ھفتہ وار محفل مذاکرہ درس اسلام تیسری محفل کی دوسری نشست:
مسلمانوں کے درمیان علمی، فقہی ، روائی اور حدیثی موضوعات ہیں جن کو دشمن اختلافی رنگ دے رہے ہیں
تنا (TNA) برصغیر بیورو
اسلامی مسالک کے درمیان قربت اور یکجہتی کی اسلامی ثقافت کو فروغ دینے اور امت اسلامی کے دشمنوں کی سازشوں سے عوام کو باخبر کرنے کے حوالے سے درس اسلام کے عنوان سے عالمی مجلس برای تقریب مذاہب اسلامی کی نمایندگی برای کشمیر نے ٹی پر محفل مذاکرہ کا سلسلہ 22 جون2012 سے شروع کیا ہے جسکی تیسری محفل کی دوسری نشست کی گفتگو قارئین کے نذر ہے۔
شیئرینگ :
عبدالحسین: میں مولانا قانونگو صاحب آپ سے یہ جاننا چاہوں گا کہ جس طرح میر واعظ صاحب نے اشارہ کیا کہ ایک مثبت ماحول بنانے کے لئے اگر ہم ہر کسی کا جواب دینے بیٹھیں شاید اس میں ہماری انرجی (طاقت) ضائع ہو۔ مگر کچھ ایسے مسائل ہیں کہ جن کو لوگوں کو بتانا ضروری ہے کہ حقیقت کیا ہے۔ ابھی ہمارے درمیان ہم کشمیر کی بات کریں کہ الحمد للہ یہاں مسلمان بہت ایک دوسرے کے نسبت خوشبین ہیں مگر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سنیوں کا ماننا ہے کہ شیعہ،سنی کا خون نکالتے ہیں ، شیعہ سنی کو قتل کرتا ہے ،شیعہ کے سینگ نکلتے ہیں وغیرہ وغیرہ ایسی باتیں اس کے پیچھے کیا حقیقت چھپی ہے اسکے علل واسباب کیاہیں ۔کیا حقیقت میں ایساہے کیاکوئی ایسا شیعہ دنیا میں یا کشمیر میں ابھی تک پیدا ہوا ہے کہ جس کے ایسے خصائص ہوں؟
مولانا خورشید قانونگو: ایک بات میں کہوں گا آپ کی خدمت میں۔ ہمارا جو دین ہے اس کی بنیاد عقل پر نہیں ہے بلکہ نقل پر ہے۔ ناظرین یہ بات سمجھیں کہ نقل کیا ہے نقل یعنی قرآن مجید سے نقل کرنا مقصود ہے۔ اور قرآن کا اصل مرکز اور منبع ذات پاک حضرت اللہ جل جلالہ ہے اور یہ کل احکام دین حضرت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وحی ہوئی ہیں اور صحابہ میں تابینب میں اسے نقل کرنے کی بنیاد پر ملت اسلامیہ کے پاس یہ قرآن مجید اور یہ احادیث پہنچیں ہیں۔ جس کی ذمہ داری خود اللہ تعالیٰ نے لی ہے کہ یہ محفوظ ہے۔ جب علم اور اخلاق الگ الگ ہوجاتے ہیں خواہش کے بنیاد پر کیونکہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دین کی خدمت وہی کرسکتا ہے جو ایک نمونہ ہو اس بات کی"هُوَ الَّذي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولاً مِنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آياتِهِ وَ يُزَكِّيهِمْ وَ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَ الْحِكْمَةَ وَ إِنْ كانُوا مِنْ قَبْلُ لَفي ضَلالٍ مُبين علم اور اخلاق ۔ جب انسان میں خواہش پیدا ہو جاتی ہے ‘نفس امارۃ’ تو علم اور اخلاق اپنا اپنا راستہ لیتا ہے۔ جب علم اور اخلاق الگ الگ راستہ لیتا ہے تو انسان اپنی خواہش کے مطابق دین کے فیصلے کی طرف رجوع کرتا ہے۔ جب اس نے خواہش کی بنیاد پر حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیصلے اپنی خواہش کے قالب میں ڈال کر پھر عوام اس کی تشہیر کی تو اختلاف پیدا ہوجاتا ہے۔ جب اختلاف پیدا ہوجاتا ہے تو اس سے دو جماعتیں وجود میں آتی ہیں ، جب دو تنظیمیں وجود میں آتی ہیں تو دو تنظیموں کے لئے دو پلیٹ فارم بنتے ہیں۔ اس پلیٹ فارم کو قائم رکھنے کے لئے ، اس کا وجود برقرار رکھنے کے لئے اختلافی مسائل وجود میں لانے ضروری ہیں۔ جب تک نہ اختلافی مسائل کا سہارا نہ لے گا جن کی بنیاد نہیں ہے تو اس کی تنظیم باقی نہیں رہ سکتی۔ اور جب تنظیم ہی الگ ہوگئی اختلاف دور ہوگیا۔ تو دو جماعتوں میں ایک خط کھینچا جاتا ہے اختلافات کا، دوری کا، اگر یہ جسم ایک ہوتے ، اگرچہ بس میں ہم شیعہ سنی ایک سیٹ پر بیٹھتے ہیں جسم تو ایک ساتھ ہوتے ہیں مگر دل ایک دوسرے کے ساتھ نہیں ہوتے۔
