معاشرے کے ارکان بالخصوص مسلم علماء اور ماہرین کی بصیرت اور ہوشیاری ضروری اور ناگزیر ہے۔
قرآن کریم کے نقطہ نظر سے ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد، تعلق، ہمدردی اور ہم آہنگی کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ قرآن کریم میں خدا تعالیٰ اتحاد و اتفاق کو سربلندی کا سبب اور تفرقہ کو تنزلی کا سبب قرار دیتا ہے۔ آیہ شریفہ «إِنَّ هَٰذِهِۦٓ أُمَّتُكُمۡ أُمَّةࣰ وَٰحِدَةࣰ وَأَنَا۠ رَبُّكُمۡ فَٱعۡبُدُونِ» مسلمان ایک واحد امت تصور کئے جاتے ہیں اور انہیں صرف خدا پر ایمان سے تمسک کرکے اور اخوت کے بارے میں وحی کا پیغام حاصل کرکے اس خدائی نعمت کا شکر ادا کرنا چاہئے آپس میں جھگڑا نہ کریں۔
«وَلَا تَنَٰزَعُواْ فَتَفۡشَلُواْ وَتَذۡهَبَ رِيحُكُمۡۖ وَٱصۡبِرُوٓاْۚ إِنَّ ٱللَّهَ مَعَ ٱلصَّـٰبِرِينَ» کیونکہ نزاع اور اختلافات انہیں کمزور بنا دیتے ہیں اور ان کی طاقت و قوت کو ختم کر دیتے ہیں۔ فرقہ واریت اور مسلمانوں کے درمیان اختلافات اور نفرت پیدا کرنے کے افسوسناک نتائج ہو سکتے ہیں۔
دینی مآخذ میں اسلامی اتحاد اور بھائی چارے کا جو مفہوم بیان کیا گیا ہے وہ ایک ایسا اتحاد ہے جو انسانیت کو ایک خدا اور ایک ہی مقصد کی طرف لے جاتا ہے، اس لیے مختصر جملہ " إِنَّما الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ " کے ساتھ اپنے پیروکاروں کو دوسروں کے ساتھ انتہائی نرمی سے پیش آنے اور خوبصورت ترین مساوات کی جانب رہنمائی کی ہے۔
بلاشبہ اسلامی اتحاد کو محسوس کرنے اور اسلامیت کو درپیش چیلنجوں کے حل کے لیے ہمیں اسلامی گروہوں اور ممالک کے درمیان وسیع رابطے کے سفارتی حل اور مذہبی ہم آہنگی کے اداروں کے تعمیری کردار کو بروئے کار لانا چاہیے۔ تکفیری دھاروں کا مقابلہ درحقیقت گروہوں اور اسلامی ممالک کے درمیان وسیع رابطے کی بنیاد پر ہی ممکن ہے، جو دشمنوں سے لاحق خطرات کے مقابلے میں اسلامی افکار و نظریات کی ہم آہنگی کا انتظام کر سکتا ہے۔
اس سلسلے میں اسلامی ممالک کے درمیان سٹریٹیجک اختلافات کو کم کرنے اور اسرائیل اور مسلمانوں کے درمیان تنازعات کی طرف توجہ دلانے کے لیے عالمی مجلس تقریب مذاہب اسلامی ایک خاص مقام رکھتی ہے۔ دوسری طرف مختلف طریقوں سے تکفیری دہشت گرد گروہوں کی جامع سرکوبی سے امت اسلامیہ کے اتحاد اور اسلامو فوبیا کی نفی کے ساتھ ساتھ نبوی اسلام کی توسیع کے لیے ایک پلیٹ فارم تشکیل دیا جا سکتا ہے۔
امت اسلامیہ کو اس وقت قرآن کریم کی تعلیمات سے رجوع کرنے کی ضرورت بہت اہم اور ناقابل تردید ہے کیونکہ بدقسمتی سے اس وقت بعض اسلامی ممالک انتشار اور بحران کا شکار ہیں اور ایسے ہنگاموں اور بحرانوں کی اصل وجہ یقیناً یہی عالمی استکبار خصوصاً امریکہ اور ان کے ایجنٹوں کی مداخلت اور سازشیں ہیں۔ دوسری طرف بعض دھوکے باز اور انتہا پسند مغربی اور صیہونی میڈیا اسلام اور مسلمانوں سے دشمنی کی وجہ سے ہمیشہ ان اختلافات اور رنجشوں کو ہوا دیتے ہیں اور اصلِ اسلام کے چہرے کو داغدار کرتے ہیں۔
