تاریخ شائع کریں2024 2 March گھنٹہ 21:36
خبر کا کوڈ : 626953

حزب اللہ اور صہیونی دشمن کے درمیان انٹیلی جنس کی جنگ تیز

حزب اللہ کے سکریٹری جنرل سید حسن نصر اللہ بھی 5 ماہ قبل قابض صیہونی افواج کیخلاف جہاد کے آغاز وقت سے اپنے خطابات میں بارہا میدان جنگ میں شکست کے بعد دشمن کیطرف سے جاسوسی کے ذریعے اپنے اہداف حاصل کرنے کے بارے میں خبردار کر چکے ہیں۔ 
حزب اللہ اور صہیونی دشمن کے درمیان انٹیلی جنس کی جنگ تیز
مقبوضہ فلسطین کے شمالی اور لبنان کے جنوبی علاقوں میں حزب اللہ صیہونی غاصب افواج کیخلاف نبرد آزما ہے اور مغربی ممالک جاسوسی کے ذریعے اسرائیل کی مدد کر رہے ہین۔ اسی سلسلے میں کچھ عرصہ قبل، لبنان کی اسلامی مزاحمتی تحریک نے بیان بھی جاری کیا تھا اور لبنان کے اندر دشمن کی جاسوسی کارروائیوں کے بارے میں متنبہ کیا گیا تھا۔

حزب اللہ کے سکریٹری جنرل سید حسن نصر اللہ بھی 5 ماہ قبل قابض صیہونی افواج کیخلاف جہاد کے آغاز وقت سے اپنے خطابات میں بارہا میدان جنگ میں شکست کے بعد دشمن کیطرف سے جاسوسی کے ذریعے اپنے اہداف حاصل کرنے کے بارے میں خبردار کر چکے ہیں۔ 

کچھ عرصہ قبل، لبنان کے داخلی سلامتی کے ادارے نے بھی ایک جاسوس کی گرفتاری کا اعلان کیا تھا۔ شواہد کے مطابق وہ صیہونی حکومت کا جاسوس تھا اور صیہونی رجیم کے ساتھ تعاون کرتا تھا۔ م س ح کے خفیہ نام سے دشمن کے لیے کام کرنیوالا جاسوس لبنان کے قومی سلامتی کے اداروں کو مطلوب تھا۔ یہ جاسوس لبنان کی پارلیمنٹ کے اسپیکر نبیه بری کے گھر کے قریب ویڈیو بنا رہا تھا، اس دوران ایوان صدر پر مامور سیکورٹی اہلکاروں نے اسے گرفتار کیا۔

لبنان کیخلاف جاسوسی کے ذریعے مغربی طاقتوں کا اسرائیل کیساتھ تعاون:
لبنانی جریدے الاخبار نے اپنے ایک مضمون میں جاسوسی سرگرمیوں اور اس حوالے سے اسرائیل کے ساتھ مغرب کے تعاون کے چند پہلووں کی تفصیل بیان کی ہے۔

لبنانی مزاحمت یعنی حزب اللہ اور صہیونی دشمن کے درمیان انٹیلی جنس کی جنگ تیز رفتاری سے جاری ہے۔ غزہ کیخلاف اسرائیلی جارحیت اور حزب اللہ کیطرف سے غزہ کی حمایت میں قیام کے بعد سے لبنان میں مغربی ممالک کی انٹیلیجنس کی سرگرمیاں عروج پر ہیں اور سفارتی ذرائع سے بھی لبنان پر دباو ڈالنے کی کوششیں جاری ہیں۔

یہ تو واضح ہے کہ مغربی ممالک مقاومت اور اسرائیل کے درمیان کوئی ثالثی کا کردار ادا نہیں کر رہے، ان کی سفارتی سرگرمیاں بھی اسرائیل کے لیے جاسوسی کی خاطر ہی ہیں۔ یہ حکومتیں اعلانیہ اسرائیل کے ساتھ کھڑی ہیں، مقبوضہ فلسطین اور لبنان کے نہتے عوام کیخلاف صیہونی جارحیت میں ان کی مددگار ہیں۔

