تاریخ شائع کریں2024 2 April گھنٹہ 18:52
خبر کا کوڈ : 630279

اس بار کا یوم القدس روایتی یوم القدس نہیں

بنیادی طور پر یوم القدس عالمی برادری کے ضمیر کو جگانے اور اس سب سے اہم مسئلہ کی جانب متوجہ کرنے نیز مظلوم فلسطینیوں کو ان کا حق دلوانے کی جدوجہد کا ہی حصہ ہے، مگر اس بار کا یوم القدس روایتی یوم القدس نہیں ہے، اس بار کا یوم القدس معمولی یوم القدس نہیں ہے۔
اس بار کا یوم القدس روایتی یوم القدس نہیں
تحریر: ارشاد حسین ناصر
بشکریہ:اسلامی ٹائمز


امام خمینی (رح) کے حکم پر یوم القدس ہر سال ماہ صیام کے آخری جمعہ کو پوری دنیا میں منایا جاتا ہے، جس میں امت مسلمہ اور آزادی و حریت پسند، انسانیت سے پیار کرنے والے، ظالمین سے نفرت کرنے والے مرد و زنان، بچے، بوڑھے، جوان جلسے جلوس، ریلیز، سیمینار، کانفرنسز اور مظاہرے کرتے ہیں۔ مظلوم فلسطینیوں کیساتھ اظہار یکجہتی و ہمدردی کرتے ہیں۔ دنیا کے ضمیر کو جگانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ایک ایسا مسئلہ جس کا تعلق چھہتر برس سے ہے، اس کے حل کی جانب آگے بڑھنے کی کوششوں کی توصیف کرتے ہیں۔ عالمی انسانی حقوق کے اداروں کو بیدار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ دن اب ایک روایتی دن بن چکا ہے، جس میں لوگوں نے شرکت کرکے اپنے غم و غصہ کا اظہار کرنا ہوتا ہے۔ اپنے اپنے پلیٹ فارم سے فلسطینی مظلوموں کیساتھ کاندھا ملانا ہوتا ہے، جبکہ چھہتر برس سے جاری اسرائیل کے مظالم کی داستان بھی اسی دائرے میں آگے بڑھ رہی ہوتی ہے۔

اسرائیل واحد غیر قانونی ریاست ہے، جس نے عالمی انسانی حقوق کی پائمالی، اقوام متحدہ کی قراردادوں کو ردی کی ٹوکری میں ڈالنے، کسی قانون، اخلاق، ضمیر، ضابطے، اصول کی پروا کیے بنا اپنے ناجائز وجود کو دنیا کے نقشے پر مسلط کر رکھا ہے۔ اسرائیل کا وجود امت مسلمہ اور انسانیت کے قلب میں مانند خنجر ہے۔ اس لیے کہ ایک طرف تو یہ ناجائز وجود ہے، اوپر سے اس کا ہر اقدام ناجائز اور غیر قانونی، غیر اخلاقی، بے اصولی پر مبنی ہے۔ اس لیے اسرائیل کو دنیا کے نقشے پر رہنے کا کوئی حق نہیں دیا جا سکتا۔ اسرائیل کے خلاف جتنی بھی مزاحمت کی جائے، وہ کم ہے۔ اس نے دنیا کے قوانین، اصولوں، ضابطوں اور قراردادوں، عالمی معاہدوں کو روندا ہے تو اس کو بھی زمین دوز کرنا حق بنتا ہے۔

بنیادی طور پر یوم القدس عالمی برادری کے ضمیر کو جگانے اور اس سب سے اہم مسئلہ کی جانب متوجہ کرنے نیز مظلوم فلسطینیوں کو ان کا حق دلوانے کی جدوجہد کا ہی حصہ ہے، مگر اس بار کا یوم القدس روایتی یوم القدس نہیں ہے، اس بار کا یوم القدس معمولی یوم القدس نہیں ہے، اس بار بہت کچھ تبدیل ہوچکا ہے۔ سات اکتوبر2023ء اور اس کے بعد دنیا میں جتنی تبدیلیاں ہوچکی ہیں، اس کو سامنے رکھیں تو یہ یوم القدس پہلے برسوں کی طرح نہیں سمجھنا چاہیئے کہ سات اکتوبر دنیائے مزاحمت و مقاومت کی ایک نئی تاریخ کا دن ہے۔ مزاحمت و جدوجہد، وہ بھی ان لوگوں کی جانب سے جنہوں نے چھہتر برس سے ماسوائے تباہی و بربادی کے کچھ نہیں دیکھا۔ جن کے گھر بار ہر دن لٹتے ہیں، جو ہر دن جیتے اور کئی بار مرتے ہیں، ان کی طرف سے ایک نئی انگڑائی تھا سات اکتوبر۔

