ہمسایہ ممالک کے بارے میں امنیتی نقطہ نگاہ کی تبدیلی مشترک قدروں کے انکار ناپذیر لوازمات میں سے ہے
اگر ہم اہم ترین انسانی قدر کی جانب اشارہ کریں توہم آزادی، حقوق بشر، عدالت، رفاہ، اور بین الاقوامی امن و امان وغیرہ جیسے اہم مسائل کی جانب اشارہ کر سکتے ہیں۔ یہ مفاہیم انسانی اور اسلامی اقدار ہیں جن کو انسانی معاشروں نے بڑی تگ و دو کے بعد حاصل کیا ہے
شیئرینگ :
تقریب نیوز کے مطابق افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے ویبینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا انسان ذاتی طور پر تکامل پسند ہے اسی لئے متحرک انسانی معاشروں کی کوشش ہے کہ وہ اپنی موجودہ حالت سے اپنی مطلوبہ حالت تک پہنچ جائیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر ’’قدر‘‘ سے مراد وضع مطلوب ہو تو اس میں مختلف انسانی معاشرے اس کام میں ایک دوسرے سے زیادہ متفاوت نہیں ہیں۔ کیونکہ تمام انسان ہی فقر و تنگدستی، نابرابری بے عدالتی، اور تشدد وغیرہ سے تکلیف میں مبتلا ہیں۔
افغانستان کے سابق صدر نے کہا کہ اگر ہم اہم ترین انسانی قدر کی جانب اشارہ کریں توہم آزادی، حقوق بشر، عدالت، رفاہ، اور بین الاقوامی امن و امان وغیرہ جیسے اہم مسائل کی جانب اشارہ کر سکتے ہیں۔ یہ مفاہیم انسانی اور اسلامی اقدار ہیں جن کو انسانی معاشروں نے بڑی تگ و دو کے بعد حاصل کیا ہے۔
سابق افغانی صدر نے کہا کہ واقعیت اور حقیقت بہت دردناک ہے کہ مسلمان زیر زمین منابق اور مناسب مواقع کے میسر آنے کے باوجود بھی تنگدستی، فقر، محرومیت اور بنیادی سہولیات کی سے محرومی کی تکلیف میں مبتلا ہیں۔ یہ واقعیت ایک طرف سے اگر استعمار سے ہمیں میراث ملی ہے تو دوسری طرف سے یہ معاملہ ان رکاوٹوں کی طرف پلٹتا ہے جو خود ہمارے وجود میں ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ دہشت گردی اور شدت پسندی عالمی صلح اور امن و امان کے لئے بہت بڑا خطرہ ہے۔ دین اسلام نے ہمیں درس اخوت اور بھائی چارہ کا سبق پڑھایا ہے۔ یہ درس فردی روابط کے لئے بھی ہے اور اجتماعی حتیٰ بین الاقوامی روابط کے لئے بھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ تمام انسانوں کے حقوق کے احترام کے لئے اور اپنی آئندہ نسلوں کے حقوق کی حفاظت و احترام کا تقاضا یہ ہے کہ تمام اسلامی ممالک محیط زیست کی حفاظت کے لئے سنجیدہ اقدام کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ عدالت اجتماعی کی غیر قابل انکار ضرورت بھی اس کا تقاضا کرتی ہے کہ ہم عالمی تجارب اور اپنے علاقائی تجربوں کو نظر میں رکھتے ہوئے میسر انسانی وسائل سے فائدہ اٹھا نے کو وطیرہ بنائیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہماری موجودہ دنیا میں ایسی حالت پیدا ہوچکی ہے کہ اب عالمی ثقافتوں اور تمدنوں کے تعامل کے بغیر کوئی بھی (معاشرہ) درپیش چیلنجز کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اسلامی ممالک کے پاس اس کی توانائی اور صلاحیت موجود ہے کہ وہ اپنی مشترکہ قدروں کو حاصل کر سکیں۔
کر زئی نے مزید تاکید کی کہ اپنے ہمسایہ ممالک، معاشروں اور اپنے ہم مذہبوں کے بارے میں امنیتی نقطہ نگاہ کی تبدیلی، مشترک اقدار تک پہنچنے کے ناقابل انکار لوازمات میں سے ہے۔ اس لئے اس کے حصول کی ایک راہ شدت پسندی کے خلاف باہمی توافق ہے وہ بھی دونوں سطوح پر یعنی قومی سطح پر بھی اور بین الاقوامی افق پر بھی۔