رپورٹ میں بتایا گیا کہ اسرائیل نے غزہ کی پٹی کے شہریوں کو سزا دینے کے لیے ایک پائیدار اور جامع پالیسی کو فروغ دینے کے لیے وسیع اور شدید بمباری کی۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 5 نومبر 2009 کو کمیٹی آف انکوائری کی رپورٹ کی منظوری دی جسے رچرڈ گولڈ اسٹون رپورٹ کہا جاتا ہے۔
شیئرینگ :
اسرائیل نے 27 دسمبر 2008 کو غزہ کی پٹی کے خلاف مکمل جنگ شروع کی، جو 19 جنوری تک جاری رہی۔ فلسطینی وزارت صحت کے انسانی حقوق کے مرکز کے اعداد و شمار کے مطابق اس جنگ میں 412 فلسطینی بچوں اور 115 خواتین سمیت کل 1433 فلسطینی شہید ہوئے۔ اس کے علاوہ صہیونی فوج نے غزہ کے بنیادی ڈھانچے کو بھی بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا۔ اسرائیلی بمباری میں 20 ہزار سے زائد رہائشی عمارتیں تباہ ہو گئیں۔
مرنے والوں کی تعداد اور انفراسٹرکچر کی تباہی کے پیش نظر اس جنگ کو انسانیت کے خلاف جرم اور جنگی جرم کے طور پر درجہ بندی کیا جاتا ہے۔ اس جنگ میں غزہ کی پٹی پر اسرائیل کے حملے اس قدر ہولناک تھے کہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے صیہونی حکومت پر کھلے عام انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام لگاتے ہوئے ایک قرارداد منظور کی۔ قرارداد میں محصور غزہ میں حملے فوری بند کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
اس کے علاوہ 2009 میں اقوام متحدہ نے ایک تحقیقاتی کمیٹی بنائی، تاکہ وہ اس جنگ کی تحقیقات کر کے اپنی رپورٹ پیش کر سکے۔ پانچ ماہ بعد اس کمیٹی نے 574 صفحات پر مبنی اپنی انکوائری رپورٹ پیش کی۔ رپورٹ کے مطابق اسرائیل نے اس جنگ میں ایسے جرائم کا ارتکاب کیا ہے جنہیں جنگی جرائم میں شمار کیا جا سکتا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ اسرائیل نے غزہ کی پٹی کے شہریوں کو سزا دینے کے لیے ایک پائیدار اور جامع پالیسی کو فروغ دینے کے لیے وسیع اور شدید بمباری کی۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 5 نومبر 2009 کو کمیٹی آف انکوائری کی رپورٹ کی منظوری دی جسے رچرڈ گولڈ اسٹون رپورٹ کہا جاتا ہے۔ اتنی واضح رپورٹ کے باوجود اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے غیر قانونی حکومت کے خلاف اور غزہ کی پٹی کی حمایت میں کوئی کارروائی نہیں کی۔
اس جنگ کو پندرہ سال گزر چکے ہیں جب کہ اسرائیل نے غزہ کی پٹی کی گزشتہ 17 برسوں سے ناکہ بندی کر رکھی ہے۔ آج بھی یہ پٹی دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل ہے اور یہاں رہنے والوں کو ماحول کی خرابی کا سامنا ہے۔ اس کے باوجود عرب ممالک نہ صرف خاموش ہیں بلکہ بعض ممالک صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا معاہدہ کرچکے ہیں اور بعض اس طرف بڑھ رہے ہیں۔ لیکن فلسطینی اپنی سرزمین کی آزادی اور اپنے بنیادی حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں اور دنیا بھر کی تمام سازشوں کے باوجود مستقبل میں بھی جدوجہد کی راہ پر گامزن رہنے کا عزم رکھتے ہیں۔