سات اکتوبر نے دنیا کے چہروں سے نقاب نوچ لی ہے، مکار، منافق اور دوغلوں کو ننگا کر دیا ہے۔ جو امت مسلمہ کی پیٹھ میں خنجر گھونپ رہے تھے، ان کو لگام ڈال دی ہے سات اکتوبر نے۔ جو جہاد و مجاہدین کو منافقت اور مکاری سے مروا رہے تھے، ان کا منافقانہ چہرہ اور کردار کھل کر سامنے آچکا ہے۔ آج ترکی کا نام نہاد خلیفہ اردووان ہر کسی کو اسرائیلی کیمپ میں کھڑا دیکھا جا رہا ہے، آج بن زاید کے یہود و ہنود سے مراسم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں رہے، آج بن سلمان اپنی تمام تر دولت و ثروت اور مذہبی حوالوں بالخصوص حرمین کی کنجی برداری کے اعزاز کے باوجود امت مسلمہ کے سامنے نفرین کا حقدار بن چکا ہے۔ آج اردن کا شاہ عبداللہ دوم اسرائیلی ایجنٹ کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، جس کے خلاف اس ملک کے عوام روز سڑکوں پر ہوتے ہیں۔

اس بار کا یوم القدس روایتی یوم القدس نہیں کہ اہل فلسطین، اہل غزہ نے سات اکتوبر کو جو آپریشن طوفان الاقصیٰ کیا ہے، یمن کے آٹھ برسوں سے مظلومیت، تجاوز، ظلم، سازشوں کے شکار انصار اللہ یمن نے سید عبد المالک بدر الدین الحوثی کی بابصیرت، شجاع، جراتمند قیادت و رہبری میں نئی تاریخ رقم کر دی ہے۔ یمن جن کا اسرائیل و فلسطین سے ہزار کلومیٹر سے بھی زیادہ فاصلہ ہے، انہوں نے بحیرہ احمر میں گہرے سمندروں میں اسرائیل، امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو جو سبق سکھایا ہے، وہ حوصلوں کی بلندی کیساتھ مسئلہ کے حل اور جنگ بندی کی جانب اقدام پر مجبور کرنے کا باعث ہے۔ یمنیوں کا اس جنگ میں حصہ شاید سب سے زیادہ ہوگا۔

اگرچہ سید حسن نصراللہ نے فرمایا تھا کہ ہم نے آٹھ اکتوبر سے اس جنگ میں شمولیت کرلی تھی اور مقاومت لبنان و عراق نے اب تک سینکڑوں کی تعداد میں جانوں کے نذرانے دے کر اپنے تاریخی و مثالی کردار کو منوایا ہے، اس کے باوجود یمنیوں نے بحیرہ احمر میں جو نقصان پہنچایا ہے اور پہنچا رہے ہیں، اس نے اسرائیل، امریکہ و اتحادیوں کو منہ کی کھانے پر مجبور کر دیا ہے۔ لہذا یہ یوم القدس معمولی نہ سمجھا جائے، یہ روایتی یوم القدس ہرگز نہیں۔ یہ یوم القدس روایتی و معمولی یوم القدس نہیں کہ اس بار سات اکتوبر سے اب تک چھ ماہ میں فلسطینیوں کی جو تباہی، بربادی اور نقصان سامنے آیا ہے، اس کی نظیر دنیا کے ظالم ترین حادثات و واقعات جنہیں خود یہودیوں نے ہی رقم کیا ہے، ان کو مات دے چکے ہیں۔

