علماء کابیان ہے کہ یہ نام اسلام سے پہلے کسی کابھی نہیں تھا ،وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ نام خودخداوندعالم کا رکھاہواہے۔ کتاب اعلام الوری طبرسی میں ہے کہ یہ نام بھی دیگرآئمہ کے ناموں کی طرح لوح محفوظ میں لکھا ہواہے۔
شیئرینگ :
پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں ، اے اللہ، اس کو دوست رکھ جو حسین (ع) کو دوست رکھے اور اسے دشمن رکھ جو حسین (ع) سے دشمنی رکھے۔
حضرت امام حسین (ع) تین شعبان المعظم سن 4 ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے آپ کی والدہ شہزادی کونین حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا ہیں، آپ کے والد حضرت علی مرتضی (ع) ہیں اور آپ کے نانا سرکار دو عالم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں۔ امام شبلنجی لکھتے ہیں کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی ولادت کے بعد سرورکائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت امام حسین (ع) کی آنکھوں میں لعاب دہن لگایا اور اپنی زبان ان کے منہ میں دے کر بڑی دیرتک چسایا،اس کے بعدداہنے کان میں اذان اوربائیں کان میں اقامت کہی، پھردعائے خیرفرما کر حسین (ع) نام رکھا۔ علماء کابیان ہے کہ یہ نام اسلام سے پہلے کسی کابھی نہیں تھا ،وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ نام خودخداوندعالم کا رکھاہواہے۔ کتاب اعلام الوری طبرسی میں ہے کہ یہ نام بھی دیگرآئمہ کے ناموں کی طرح لوح محفوظ میں لکھا ہواہے۔
ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت نے ارشادفرمایا: میں حسنین (ع) کودوست رکھتاہوں اورجوانہیں دوست رکھے اسے بھی قدرکی نگاہ سے دیکھتاہوں۔ ایک صحابی کابیان ہے کہ میں نے رسول کریم کواس حال میں دیکھاہے کہ وہ ایک کندھے پرامام حسن کواورایک کندھے پرامام حسین کوبٹھائے ہوئے لیے جارہے ہیں اورباری باری دونوں کامنہ چومتے جاتے ہیں ایک صحابی کابیان ہے کہ ایک دن آنحضرت نمازپڑھ رہے تہے اورحسنین کریمین آپ کی پشت پرسوارہو گئے کسی نے روکناچاہاتوحضرت نے اشارہ سے منع کردیا۔
جامع ترمذی ،نسائی اورابوداؤد نے لکھاہے کہ آنحضرت ایک دن محوخطبہ تھے کہ حسنین(ع) آگئے اورحسین(ع) کے پاؤں دامن عبامیں اس طرح الجھے کہ زمین پرگرپڑے، یہ دیکھ کر آنحضرت نے خطبہ ترک کردیااورمنبرسے اترکرانہیں آغوش میں اٹھالیااورمنبر پرتشریف لے جاکر فرمایا: ھذا حسین فعرفوہ۔
اللہ تعالی کی طرف سے ولادت امام حسین علیہ السلام کی تہنیت اور تعزیت
علامہ حسین واعظ کاشفی رقمطراز ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کی ولادت کے بعد خلاق عالم نے جبرئیل کوحکم دیاکہ زمین پرجاکرمیرے حبیب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کومیری طرف سے حسین علیہ السلام کی ولادت پرمبارک باد دے دو اورساتھ ہی ساتھ ان کی شہادت عظمی سے بھی مطلع کرکے تعزیت ادا کردو، جناب جبرئیل علیہ السلام بحکم رب جلیل زمین پر وارد ہوئے اورانہوں نے اللہ تعالی کی طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ولادت اور شہادت حسینی کی تہنیت اور تعزیت پیش کی، یہ سن کرسرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا ماتھا ٹھنکا اورآپ نے پوچھا، جبرئیل علیہ السلام ماجرا کیا ہے تہنیت کے ساتھ تعزیت کی تفصیل بیان کرو، جبرئیل علیہ السلام نے عرض کی کہ مولا صلی اللہ علیہ وسلم ایک وہ دن ہوگا جس دن آپ کے چہیتے فرزند" حسین علیہ السلام " کے گلوئے مبارک پرخنجر آبدار رکھا جائے گا اورآپ کا یہ نورنظر بے یار و مددگار میدان کربلامیں یکہ و تنہا تین دن کا بھوکا پیاسا شہید ہوگا یہ سن کرسرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم محو گریہ ہوگئے آپ کے رونے کی خبرجونہی امیرالمومنین علیہ السلام کوپہنچی وہ بھی رونے لگے اورعالم گریہ میں داخل خانہ سیدہ سلام اللہ علیہا ہوگئے ۔
جناب سیدہ سلام اللہ علیہا نے جوحضرت علی علیہ السلام کوروتا دیکھا دل بے چین ہوگیا، عرض کی ابوالحسن رونے کاسبب کیا ہے فرمایا بنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابھی جبرئیل علیہ السلام آئے ہیں اوروہ حسین علیہ السلام کی تہنیت کے ساتھ ساتھ اس کی شہادت کی بھی خبردے گئے ہیں حالات سے باخبر ہونے کے بعد فاطمہ سلام اللہ علیہا کے گریہ گلوگیر ہوگیا، آپ سلام اللہ علیہا نے آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکرعرض کی باباجان یہ کب ہوگا، فرمایا جب نہ میں ہوں گا نہ آپ ہونگی نہ علی (ع) ہوں گے نہ حسن (ع) ہوں گے فاطمہ سلام اللہ علیہا نے پوچھا بابا میرابچہ کس خطا پرشہید ہوگا فرمایا : اسلام کی حمایت میں میرے حسین (ع) کا سر قلم کیا جائےگا۔ حضرت امام حسین علیہ السلام نے کربلا کے میدان میں عظیم الشان قربانی پیش کرکے دین محمد (ص) کو بچا لیا اورہمیشہ کے لئے " انا من الحسین" کا اعزاز حاصل کرلیا اورحضرت امام حسین (ع) کربلا کے واقعہ کے بعد دین محمد (ص) اور دین اسلام کی ہمیشہ کے لئے حقیقی پہچان بن گئے۔
آج پاکستان کے مختلف شہروں میں شیعہ مسلمانوں نے مظاہرے کرکے، پارا چنار کے عوام پر تکفیری دہشت گردوں کے تازہ حملے کی مذمت کرتے ہوئے حکومت اور فوج سے اس حملے کے عوامل ...