تاریخ شائع کریں2024 26 July گھنٹہ 10:20
خبر کا کوڈ : 643879

تقریباً 29 فیصد دنیا کی آبادی کو مجبوراً کبھی کبھار کھانے کے بغیر ہی رہنا پڑتا ہے،اقوام متحدہ

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق جنگوں، ماحولیاتی تبدیلیوں اور معاشی بحرانوں سے دنیا بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق شدید بھوک کا مسئلہ مزید گہرا ہو گیا ہے جبکہ غذائیت بخش کھانا بہت سے لوگوں کی پہنچ سے بھی باہر ہے۔
تقریباً 29 فیصد دنیا کی آبادی کو مجبوراً کبھی کبھار کھانے کے بغیر ہی رہنا پڑتا ہے،اقوام متحدہ
اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ تنازعات، معاشی عدم استحکام اور شدید موسمی حالات کی وجہ سے گزشتہ سال 73 کروڑ 30 لاکھ افراد کو بھوک کا سامنا کرنا پڑا۔ جرمن نشریاتی ادارے ڈی ڈبلیو کے مطابق ’’اسٹیٹ آف فوڈ سکیورٹی اینڈ نیوٹریشن ان ورلڈ‘‘ کے عنوان سے جاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2030 تک دنیا سے بھوک کے خاتمے کا اقوام متحدہ کے ہدف کو اب حاصل کرنا مزید مشکل ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق جنگوں، ماحولیاتی تبدیلیوں اور معاشی بحرانوں سے دنیا بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق شدید بھوک کا مسئلہ مزید گہرا ہو گیا ہے جبکہ غذائیت بخش کھانا بہت سے لوگوں کی پہنچ سے بھی باہر ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2023 میں تقریباً 733 ملین افراد کو بھوک کا سامنا کرنا پڑا یعنی عالمی سطح پر ہر 11 افراد میں سے ایک شخص بھوک کا شکار ہوا۔

تقریباً 29 فیصد آبادی کو مجبوراً کبھی کبھار کھانے کے بغیر ہی رہنا پڑتا ہے۔ اس میں بھی خطہ افریقہ میں صورتحال خاص طور پر سنگین رہی، جہاں ہر پانچ میں سے ایک شخص کو بھوک کا سامنا کرنا پڑا۔ اقوام متحدہ سے وابستہ پانچ ایجنسیوں کی جانب سے تیار کردہ اس رپورٹ کو برازیل میں ہونے والی جی 20 سربراہی اجلاس کے لیے پیش کیا گیا ہے۔

اس میں تجویز پیش کی گئی کہ عالمی سطح پر بھوک کو کم کرنے کے لیے غذائی تحفظ اور غذائیت کی مالی اعانت میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ رپورٹ میں خبردار کیا گیا کہ اگر موجودہ رجحانات یونہی جاری رہے تو رواں دہائی کے آخر تک تقریباً 582 ملین افراد سخت ترین غذائی قلت کا شکار ہو جائیں گے، جن میں سے نصف افریقہ سے ہوں گے۔

فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کے ماہر معاشیات اور رپورٹ کے مصنفین میں سے ایک ڈیوڈ لیبورڈ نے کہا کہ آج ہم 9 برس پہلے کے مقابلے میں بدترین صورتحال سے دوچار ہیں، جب ہم نے 2030 تک بھوک مٹانے کا ہدف طے کیا تھا۔ انہوں نے کہاکہ میرے خیال میں اس سیارے پر رہنے سے متعلق ہم اس وعدے کو پورا کرنے کے لیے اس سے بہتر کر سکتے ہیں ۔

اس رپورٹ کواقوام متحدہ کے 5 اداروں فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن، اقوام متحدہ کے انٹرنیشنل فنڈ فار ایگریکلچرل ڈویلپمنٹ، یونیسیف، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور ورلڈ فوڈ پروگرام نے مشترکہ طور پر مرتب کیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2023 میں دنیا کی ایک تہائی سے زیادہ آبادی کے لیے صحت مند غذا ناقابل برداشت تھی۔

تازہ ترین اندازوں سے معلوم ہوتا ہے کہ گزشتہ سال کم آمدن والے ممالک میں 71.5 فیصد افراد صحت مند غذا کے متحمل ہی نہیں ہو سکتے تھے جبکہ زیادہ آمدن والے ممالک میں یہ شرح 6.3 فیصد تھی۔ رپورٹ کے مصنفین نے کہا ہے کہ فاقہ کشی کی صورتحال کی پہچان آسان ہے، تاہم طویل مدتی ناقص غذائیت کے اثرات بچوں کی جسمانی اور ذہنی نشوونما پر منفی اثر ڈال سکتے ہیں۔

بالغوں میں طویل مدتی ناقص غذائیت سے انفیکشن اور بیماریوں کا زیادہ خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ ڈیوڈ لیبورڈ نے کہا کہ غذائی تحفظ اور غذائیت کے لئے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے ۔ رپورٹ میں جو سفارشات پیش کی گئیں، اس کے مطابق چھوٹے پیمانے کے کاشتکاروں کو امداد فراہم کرنے کے ساتھ ہی دیہی علاقوں میں توانائی تک رسائی فراہم کرنا یکساں طور پر بہت اہم ہے، جس سے آب پاشی کا نظام بہت بہتر ہو سکتا ہے۔

موجودہ اندازوں کے مطابق 2030 تک بھوک کے مکمل خاتمے کے لیے 176 بلین ڈالر سے 3.98 ٹریلین ڈالر تک کی ضرورت ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس کے لیے عطیہ دہندگان، بین الاقوامی ایجنسیوں اور امدادی گروپوں کو اپنے اقدامات کو بہتر طریقے سے مربوط کرنا چاہیے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ وقت ضائع کرنے کا نہیں بلکہ فوری اقدامات کرنے کا وقت ہے۔
https://taghribnews.com/vdcguw93yak9t74.,0ra.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