تاریخ شائع کریں2017 23 February گھنٹہ 06:40
خبر کا کوڈ : 260990

پاکستان میں آپریشن ’رد الفساد‘ شروع کرنے کا فیصلہ

آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی زیر صدارت لاہور میں سیکیورٹی اجلاس میں کیا گیا
پاک فوج نے ملک بھر میں آپریشن ’رد الفساد‘ شروع کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
پاکستان میں آپریشن ’رد الفساد‘ شروع کرنے کا فیصلہ
پاک فوج نے ملک بھر میں آپریشن ’رد الفساد‘ شروع کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی زیر صدارت لاہور میں سیکیورٹی اجلاس میں کیا گیا۔

بیان میں کہا گیا کہ ملک بھر کو اسلحہ سے پاک کرنا، بارودی مواد کو قبضے میں لینا آپریشن کے اہم جز ہیں، جبکہ آپریشن کا مقصد ملک بھر میں دہشت گردی کا بلاامتیاز خاتمہ اور سرحدی سلامتی کو یقینی بنانا ہے۔

آپریشن ’رد الفساد‘ نیشنل ایکشن پلان کا حصہ ہے جس کے دوران پنجاب میں انسداد دہشت گردی کے لیے رینجرز بڑے پیمانے پر کارروائی کرے گی، جبکہ آپریشن میں فضائیہ، بحریہ، سول آرمڈ فورسز اور سیکیورٹی ادارے شریک ہوں گے۔

یاد رہے کہ وفاق کے زیرِ انتظام پاک افغان سرحد پر واقع شمالی وزیرستان، خیبر ایجنسی اور اورکزئی ایجنسی سمیت 7 ایجنسیوں کو عسکریت پسندوں کی محفوظ پناہ گاہ سمجھا جاتا ہے۔

حکومت اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے درمیان امن مذاکرات کی ناکامی اور کراچی ایئرپورٹ پر حملے کے بعد پاک فوج نے جون 2014 میں شمالی وزیرستان میں آپریشن ’ضربِ عضب‘ شروع کیا تھا۔

شمالی وزیرستان کی تحصیل میرعلی کو دہشت گردوں سے خالی کروانے کے بعد سیکیورٹی فورسز نے آپریشن کا دائرہ کار شمالی وزیرستان کے دوردراز علاقوں تک بڑھا دیا تھا۔

بعد ازاں خیبر ایجنسی اور ملحقہ علاقوں میں آپریشن ’خیبر ون‘ اور 'خیبر ٹو' کے تحت سیکیورٹی فورسز نے اپنی کارروائیاں مزید تیز کردیں۔

جبکہ دسمبر 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے حملے کے بعد بھی دہشت گردوں کے خلاف کارروائی میں تیزی لائی گئی۔

قبل ازیں 2009 میں پاک فوج نے جنوبی وزیرستان میں کمانڈر بیت اللہ محسود کے گروپ کے خلاف فوجی کارروائی کا آغاز کیا اور aسے 'آپریشن راہ نجات' کا نام دیا گیا۔

اس آپریشن کا باقاعدہ آغاز پاک فوج کے جنرل ہیڈ کواٹرز پر شدت پسندوں کے حملے کے بعد ہوا۔

آپریشن کے اعلان کے بعد ایجنسی کے دور دراز علاقوں سے لوگوں نے بڑے پیمانے پر نقل مکانی شروع کی اور وانا، ٹانک، لکی مروت، بنوں اور ڈیرہ اسماعیل میں پناہ گزین ہوئے۔

رواں ماہ 13 فروری کو لاہور کے مال روڈ پر پنجاب اسمبلی کے سامنے دہشت گردوں نے خودکش حملہ کیا، جس کے نتیجے میں پولیس افسران سمیت 13 افراد ہلاک اور 85 زخمی ہوئے، جس کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے علیحدگی اختیار کرنے والے گروپ 'جماعت الاحرار' نے قبول کی تھی۔

13 فروری کو ہی کوئٹہ میں سریاب روڈ میں واقع ایک پل پر نصب دھماکا خیز مواد کو ناکارہ بناتے ہوئے بم ڈسپوزل اسکواڈ (بی ڈی ایس) کمانڈر سمیت 2 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔

15 فروری کو وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے فاٹا کی مہمند ایجنسی میں خودکش حملے کے نتیجے میں خاصہ دار فورس کے 3 اہلکاروں سمیت 5 افراد جاں بحق ہوگئے تھے، اس حملے کی ذمہ داری بھی’جماعت الاحرار’ نے قبول کی تھی۔

15 فروری کو ہی پشاور میں ایک خود کش حملہ آور نے ججز کی گاڑی کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں گاڑی کا ڈرائیور ہلاک ہوگیا تھا، جس کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے قبول کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

16 فروری کو صوبہ سندھ کے شہر سیہون میں درگاہ لعل شہباز قلندر کے احاطے میں خودکش دھماکے کے نتیجے میں خواتین و بچوں سمیت 80 سے زائد افراد جاں بحق اور 200 سے زائد زخمی ہوئے، جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

21 فروری کو خیبرپختونخوا کے ضلع چارسدہ میں ضلع کچہری پر ہونے والے حملے کے نتیجے میں 5 افراد جاں بحق اور 15 سے زائد افراد زخمی ہوئے جبکہ 3 خود کش حملہ آوروں کو بھی ہلاک کردیا گیا۔ حملے کی ذمہ داری کالعدم گروپ جماعت الاحرار نے قبول کرنے کا دعویٰ کیا۔

خود کش دھماکوں کے ساتھ ساتھ ملک کے مختلف علاقوں میں سیکیورٹی فورسز کے قافلوں کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے، جمعرات 16 فروری کو ہی بلوچستان کے علاقے آواران میں سڑک کنارے نصف دیسی ساختہ بم پھٹنے سے پاک فوج کے ایک کیپٹن سمیت 3 اہلکار جاں بحق ہوگئے تھے۔
https://taghribnews.com/vdcf1xd0xw6dv1a.k-iw.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