استکبار سے مقابلے کا مقولہ اور مظلوموں کی آئیڈیالوجی قرآن میں اخوت اور بھائی چارے کے نظیرئیے سے ماخوذ ہے۔ لہذا اگر امت اسلامیہ کے دشمن حملہ آور ہوں تو امت اسلامیہ کو ان کا مقابلہ اور اپنا دفاع کرنے کی ضرورت پہلے سے زیادہ واضح ہوجاتی ہے۔
جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ آج عالم اسلام کا سب سے بڑا مسئلہ فلسطین کا مسئلہ ہے۔ غزہ اور دیگر مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں صیہونی نسل پرست حکومت کے جرائم اور دنیا کی نظروں میں پچاس ہزار سے زیادہ مظلوم فلسطینی خواتین اور بچوں کے قتل، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور گھروں کی تباہی کے لاتعداد واقعات کءی مہینوں سے جاری ہیں۔ مساجد، اسکول اور اسپتال حتیٰ کہ چرچ اور دیگر عبادتگاہیں بھی اس حکومت کے ظلم و بربریت کی گہرائیوں اور ریاستی دہشت گردی کی علامت ہیں۔
نسل کشی اور انسانیت اقدار کی خلاف ورزی اور جنگی جرائم کی مذمت ہونی چاہیے۔ فلسطین کے مظلوم اور بے دفاع عوام کے خلاف یہ جرائم بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی قرار دیئے جانے چاہئیں۔ اس نقطہ نظر سے بچوں کی قاتل صیہونی حکومت کی جانب سے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی اور غزہ پٹی پر حملوں کا تسلسل، پوری دنیا کے مسلمانوں کی طرف سے فلسطین کے مظلوم عوام کی حمایت کے لیے فیصلہ کن مؤقف اپنانے کی ضرورت ہے۔
غاصب صیہونی حکومت نے امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کی حمایت سے عام شہریوں، خواتین اور بچوں کے حقوق پامال کرکے تمام حدیں عبور کر لی ہیں اور مسلمانوں اور دنیا کے تمام آزادی پسندوں کو ان جنگلی بھیڑیوں کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے اور اس غاصب کی مذمت کرنی چاہیے اور غاصب حکومت کے وحشیانہ حملوں کو روکنے کے لیے جوابدہ بنایا جانا چاہئے۔
آخر میں وحدت اسلامی کانفرنس کے انعقاد میں شامل افراد کا شکریہ ادا کرتے ہوئے امید کی جاتی ہے کہ اس اہم اجلاس کی کامیابی قدس شریف کی آزادی میں مزاحمت کے محور کا ہمہ گیر دفاع ثابت ہو گی۔ غزہ کی پٹی اور دیگر مقبوضہ علاقوں میں ناجائز قابض حکومت اور ان کے حامیوں کے وحشیانہ رویے کے بارے میں دنیا کو امید اور آگاہی دی جائے گی اور یہ بھی توقع ہے کہ یہ اجلاس اسلامی ممالک کو فلسطین کے مظلوم عوام کی حمایت کرنے کی ترغیب دے گا اور یہ ممالک اس غاصب حکومت سے مکمل طور پر کوئی اپنے رابطے ختم کردیں گے۔
والسلَام عليکم و رحمة الله و برکاته