اگر اسرائیل اس قرارداد پر عملدرآمد نہیں کرتا اور جارحیت جاری رکھتا ہے تو اقوام متحدہ اس کے خلاف بین الاقوامی اور اقتصادی پابندیاں عائد کر سکتی ہے۔ مزید برآں، اسرائیل کے خلاف اقوام متحدہ کے چارٹر سے روگردانی کے جرم میں عدالتی کاروائی بھی ہو سکتی ہے۔
شیئرینگ :
تحریر: علی احمدی
بشکریہ:اسلام ٹائمز
پیر 25 مارچ 2024ء کے دن غزہ میں جنگ شروع ہوئے 170 دن بعد آخرکار اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی قرارداد منظور کر لی گئی۔ یہ قرارداد سلامتی کونسل کے عارضی اراکین نے پیش کی تھی اور کل 15 اراکین میں سے 14 نے اس کے حق میں ووٹ دیا جبکہ امریکہ نے غیر جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ تو اس کی حمایت کی اور نہ ہی اس کی مخالفت کا اظہار کیا۔ یوں ماضی کی طرح امریکہ نے اس قرارداد کو ویٹو نہیں کیا جس کے نتیجے میں وہ بھاری اکثریت سے منظور کر لی گئی۔ سلامتی کونسل نے اس قرارداد میں اسرائیل اور حماس کے درمیان فوری جنگ بندی اور تمام قیدیوں کی فوری اور غیر مشروط آزادی کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ قرارداد فریقین سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ تمام جنگی قیدیوں کے بارے میں بین الاقوامی قوانین کے تحت عمل کریں۔
یہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں غزہ میں جنگ بندی کیلئے پیش ہونے والی چوتھی لازم الاجرا قرارداد تھی جسے غزہ جنگ کے 171 ویں دن منظور کر لیا گیا اور امریکہ نے اس دوران صیہونی حکمرانوں کا وائٹ ہاوس کیلئے شرمندگی کا باعث بننے کی وجہ سے اس قرارداد کو ویٹو کرنے کی بجائے غیر جانبداری کا مظاہرہ کیا۔ اب تک بائیڈن حکومت سلامتی کونسل میں پیش کئے جانے والی جنگ بندی کی تمام قراردادوں کو ویٹو کرتی آئی تھی۔ سلامتی کونسل کی جانب سے غزہ میں جاری جنگ کے بارے میں اپنے موقف میں اس اہم تبدیلی کے باوجود اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم، اس قرارداد کو پس پشت ڈال کر بدستور عام فلسطینی شہریوں کی قتل و غارت جاری رکھے ہوئے ہے۔ قرارداد منظور ہونے کے چند دن بعد بھی غزہ پر صیہونی بمباری جاری ہے اور عام شہری شہید اور زخمی ہو رہے ہیں۔
ایسی صورتحال میں یہ اہم سوال سب کے ذہن میں پیدا ہو رہا ہے کہ غزہ میں فوری جنگ بندی پر مشتمل سلامتی کونسل کی قرارداد کس حد تک لازم الاجرا ہے اور کیا عملی طور پر اس کا کوئی فائدہ ہے بھی یا نہیں؟ یہ قرارداد، جو اقوام متحدہ کے چارٹر کی شق 6 کے تحت دس اراکین کی جانب سے پیش کی گئی ہے، رمضان المبارک میں فوری جنگ بندی اور تمام فریقین کی جانب سے اس کے احترام کا مطالبہ کرتی ہے تاکہ وہ ایک پائیدار اور مستقل جنگ بندی میں تبدیل ہو جائے۔ اسی طرح اس قرارداد میں یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ تمام جنگی قیدیوں کو فوری طور پر آزاد کر دیا جائے اور غزہ میں ادویہ جات سمیت انسانی امداد فراہم کی جائے۔ اسی طرح تمام فریقین پر بین الاقوامی قوانین کی پابندی کیلئے بھی زور ڈالا گیا ہے۔ اس قرارداد کے بارے میں پائے جانے والے 6 اہم سوال درج ذیل ہیں:
1)۔ کیا غزہ میں جنگ بندی کیلئے سلامتی کونسل کی قرارداد لازم الاجرا ہے؟
قانونی لحاظ سے سلامتی کونسل کی قرارداد جنگ کے دونوں فریقوں کیلئے لازم الاجرا سمجھی جاتی ہے۔ خاص طور پر اس وقت جب قرارداد نمبر 2728 کا متن واضح طور پر جنگ بندی کے قیام اور قیدیوں کی آزادی پر زور دے رہا ہے۔ درحقیقت، اس قرارداد کا لب و لہجہ نصیحت آمیز نہیں ہے اور یہ قرارداد واضح انداز میں دونوں فریقوں سے جنگ بندی کا مطالبہ کر رہی ہے لہذا لازم الاجرا ہے۔
2)۔ کیا سلامتی کونسل کی قرارداد کا لازم الاجرا ہونا اسرائیل اور حماس پر لاگو ہو گا؟
قانون کی روشنی میں اس قرارداد پر عملدرآمد، اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس، اسرائیل اور دونوں فریقوں کے حامی ممالک کیلئے لازمی ہے۔
3)۔ اس قرارداد پر عملدرآمد کروانا کن اداروں کی ذمہ داری ہے؟
سلامتی کونسل کی قرارداد منظور ہونے کے فوراً بعد لازم الاجرا ہو جاتی ہے اور اس پر عملدرآمد کروانے کیلئے کسی طاقت کی ضرورت نہیں۔
4)۔ کیا اس قرارداد کی روشنی میں جنگ بندی اسرائیلی یرغمالیوں کی آزادی سے مشروط ہے؟
قرارداد کے متن کی روشنی میں غزہ میں جنگ بندی اسرائیلی یرغمالیوں کی آزادی سے مشروط نہیں ہے۔
5)۔ قرارداد پر عملدرآمد نہ کرنے کے کیا نتائج برآمد ہوں گے؟
اگر اسرائیل اس قرارداد پر عملدرآمد نہیں کرتا اور جارحیت جاری رکھتا ہے تو اقوام متحدہ اس کے خلاف بین الاقوامی اور اقتصادی پابندیاں عائد کر سکتی ہے۔ مزید برآں، اسرائیل کے خلاف اقوام متحدہ کے چارٹر سے روگردانی کے جرم میں عدالتی کاروائی بھی ہو سکتی ہے۔
6)۔ کیا سلامتی کونسل نے پہلی بار اس قسم کی قرارداد منظور کی ہے؟
اس سے پہلے بھی سلامتی کونسل غاصب صیہونی رژیم کے خلاف لازم الاجرا قراردادیں منظور کر چکی ہے۔ مثال کے طور پر جولائی 2006ء میں سلامتی کونسل نے قرارداد نمبر 1701 منظور کی اور اسرائیل اور حزب اللہ لبنان کے درمیان جنگ ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ اسی طرح سلامتی کونسل نے 2016ء میں بھی اسرائیل کے خلاف قرارداد منظور کی جس میں یہودی بستیوں کی تعمیر کو غیر قانونی قرار دے کر ان کی تعمیر روک دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
جنرل حسین سلامی نے آج اتوار، 3 نومبر کو تہران میں امریکا کے سابق جاسوسی اڈے کے سامنے طلبا کے اجتماع سے خطاب میں کہا کہ ہم امریکا کو 1949 اور 1953 کی فوجی بغاوتوں ...