قرآنی جہاد کے حکم در اصل اس وقت کے لئے ہیں جب کچھ افراد مل کر پیمبرﷺ کے راستے میں حائل ہوئے اور ان کا راستہ روکا صرف یہی وہ مواقع تھے پیمبرﷺ نے جہاد کا حکم دیا ۔ یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ پیمبر ﷺ کے لئے کافروں کے مقابلہ میں خاموش رہنا ممکن نہیں ہے
شیئرینگ :
جامعہ الزہرا کے شعبہ تاریخ اسلام کی پرنسپل نے کہا کہ اگر کوئی صف بندی کر لے اور رسول ﷺ کے ساتھ جنگ کے لئے نکل پڑے تو خدا دفاع کا دستور دیتا ہے اور اسی وجہ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ رسول اللہ کی جنگیں دفاعی نوعیت کی تھیں ابتدائی جہاد نہیں تھا۔
تقریب نیوز کے مطابق ڈاکٹر فرزانہ حکیم زادہ نے عادلانہ جنگ اور عادلانہ صلح کے موضوع پر گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ ہماری جنگیں اور باطل کے ساتھ جھڑپیں در اصل حق کے مورچوں کا دفاع ہیں۔
انہوں نے اس سوال کے جواب میں کہ آیا اسلام دین صلح ہے یا دین جنگ کہا پیش آنے والے واقعات اور حالات کے اعتبار سے اسلام کا رد مختلف ہوسکتا ہے اور اسلام کا رد عمل موقع کی مناسبت سے ہوتا ہے جہاں جنگ ضروری ہو وہاں جنگ جہاں صلح پیش آئے وہاں صلح۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اسلام دراصل دین رحمت اور صلح ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ قرآنی جہاد کے حکم در اصل اس وقت کے لئے ہیں جب کچھ افراد مل کر پیمبرﷺ کے راستے میں حائل ہوئے اور ان کا راستہ روکا صرف یہی وہ مواقع تھے پیمبرﷺ نے جہاد کا حکم دیا ۔ یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ پیمبر ﷺ کے لئے کافروں کے مقابلہ میں خاموش رہنا ممکن نہیں ہے۔
انہوں نے تاریخ سے رسول اکرم ﷺ کی جنگوں کی مثالیں پیش کیں اور اس پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ رسول اکرمﷺ کے بعد جب امام علیؑ نے چار سال اور نو ماہ حکومت کی جب بھی انہوں نے کسی جگہ خود لشکر کشی نہیں کی بلکہ ان کی جنگ بھی پیمبر اکرم ﷺ کی طرح دفاعی نوعیت کی ہی تھیں۔ لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ جنگ ابتدائی کا معصومین ؑ کی روش سے کوئی ارتباط نہیں ہے۔
آخر میں انہوں نے کہا کہ دین اسلام دین رحمت و صلح ہے اور صلح و جنگ در اصل حالات کی شرائط کے تابع ہیں۔