دراصل "وَ اعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ" جو ہے ۔ دراصل تفریق جسموں میں نہیں پڑتا ہے دلوں میں پڑتا ہے۔ اور دلوں میں اختلاف تب پیدا کیا جاتا ہے جب یہی علماء لوگ ، علمائے سوء ہم کہیں گے جو یہ اختلاف خواہش کے بنیاد پر پیدا کرتے ہیں۔ اور جب انہوں نے اس خواہش پر دو تنظیمیں اور دو جماعتیں الگ الگ کی ہیں تو ان کے لئے ایسے خواہشات ، ایسے طریقوں میں یہ ان کے لئے کیا میں کہوں گا آپ کو یہ ایک ایسی باتیں ہم میں کرتے ہیں کہ جو باعث اختلاف ہوجاتے ہیں۔ اور اختلاف جب ہوگیا تو ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے جب ان کا آدمی ادھر گیا اُدھر کا ادھر گیا یا کبھی باتوں سے ان کو تکلیف دیا جاتا ہے یا ہاتھوں سے تکلیف دیا جاتا ہے یا عقیدے کی طرف تکلیف دیا جاتا ہے تو پھر یہ بات کہنی پڑتی ہے کہ کسی کو سینگ نکلتے ہیں ، کسی کو کشمیر میں "اندرتُل" ٹھونستے ہیں ، ان کے مخلتف طریقے تو ہوتے ہی ہیں۔ یا کسی کو کہتے ہیں کہ اس کی شکل بہت اچھی تھی نکاح سے پہلے ہا ہا اس کی شکل تو تبدیل ہوگئی ، کیوں تبدیل ہوگئی یہ نکاح کے وقت سب صحابہ پڑھتے تھے۔ (نعوذ باللہ) لہٰذا یہ جب سنی سنائی باتیں عام ہوگئی ہیں یہ اس وجہ پر ہوتی ہے جب ہم خواہشات نفس پر دور ہوگئے۔ ورنہ حضرت علامہ خاکی (رہ) ، حضرت سلطان شیخ حمزہ مخدومی (رہ) کے خلیفہ اول تھے انہوں نے فرمایا ہے کہ ‘‘شیعہ و سنی یکے است’’ شیعہ اور سنی ایک ہی جماعت ہے۔ کیونکہ یہ جو الگ الگ جماعت ہے یہ فروعات پر الگ الگ ہیں۔
عبدالحسین :جزاک اللہ ۔یعنی یہاں پرجو بات سامنے آتی ہے کہ بہت سارے لوگ ایسے بھی ہیں جو یہ پوچھتے ہیں کہ بھئی جناب اگر ہمارا دین مبین ایک ہے، ایک آئین ہے، ایک مذہب ہے اور قبلہ بھی ایک ہے ، قرآن بھی ایک ہے، سب کچھ مشترک ہے اس کے باوجود بھی اختلاف کس پر!تو بات یہاں پر سامنے آتی ہے کہ اختلاف مذہب میں نہیں ہیں ، اسلام میں نہیں ہیں۔ اختلاف جو ہے وہ اسلام دشمن عناصروں کی سازشوں کا نتیجہ ہے جو مسلمانوں کے درمیان علمی اور فقہی اور روائی اور حدیثی موضوعات ہیں ان کو اختلافی رنگ دے رہے ہیں ۔ ایسا ہی کہنا چاہتے ہیں۔
مولانا قانونگو:جی، میں آپ کو یہ بھی بات عرض کرنا چاہتا ہوں کہ قرآن جہاں واضح ہے، جہاں قرآن مجمل ہے اس کی تفسیر خود سرور عالم نے فرمائی ہے۔ جہاں حدیث کی ایک مکمل تشریح کی وہاں اپنی طرف سے کوئی خواہش پیش کرنے کی گنجائش نہیں۔ جہاں دو حدیث میں ان کو لگا کہ اختلاف ہے وہاں اجتہاد بھی ہے یاتطبیق ہے یا اجتہاد کہ کون حدیث ناسخ ہے اور کون حدیث منسوخ ہے یا دونوں حدیث برقرار رکھ کے علماء نے، مجتہد نے ان کوتطبیق کیا اس طرح کہ دونوں کی عمل باقی رہی۔ اور جہاں یہ فیصلہ کیا وہ اجماع امت نے کیا۔ جہاں قرآن، حدیث اور اجماع امت ایک ہے اور پھر بھی اگر کہیں مسئلہ حل طلب ہے تو وہ مجتہدین اسلام نے حل کیا۔