اس سلسلے میں مغربی ممالک اسرائیل کو بھرپور انٹیلیجنس اسپورٹ فراہم کر رہے ہیں۔ انہیں اس بات کا پورا اندازہ ہے کہ جنوبی لبنان کے بارے میں ٹیکنیکل اور انسانی ذرائع سے حاصل کردہ انٹیلیجنس اسرائیل کے لیے کس قدر اہمیت کی حامل ہے۔ حالیہ دنوں میں مقاومت کے اپم لیڈروں اور کمانڈروں کی شہادتیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ مغربی اور عربی ممالک کس قدر محنت کیساتھ اسرائیل کے لیے جاسوسی کر کے صیہونی فوج کو انٹیلیجنس فراہم کر رہے ہیں۔

عربی اور غربی ممالک کے انٹیلیجنس ادارے لبنان میں اپنا اثر و نفوذ بڑھانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ یہ ادراے لبنان میں مقیم غیر ملکی جاسوسوں کے ذریعے انٹیلیجنس اکھٹی کر رہے ہیں تاکہ اسرائیل اہم شخصیات اور اھداف کو نشانہ بنا سکے۔ 

مغربی سفارت کار اسرائیل کیلیے جاسوسی میں ملوث ہیں:

ایسا لگتا ہے جیسے عربی اور مغربی ممالک کے جاسوسی اداروں نے جنوبی لبنان میں مستقل ڈیرے ڈال لیے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل بیروت کے جنوبی علاقے بئر العبد میں ڈچ آرمی سے وابستہ ملٹری انٹیلیجنس ٹیم کو گرفتار کیا گیا تھا۔

چند روز قبل بھی ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا، جب اسلامی مزاحمت کی انٹیلیجنس سروس نے بیروت کے جنوب میں نواحی علاقے "الکفاات" سے ایک غیر ملکی کو گرفتار کیا تھا جو ایک گلی میں اپنے موبائل فون سے ویڈیو بنا رہا تھا۔ حزب اللہ کے کاونٹر انٹیلیجنس ڈیپارٹمنٹ نے اسے لبنان کے قومی سلامتی کے اداروں کے حوالے کر دیا تھا۔

یہ ہسپانوی باشندہ تھا، انٹیروگیشن کے دوران اس نے دعویٰ کیا کہ وہ راستہ بھول گیا تھا اور غلطی سے اس علاقے میں داخل ہوا تھا۔ انٹیروگیشن کے دوران اس نے کہا کہ وہ ویڈیو اس لیے بنا رہا تھا کہ یہ ویڈیو ہساپنیہ میں اپنے دوست کو بھیج کر اس سے اپنے ملک کے سفارت خانے کا ایڈریس معلوم کریگا۔

لبنان کی انٹیلیجنس نے بتایا کہ اس شخص کے موبائل فون ایک ایسی ایپ انسٹال تھی, جس کیوجہ سے کسی کو بھی اس موبائل میں موجود ڈیٹا تک رسائی ممکن نہیں تھی۔ حسب توقع جونہی اس شخص کی گرفتاری کی خبر شائع ہوئی، اس کی رہائی کے لیے بیروت میں ہسپانوی سفارت خانے میں اعلیٰ ترین سطح پر رابطے اور مداخلتیں شروع ہوئیں اور بالآخر اس کی رہائی کے لیے عدالتی اور سیکورٹی وجوہات پر ایک سیاسی فیصلہ کیا گیا اور بعد میں یہ بات واضح ہوگئی کہ اس کے ڈیپلومیٹک پاسپورٹ تھا۔

حسب معمول لبنانی حکومت نے اسے جلد بازی میں بیروت میں ہسپانیہ کے سفارت خانے کے حوالے کر دیا، مکمل چھان بین کیے بغیر کہ آیا اس ہسپانوی شخص نے لبنان میں سفارتی مشن سے ہٹ کر کوئی سرگرمیاں انجام دی ہیں یا نہیں۔
https://taghribnews.com/vdcaminie49nuo1.zlk4.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