ادلب رف پر شدید روسی اور شامی فضائی حملوں کے پیغامات کیا ہیں؟
لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس آپریشن میں روس کی طاقتور شرکت ہر کسی پر ثابت کرتی ہے کہ روس شام کو ترک نہیں کر سکتا اور شام کے بحران کے حل میں اپنے کردار سے دستبردار نہیں ہو سکتا۔
شیئرینگ :
روسی امور کے ماہر نے ادلب کے مضافات میں مسلح دہشت گرد گروہوں کے ٹھکانوں پر روسی اور شامی فضائی حملوں کو عام شہریوں پر حالیہ دہشت گردانہ حملوں کے سلسلے میں ایک تعزیری حملہ قرار دیا۔
سمیر ایوب نے کہا: "ایسا لگتا ہے کہ فضائی حملوں میں دہشت گرد گروہوں کے ساتھ ساتھ ترکی کے لیے بھی ایک مضبوط پیغام ہے کہ روس کی یوکرین میں فوجی کارروائیوں میں شمولیت اس ملک کو اس سے روکے گی۔ شام میں کردار ادا کرنا نہیں رکتا۔ خاص طور پر جب سے مسلح گروہ حتیٰ کہ ترکی بھی حال ہی میں سرگوشیاں کر رہے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ روس نے شام میں اپنی موجودگی کم کر دی ہے اور اب وہ پہلے کی طرح اس پر توجہ نہیں دے رہا ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس آپریشن میں روس کی طاقتور شرکت ہر کسی پر ثابت کرتی ہے کہ روس شام کو ترک نہیں کر سکتا اور شام کے بحران کے حل میں اپنے کردار سے دستبردار نہیں ہو سکتا۔
انہوں نے شام کی صورتحال کے حوالے سے روس کے صدر ولادیمیر پوتن اور ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے درمیان ہونے والی فون کال کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: روس اس ملک کے مفادات کو پورا کرنے کے لیے شام کے بحران کے حل میں پہلے سے زیادہ دلچسپی رکھتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا: اس کا مطلب یہ ہے کہ روس اپنے اس موقف پر اصرار کرتا ہے کہ ترکی اور شام کے درمیان کوئی بھی معاہدہ صرف شام کی خودمختاری کے احترام، دہشت گرد گروہوں کے خلاف جنگ اور انقرہ کو سوچی میں ماسکو کے ساتھ سابقہ معاہدوں پر عمل کرنے کی ضرورت پر مبنی ہے