لہٰذا کسی شخص کو اپنی خواہش پر، بغیر علم رائے دینا صحیح نہیں ہے ۔ یہاں پر ایک مصیبت یہ بھی آئی ہے کہ ایک عالم نے کم علمی کے بنیاد پر جب کسی نے ممبر پکڑا۔ واضح فتویٰ ہے ‘‘امام مشارق و لمغارب حضرت سیدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ تعالی وجہ نے فرما یا جو عالم علم ناسخ اور منسوخ سے نا آشنا ہو اس کو مسجد میں ، جامع میں، ممبر پر تقریر کرنے کی اجازت نہیں۔ اب جب کوئی حافظ بنا قرآن مجید حفظ کیا ہے۔ جب اس حافظ کلام اللہ نے جمعہ پکڑی، جمعہ کے بعد جب اس کو اصول قرآن ، علم نحو، علم صرف ، علم کلام ، علم ناسخ، علم منسوخ مختلف علوم ,علم منطق،فلسفہ، پر پندرہ علوم جو ضروری ہیں عالم کے لئے ، جب وہ حافظ ان چیزوں سے ناآشنا ہو اس کو کیا حق ہے تقریر کرنے کی۔ دراصل ہمیں بھی ایک نقص پیدا ہوا ہے بلکہ یہ ایک ہمارے علمائے دارالعلوم جو یہاں دارالعلوم جات ہیں، یا فرقہ اثنا عشریہ کے ہیں، علمائے دیوبند کے ہیں، مختلف مکاتب فکر کے ہیں، ان پر ذمہ داریاں ہیں کہ وہ اس شخص کو مسجد سپرد کریں جس نے گرچہ قرآن مجید حفظ کیا ہو یہ سننت کفائی ہے یہ فرض بھی نہیں ہے سنت کفائی ہے۔ یعنی کہ ہر ایک پر قرآن کا حفظ کرنا ضروری نہیں ہے مگر جس کے لئے ہم مسجد مقرر کریں ، خطابت مقرر کریں، تقریر مقرر کریں اس کے لئےعلم حاصل کرنا ضروری ہے۔ جب ہم نے کسی ناآشنا کو مسجد مقرر کی ہے سب سے بڑا فتنہ اس وقت عالم اسلام میں بالخصوص کشمیر میں یہی فتنہ ہے۔ اور یہ سب ذمہ داری ہے علماء کی وہ اس کا سد باب کریں، اگر وہ اس کا سدباب کرنے میں کامیاب ہوگئے انشاء اللہ المستعان اختلافات بڑھیں گے نہیں بلکہ اختلافات آہستہ آہستہ کم ہو کر اتحاد بین المسلمین میں خود بخود تبدیل ہو جائے گا ۔ (انشاء اللہ)
ایک اور بات ۔وہ یہ کہ اگر وہ اختلافی مسائلکہ جن تعلق کا ہو ہمارے اصول دین سے مثلاً جو بات آپ نے پہلے فرمائی کہ قرآن مجیدپر اور خدا تعالیٰ تہمت لگائی گئی ہے انہوں نے جبرائیل پر بھی تہمت نہیں لگائی ہے بلکہ انہوں براہ راست حضرت اللہ تعالیٰ پر تہمت لگائی کہ یہ حق وحی دراصل حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہ کا ہے ۔نعوذ باللہ۔ اگر کسی کو یہ پوچھا جائے کس کتاب میں آپ نے پڑھا ہے ، کیا کسی سنی عالم نے اس کا حوالہ دیا ہے ، اگر کسی سنی عالم نے لکھا ہے ، اس نے کس عالم کی کس کتاب کیطرف اشارہ کیا ہے۔
عبدالحسین:یعنی مستند علماء کی ضرورت ہے اور معتبر علماء جو معتبر بات کو قرآن اور سنت کی روشنی میں ترجمانی کر سکیں۔ ان کی معاشرے کو ضرورت ہے۔
میرواعظ مولانا سید عبدالطیف: ان میں تقوی ہونا چاہئے۔خواہشتات نفسانی ان پر غالب نہ ہوں۔علم کتنا بھی ہو ،لیکن خواہشات نفسانی پر گرفت نہ ہو وہ علم نافع کو فروغ نہیں دے سکتا ہے۔
مولانا سید محمد حسین:" إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةُ بِالسُّو "( نفس تو برائی پر اکساتا ہے)
عبدالحسین:جی ہاں،تقوی سب سے بنیادی بات ہے۔
مولانا قانونگو: سینگ اور "اندر تل" کی بات جو آپ نے پہلے کہی یہ سینگ کا موضوع اسی وقت زیادہ معروف تھا جب کشمیر میں شیعہ سنی فساد تھا، شیعہ سنی فساد اب جب ختم ہوا ہے۔ آپ بتائیں کس سنی نے کس شیعہ کے یہ سنگ نکالیں ہیں ۔کیا اب شیعوں کی سرجری کرکے وہ سینگ نکالے گئے ہیں ۔اگر سرجری کرکے نکالے گئے ہیں تو اسکے نشان تو موجود ہونے چاہئے۔ غرض یہ سب بہتان تراشیاں ہیں۔
شیخ نعیم قاسم نے لبنان کی حزب اللہ کے سکریٹری جنرل کا عہدہ سنبھالنے کے بعد اپنے پہلے خطاب میں کہا: شہید نصر اللہ مزاحمت کے علمبردار اور جنگجوؤں کے دلوں کے عزیز ...