کم سن، دودھ پیتے بچوں کو ماوں کی گودوں میں جتنی بڑی تعداد میں ان چھ ماہ میں شہید کیا گیا ہے، اس کی نظیر کہیں نہیں ملتی۔ تاریخ میں اس کی مثال تو فرعون جو بچوں کا قاتل تھا، اس کے دور میں شاید نہیں ملے گی۔ لہذا ان بچوں کا کم سے کم یہ حق تو ہم پہ ہے کہ ان کی صدا بِاَيِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ کو دنیا کے سامنے بلند کرنے کو اس دن گھروں سے باہر نکلیں۔ کیا ہمارا حق نہیں کہ ہم ان کیلئے گھروں سے باہر نکلیں، جنہیں ہنستے بستے گھروں کی بلند بالا عمارتوں کے ملبے تلے سوتے سوتے دفنا دیا گیا۔ بارود کی بارش، آگ کے شعلوں میں جنہیں زندہ جلا دیا گیا، کیا ان زخمیوں کیلئے ہمیں اس دن چند گھنٹے گھروں سے باہر نہیں نکلنا چاہیئے، جنہیں غزہ کے اسپتالوں میں اسرائیلی جنگی جہازوں نے دوران علاج چیتھڑوں میں تبدیل کر دیا یا اسپتالوں کی عمارتوں پر بم برسا کر انہیں مٹی و راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا کیا۔

ان زخمیون کیلئے ایک دن گھر سے باہر شاہراہ پر نہیں نکلنا چاہیئے؟ کیا ان ڈاکٹرز کیلئے گھروں سے باہر نہیں نکلنا چاہیئے، جو چاہتے تو اپنی آنکھوں کے سامنے تباہ ہوتا، اپنا دیس، اپنا وطن، اپنا گھر چھوڑ کر کسی دوسرے ملک بھاگ جاتے اور بہتر مستقبل کے ذریعے فلسطینیوں کی مدد کرسکتے تھے، مگر انہوں نے جہازوں کی گھن گرج، بارود کی برسات اور گولیوں کی بارش میں اپنا وظیفہ زخمیوں کا علاج قرار دیا اور اسی دوران اپنی جانیں قربان کر دیں۔ کیا ان ڈاکٹرز کی خواہش نہیں کہ ہم اس دن گھروں سے نکل کر ان کے خون ناحق کا قصاص طلب کریں، مجرموں کو بے نقاب کریں۔ یقیناً ہمیں گھروں سے باہر نکلنا ہے، ان مجاہدین کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے، جنہوں نے اپنی جوانیوں کو دلہنوں کے عروسی جھروکوں میں گزارنے کی بجائے کلاشنکوف کے برسٹ چلا کر اپنے دشمن کو اس کے گھر جا کر سبق سکھاتے ہوئے اپنی جانیں اور جوانیاں لٹا دیں۔

ہمیں اس یوم القدس پہ باہر نکلنا ہے کہ اس دن ہم ان بوڑھے والدین کی شکستہ امید کو امید میں بدل دیں، جو اپنے پورے خاندان کو شہید کروا کر کہہ رہے تھے کہ اے رسول اللہ (ص) تیری امت نے ہمارا ساتھ نہیں دیا اور اپنے کم سن شہیدوں کو مخاطب تھے کہ جب جنت میں رسول خدا سے ملاقات ہو تو انہیں بتا دینا کہ آپ کی امت نے ہمیں تنہا چھوڑ دیا، ہم لٹ گئے، ہم برباد ہوگئے، ہمارا کچھ نا رہا، مگر تیرے نام نہاد اسلامی حکمران اور امت اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے میں مشغول رہے۔ انہیں اسرائیل کی ناراضگی کا ڈر تھا جبکہ ہم ان کے سامنے برباد ہو رہے تھے، ہم خون میں نہلائے جا رہے تھے، ہم پر آگ اور بارود کی بارش تھی، ہمیں جیتے جی مارا جا رہا تھا۔

ان والدین کا شکوہ اور نا امیدی کو دور کرنے کیلئے ہمیں اس یوم القدس پر باہر نکلنا ہے۔۔ ہاں ہم نکلیں گے، ہم ہر صورت نکلیں گے۔ بارش، دھوپ، گرفتاریاں، سختیاں، دھونس، دھمکیاں، سستی، کوتاہی، بے غرضی کو چھوڑنا ہے اور اس دن گھروں سے باہر نکلنا ہے، یوم القدس کو شایان شان اور تاریخی انداز میں منعقد کرنا ہے، جیسے فلسطینیوں نے کیا ہے، جیسے یمنیوں نے کیا ہے، جیسے مقاومت عراق نے کیا ہے، جیسے مقاومت لبنان نے کیا ہے، جیسے جمہوری اسلامی ایران نے کیا ہے، ہمیں بھی نئی تاریخ لکھنی ہے، تیاری کرکے، پورے پروٹوکول کیساتھ ہم نے یوم القدس کو برپا کرنا ہے۔ ہم نکلیں گے، ہم حاضر ہونگے۔
https://taghribnews.com/vdcguz93yak9wx4.,0ra.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