تاریخ شائع کریں2024 3 April گھنٹہ 18:23
خبر کا کوڈ : 630431

دفاع سے محروم فلسطینی

غذائی اور دواؤں کی امداد کی ترسیل کو روک کر یہ رجیم غزه کے باقی بچ جانیوالے رہائشیوں کے اجتماعی، بتدریج اور دردناک قتل کے درپے ہے اور اس رجیم کے عہدیداروں نے اعلان کیا ہے کہ وه فلسطینی عوام کو نیست و نابود کرنے کے درپے ہیں۔
دفاع سے محروم فلسطینی
تحریر: مہران موحد فر
(قونصل جنرل اسلامی جمهوریه ایران لاہور)


غزه میں نسل کشی کا تسلسل اور مظلوم اور دفاع سے محروم فلسطینی عوام کیخلاف قانون شکن صیہونی رجیم کے جرائم کے جاری و ساری رہنے نے صدی کی بے مثال ترین آفت کی وقوع پذیری کے حوالے سے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ 75 سال سے اسرائیلی رجیم فلسطینی عوام کے بنیادی حقوق پامال کر رہی ہے اور روزِ نکبت یعنی 15 مئی 1948ء، ستمبر 1982ء کو صابره اور شتیلا (کے کیمپوں) میں لوگوں کا قتل، سال 2008ء میں غزه کی جنگ میں آپریشن کاسٹ لیڈ اور سال 2014ء کو غزه میں حفاظتی بلیڈ آپریشن اس غمناک آفت کی مثالیں ہیں۔ ابھی چھ ماه سے دنیا فلسطین میں پہلے سے زیاده غمناک المیے اور بے رحم قتل عام کی گواه ہے۔ صیہونی رجیم کی فوج کے غزه کے دفاع سے محروم عوام پر حملوں میں 32 ہزار سے زیاده بیگناه فلسطینی شہری شہید ہوئے، جن میں70 فیصد سے زیاده خواتین اور بچے ہیں اور 18 ہزار لوگ لاپتہ بھی ہوچکے ہیں۔

غذائی اور دواؤں کی امداد کی ترسیل کو روک کر یہ رجیم غزه کے باقی بچ جانیوالے رہائشیوں کے اجتماعی، بتدریج اور دردناک قتل کے درپے ہے اور اس رجیم کے عہدیداروں نے اعلان کیا ہے کہ وه فلسطینی عوام کو نیست و نابود کرنے کے درپے ہیں۔ غزه کی پٹی کی بڑے پیمانے پر تباہی، خاندانوں کو غزه کی پٹی میں سڑک پر اور اجتماعی پھانسی دینے، ہسپتالوں کی تباہی، جبری بے دخلی اور فلسطینی قوم کی اپنی تقدیر کے تعین کے حق کی خلاف ورزی، غزه اور فلسطین کی تلخ داستان ہے اور اسرائیلی رجیم کو اُس کے رویئے پر سزا کا نہ ملنا اس سے بڑھ کر تلخ ہے۔افسوس کیساتھ مغرب کے اس رجیم کی حمایت میں یکطرفہ پن نے کثیرالجہتی اور انسانی حقوق کے میدان میں حاصل ہونیوالی انسانی کامیابیوں کو پیچھے دھکیل دیا ہے۔

بین الاقوامی عدالت انصاف پر لازم ہے کہ صیہونی رجیم کے نسلی امتیاز پر مبنی نظام کے اقدامات والے مقدمے میں جو کہ سویلین آبادی خاص طور پر خواتین اور بچوں کو منظم اور وسیع پیمانے پر بھوک کا شکار کرنے اور ماؤں کو ان کے بچوں کی بتدریج موت کے ذریعے جان بوجھ کر شدید ذہنی چوٹ اور کرب پہنچا کر اور اس رجیم کی بین الاقوامی حقوق کے قوانین اور اصول بشمول بین الاقوامی انسان دوست اور انسانی حقوق سے غفلت برت کر انسانیت کیخلاف جرم کے ارتکاب کی وجہ سے ہے، اس میں مداخلت کرے۔ فلسطین کی حمایت اور صیہونی رجیم کی مذمت میں گذشتہ چھ مہینے سے اکثر ممالک کی سڑکوں سے اٹھنے والی (احتجاجی) لہر ظاہر کرتی ہے کہ دنیا کے لوگ زبان، نسل، ثقافت اور مذہب سے قطع نظر، فلسطینی عوام کے حقوق کی حمایت میں بیک آواز ہیں اور صدی کا معاہده (یا دونالڈ ٹرمپ کا امن منصوبہ) صدی کا نفرت انگیز ترین معاہده اور اس رجیم کیساتھ تعلقات کی بحالی فقط ایک سراب ہے۔

تاریخ گواہی دے رپی ہے کہ پُرامن بقائے باہمی اور دو حکومتوں کی تشکیل کا فارمولا سال ہا سال سے شکست کھا چکا ہے۔ اُس وقت کا اسرائیلی وزیر خارجہ کئی سال پہلے کہہ چکا تھا کہ اگر فلسطین کو تسلیم کیا جائے گا تو ہم اوسلو معاہده کو منسوخ کر دیں گے۔ اس تابوت میں آخری کیل یہ تھا کہ اسرائیلی پارلیمنٹ کنیسیٹ نے اعلان کر دیا کہ عربوں کو کوئی حق حاصل نہیں اور یہ ایک یہودی ریاست ہے۔ لہذا، خود اسرائیلیوں نے سب سے پہلے دو حکومتی نظریئے کو شکست سے دوچار کیا۔ اسلامی جمہوریہ ایران کا ماننا ہے کہ قبضے کو ختم کرنا، بے گھر فلسطینیوں کی اپنی اصل سرزمین کی طرف واپسی اور اپنے مقدر اور سیاسی نظام کی قسم کا تعین کرنے کیلئے تمام فلسطینیوں بشمول مسلمانوں، مسیحیوں اور یہودیوں کی شراکت داری سے ایک قومی ریفرنڈم کا انعقاد ہی فلسطین کے بحران کا واحد حل ہے۔ یوم القدس دنیا کے لوگوں کے اس مطالبے کو دہرانے اور مزید اُجاگر کرنے یعنی مظلوم فلسطینی عوام کے مقدر کے تعین کرنے کے حق کو تسلیم کرنے (کے مطالبے) کا دن ہے۔
https://taghribnews.com/vdcgwz93qak9wt4.,0ra.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