خطیب نماز جمعہ تہران: ہماری مسلح افواج مکتب عاشورہ کے تربیت یافتہ ہیں
تقویٰ ایک چراغ ہے اور انسانی زندگی کو آلودگی سے بچاتا ہے/ دشمن کو بڑا کرنا اور محاذ حق کو نیچا دکھانا دشمنانہ عمل ہے/ شام کا مستقبل بہت مبہم ہے/ ہمارے مسلح افواج کسی خوف میں مبتلا نہیں ہے، وہ مکتب عاشورہ کے تربیت یافتہ ہیں/ جنرل سلیمانی ایک بے مثال کمانڈر تھے جن کا کوئی نعم البدل نہیں تھا
شیئرینگ :
تہران کے نماز جمعہ کے خطیب نے کہا ہے کہ تقویٰ ایک چراغ ہے اور انسانی زندگی کو آلودگی سے بچاتا ہے، تقویٰ انسانوں کے لیے بیرونی دنیا کے ساتھ میل جول میں رہنما ہے۔
تقریب نیوز: تہران کے نماز جمعہ کے خطیب آیت اللہ صدیقی نے اپنے خطبوں میں کہا ہے کہ جو شخص تقویٰ اختیار کرتا ہے، خداوند متعال اسکی اس کے مفاد کی راہ کی جانب ہدایت کرتا ہے اور بصیرت عطا کرتا ہے۔
انہوں نے معاشرے کے احساسات اور عوام کی وحدت کو مجروح کرنے کے دشمنوں کے منصوبے کا ذکر کرتے ہوئے کہا: دشمن کسی بھی بہانے اور کسی جھوٹی خبر سے افواہیں پھیلا کر اور نفسیاتی جنگ چھیڑ کر معاشرے میں بے چینی پیدا کرنا چاہتے ہیں لیکن عوام کو چاہیئے کہ وہ ان حاشیوں پر توجہ دیں۔
آیت اللہ صدیقی نے واضح کیا: دشمن کو بڑا کرنا اور محاذ حق کو نیچا دکھانا دشمنانہ عمل ہے۔ سیاسی اور معاشی معاملات میں دشمن افواہیں پھیلا کر مارکیٹ میں خلل ڈالتا ہے اور مصنوعی مہنگائی پیدا کر کے لوگوں کو نظام سے مایوس کر دیتا ہے۔
آیت اللہ صدیقی نے شام کی پیشرفت کا ذکر کرتے ہوئے کہا: شام میں موجودہ حالات مختلف جہتوں کے حامل ہیں۔ اس وقت بھی مختلف اہداف کے حامل مختلف گروہوں نے شام پر قبضہ کر رکھا ہے اور اس کے لیے ایک بہت ہی مبہم مستقبل کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
تہران میں نماز جمعہ کے خطیب نے کہا: جو بات یقینی ہے وہ یہ ہے کہ یہ بظاہر ایک سطحی واقعہ تھا لیکن اندر سے یہ ایک گہری سازش تھی۔ ان تمام تر تمام بغاوتوں، لوٹ مار اور جنگوں کا سب سے پہلا منصوبہ ساز امریکہ ہے۔
آیت اللہ صدیقی نے یہ کہتے ہوئے کہ اسرائیلی حکومت علاقے میں امریکی تھنک ٹینک کے طے شدہ منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کا ذریعہ ہے، شام کی موجودہ صورتحال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: شام کی موجودہ صورتحال میں ایک پڑوسی ملک کا ہاتھ تھا جس نے امریکی منصوبے کو عملی جامہ پہنایا۔ ایک طویل عرصے سے انہوں نے ادلب میں گروہوں کو ہر قسم کے ہتھیاروں سے تربیت دی اور اس منصوبے اور ادلب میں اس پر عمل درآمد کا نتیجہ بشار الاسد کی حکومت کے لیے راکھ کے نیچے آگ بن گیا۔
تہران میں نماز جمعہ کے خطیب نے شام میں ایران کے مشیر کی موجودگی کا ذکر کرتے ہوئے کہا: ہماری سابقہ موجودگی کو کئی طریقوں سے جائز قرار دیا گیا تھا، بعثیوں کے ساتھ ایران کی جنگ میں شام نے ایران کے شانہ بشانہ بہت اچھا کام کیا تھا اور اس نے عراقیوں کا بہترین سدباب کیا تھا جو کہ یورپ تک تیل کی سپلائی لائن کو منقطع کرنا تھا کہذا ایران کو بھی اس کا جبران کرنا تھا۔ ایک اور نکتہ ائمہ اطہار سے ہماری مذہبی وابستگی اور شام میں حضرت زینب (س) اور حضرت رقیہ (س) کے مزارات کا وجود ہے۔
انہوں نے واضح کیا: موجودہ حالات میں اگر کسی ملک کی فوج میدان میں ہو اور مدد مانگے تو ہم جا کر ان کی مدد کر سکتے ہیں۔ حزب اللہ میدان میں ہے اور وہ اپنے تمام مسائل کے ساتھ کھڑی ہے، اس لیے ایران بھی ان کی مدد کرتا ہے، لیکن شام میں ان کا ایک بھی سپاہی لڑنے کو تیار نہیں تھا۔ اس لیے یہ حالات شام میں ہماری موجودگی کے متقاضی نہیں تھے۔
آیت اللہ صدیقی نے بیان کیا: شام میں ہمارے مشیر کی موجودگی داعش کے وجود کی وجہ سے تھی کیونکہ شام میں ناامنی سے داعش کا اصل ہدف ایران تھا۔
تہران میں نماز جمعہ کے خطیب نے کہا: وعدہ صادق آپریشن کے بارے میں ہمیں یہ کہنا چاہیے کہ ہمارے مسلح افواج کسی خوف میں مبتلا نہیں ہے، وہ مکتب عاشورہ کے تربیت یافتہ ہیں اور وہ شہید کمانڈر سلیمانی کے کاروان کے راہی ہیں۔ آج ہم ماضی کے مقابلے میں زیادہ مضبوط ہیں۔
آیت اللہ صدیقی نے یوم بصیرت اور سردار جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کی برسی کا ذکر کرتے ہوئے کہا: جنرل سلیمانی ایک بے مثال کمانڈر تھے جن کا کوئی نعم البدل نہیں تھا، ان کی فکری بنیاد اخلاص تھی کیونکہ وہ پوشیدہ رہنا چاہتے تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کی شہادت سے انہیں بے نقاب کیا ان کے جنازے میں لاکھوں لوگوں کی شرکت عظیم کمانڈر نے دشمن کو مایوس کیا، شاہد سلیمانی جنرل سلیمانی سے زیادہ طاقتور ہو گئے۔
آیت اللہ صدیقی نے حضرت آیت اللہ مصباح کی برسی کے ایام کی مناسبت سےنماز گذاروں کو تعزیت بھی پیش کی۔