قانون سازی قرآن و سنت کے مطابق ہوگی جس پر تمام مکاتب فکر متفق ہوں گے
وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے صدر آیت اللہ حافظ سید ریاض حسین نجفی نے کہا ہے کہ آئین پاکستان کے دیباچے میں شامل قرار داد مقاصد قرآن و حدیث کے مطابق قانون سازی پر زوردیتی ہے۔کسی فرقے یا مسلک کی سوچ کے مطابق نہیں۔
شیئرینگ :
وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے صدر نے کہا ہے کہ آئین پاکستان کے دیباچے میں شامل قرار داد مقاصد قرآن و حدیث کے مطابق قانون سازی پر زوردیتی ہے۔ کسی فرقے یا مسلک کی سوچ کے مطابق نہیں۔قانون سازی صرف وہی قرآن و سنت کے مطابق ہوگی جس پر تمام مکاتب فکر متفق ہوں گے۔
وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے صدر آیت اللہ حافظ سید ریاض حسین نجفی نے کہا ہے کہ آئین پاکستان کے دیباچے میں شامل قرار داد مقاصد قرآن و حدیث کے مطابق قانون سازی پر زوردیتی ہے۔کسی فرقے یا مسلک کی سوچ کے مطابق نہیں۔
قانون سازی صرف وہی قرآن و سنت کے مطابق ہوگی جس پر تمام مکاتب فکر متفق ہوں گے۔کسی ایک فرقے کی سوچ کو دوسرے پر مسلط نہیں کیا جاسکتا،اور نہ ہی ہم ایسا کرنے دیں گے۔بہت افسوس کی بات ہے کہ پاکستان میں80 ہزارسے زائد لوگ فرقہ وارانہ دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ اب پاکستان میں ایک بل پاس ہوا ہے کہ جس میں توہین صحابہ و اہل بیت کی سزا تین سال کی بجائے دس سال یا عمر قید میں تبدیل کر دی گئی ہے۔
یہ ملک اس قسم کے مزید متنازع بلوں کا شکار نہیں ہوسکتا۔آج پاکستان کے اہل سنت ہم شیعہ سے زیادہ اہل بیتؑ کا تذکرہ کرتے ہوئے اس بل کی مذمت کر رہے ہیں۔ قرار داد مقاصد میں یہ طے پایا تھا کہ قانون قرآن و حدیث کے مطابق بنایا جائے گا، یہ سنیت کے مطابق ہوگا نہ شیعیت کے مطابق ۔ قانون کسی فرقہ کی خاص فکر کے مطابق نہیں قرآن وحدیث کے مطابق منظور کیا جائے گا۔کسی خاص گروہ کی فکر کاعکاس بل تسلیم نہیں کرتے۔
علی مسجد جامعہ المنتظر میں خطاب کرتے ہوئے حافظ ریاض نجفی نے کہا جب ملک مہنگائی ،بیروزگاری، لوڈشیڈنگ جیسی مشکلات میں پھنسا ہوا ہے، تو فرقہ واریت کو ہوا دینے کے لئے قومی اسمبلی سے متنازعہ بل پاس کروا دیا گیاہے۔
ہم واضح کردینا چاہتے ہیں کہ پاکستان مسلمانوں کا ملک ہے ، کسی خاص فرقہ کا نہیں ۔یہ سنی شیعہ نے مل کر بنایا تھا۔ بانی پاکستان جناب قائد اعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ یقینا سنی نہ تھے۔ ان کا نکاح بھی شیعہ عالم دین نے پڑھایا اور جنازہ بھی شیعہ عالم نے ہی پڑھایا۔
جب ان سے پوچھا گیا پاکستان میں قانون کونسا نافذ ہو گا ؟تو فرمایا: نہ سنی کا نہ شیعہ کا بلکہ اسلام کا قانون نافذ ہو گا۔ عجیب بات یہ ہے کہ رسول اللہ کے بعد جو اتباع اہل بیتؑ کرے اور ان کے قول و فعل پر عمل پیرا ہو ان کو ایک بدخصلت گروہ کافر کہتا ہے۔ اور جو اصحاب اور دوستوں کا قائل ہو ،ان کے نزدیک بس وہی مسلمان ہے۔
رئیس الوفاق المدارس نے وزیر اعظم شہباز شریف پر زوردیا کہ بل دہشت گردی کے زمرے میں آتاہے ،اسے ختم کروائیں۔ انہوں نے حیرت کا اظہار کیا کہ اس ملک کیا حالت ہو گی کہ جس میں کہا جائے ”رسول اللہ اور صحابہ کرام“ اوردرمیان سے اہل بیت ؑکا نام ہی نکال دیا جائے۔حالانکہ اہل بیتؑ، رسول خدا کے جان ، جگر اوربضعہ ہیں اور منیت کی منزل پر فائز ہیں۔
حدیث کساءمیں اہل بیت کن افراد کو قرار دیا گیا۔ آپ لوگ اگر ازواج رسول کو اہل بیتؑ میں شامل کرنا چاہتے ہیں تو یہ آپ کی مرضی۔ لیکن پانچ سو سال تک لکھی جانے والی کتابیں کہ جو 80 فیصددرست ہیں، ان میں تو لکھا ہے کہ ” زوجہ رسول ام سلمیٰ سلام اللہ علیہا سے رسول نے فرمایا” انت علی الخیر“ لیکن چادر میں داخل نہیں ہو سکتیں۔ مباہلہ کے موقع پر رسول اللہ ”ابنائنا“کی جگہ پر حسن و حسین کو اور” انفسنا“کی جگہ علی کو اور ” نسائنا “ کی جگہ پر جناب سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کو لے گئے۔
حالانکہ اس وقت مدینہ کے اندر ہزاروں صحابہ اور صحابیات موجود تھیں اور آیت میں جمع کا صیغہ بھی استعمال کیا گیا ہے اور موقع بھی موجود تھا۔ اس کے باوجود ان چار شخصیات کو لے گئے تاکہ پتہ چلے کہ یہ وہ لوگ ہیں کہ جو جھوٹوں کے مقابلے میں جا رہے ہیں۔ ان کے علم، عمل، رفتار اور کردار میں جھوٹ نہیں پایا جا سکتا۔یہی وہ ہیں جو اسلام حقیقی کے محافظ ہوں گے۔