تاریخ شائع کریں2024 27 November گھنٹہ 17:43
خبر کا کوڈ : 658913

لبنان جنگ بندی کے نتا$ج کیا ہوں گے

جنگ بندی  معاہدے کی کامیابی کا اندازہ لگانا ابھی قبل از وقت ہے اور ہمیں یہ دیکھنے کے لیے انتظار کرنا ہوگا کہ صورت حال کہاں تک پہنچے گی۔" ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ لبنان کی صورت حال غزہ سے مختلف ہے اور سب سے اہم فرق حزب اللہ کی فوجی طاقت ہے۔
یوروپی یونین کے خارجہ پالیسی کے عہدیدار جوزف بوریل کی جانب سے بین الاقوامی برادری سے اسرائیل اور حزب اللہ پر دباؤ ڈالنے کے لیے سلامتی کونسل کی قرارداد 1701 کے فریم ورک کے اندر جنگ بندی معاہدے پر پہنچنے کے ایک دن بعد صیہونی ذرائع نے بتایا کہ تل ابیب نے اس تجویز کو قبول کیا ہے۔ جب کہ خبر رساں اداروں میں شائع ہونے والی خبروں کے باوجود تل ابیب اب بھی محتاط انداز میں جنگ بندی کی کامیابی کو بعض تنازعات کے حل سے جوڑ رہا ہے، وہیں واشنگٹن میں اسرائیلی سفیر "مائیکل ہرزوگ" ان تنازعات کو معمولی سمجھتے ہیں۔ وہ ایک عارضی جنگ بندی توقع کرتے ہیں کہ جس میں کچھ دن لگیں گے۔ 

ڈیموکریٹ جو بائیڈن وائٹ ہاؤس کی کرسی صدارت اگلے دو ماہ میں چھوڑنے والے ہیں، اس لئے وہ بظاہر مشرق وسطیٰ میں بھڑکتی ہوئی آگ کے شعلوں کو بجھانے کی کوشش کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ان کی یہ کوششیں گزشتہ ہفتے اس وقت تیز ہوئیں جب انھوں نے ’اموس ہوچسٹین‘ کو امریکا کے خصوصی ایلچی کے طور پر بیروت اور پھر تل ابیب بھیجا اور وہ اس حد تک آگے بڑھ گئے کہ ہوچسٹین نے دھمکی دی کہ اگر اس بار کوئی نتیجہ نہ نکلا تو وہ واشنگٹن کی جانب سے مذاکرات کی میز سے نکل جائیں گے۔

 یہاں تک کہ واشنگٹن کی جانب سے ڈیموکریٹک پارٹی کی ساکھ بحال کرنے کی کوششوں اور جنگ کے خاتمے کے لیے تل ابیب کی جانب سے گرین سگنل کے باوجود کہ جس کا مطلب مقبوضہ علاقوں کے شمال میں کم از کم 60,000 صہیونی آباد کاروں کی واپسی ہے، اسرائیلی فوج نے کشیدگی کو ہوا دی اور سیزفائر کے باوجود جارحیت" کی حکمت عملی کا سہارا لیا جس کے نتیجے میں  فضائی حملوں میں کم از کم 29 افراد شہید ہوئے۔ 

کل بھی جب کہ اسرائیلی سکیورٹی کابینہ ممکنہ جنگ بندی پر اتفاق کرنے کے لیے ایک اجلاس منعقد کرنے کی تیاری کر رہی ہے، فوج نے جنوبی لبنان کے قصبے "الماری" کے نواحی علاقوں پر فاسفورس بم برسائے، البتہ جواب میں لبنانی مزاحمت نے تل ابیب پر بھاری میزائل حملہ کیا جس سے ایک بار پھر ثابت ہوا کہ حزب اللہ کوئی متمرکز فوج نہیں بلکہ ایک تجربہ کار گوریلا فورس ہے جو صیہونی افواج کے جنوبی لبنان کو تباہ کرنے کے منصوبے کو اپنے فائدے میں بدل سکتی ہے۔

 لہٰذا حزب اللہ کی طاقت کے مظاہرے سے صیہونی حکومت اور اس کے مغربی حامیوں بالخصوص امریکہ نے سمجھ لیا کہ موجودہ مرحلے میں ان کے پاس جنگ بندی کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔ 


 اسرائیل اور لبنان کی حزب اللہ کے درمیان جنگ بندی معاہدے کے مسودے میں 60 دن کی جنگ بندی اور اس پر عمل درآمد کے لئے واشنگٹن کی سربراہی میں ایک کمیٹی کی نگرانی شامل ہے۔ 

بی بی سی کے مطابق اس جنگ بندی کے مطابق جنوبی لبنان میں اسرائیل کے زیر قبضہ کوئی بفر زون نہیں ہوگا۔ اس کے علاوہ، امریکہ اس پانچ ملکی کمیٹی کی سربراہی کرتا ہے جو جنگ بندی کے نفاذ کی نگرانی کے لیے بنائی گئی ہے۔ 

اس جنگ بندی کی بنیاد پر لبنانی حکومت اس ملک میں ہتھیاروں کی خریداری اور پیداوار کی نگرانی کرے گی۔ نیز اس مسودے کے مطابق حزب اللہ کی افواج کو دریائے لیطانی کے شمال کی طرف پسپائی اختیار کرنی چاہیے اور لبنانی فوج کو سرحد کے ساتھ تعینات ہونا یے اور دوسری طرف اسرائیلی فوج کو بھی لبنانی سرزمین سے نکل جانا چاہیے۔

یقیناً اب تک اس جنگ بندی کی شرائط کی بہت سی تفصیلات کا سرکاری طور پر اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ تاہم قرارداد میں حزب اللہ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ دریائے لیطانی کے عقب میں، مقبوضہ فلسطین کی سرحد سے تقریباً 30 کلومیٹر پیچھے ہٹ جائے، اور لبنانی فوج سرحدی علاقے میں داخل ہو۔

درحقیقت اس مسودے میں حزب اللہ کا سرحدی انخلاء اور اس کے ہتھیاروں کو بلیو لائن کے درمیان کے علاقوں سے ہٹانا شامل ہے۔

لبنان اور اسرائیل کے درمیان غیر سرکاری سرحد دریائے لطانی ہے جو مقبوضہ فلسطین کی سرحد سے تقریباً 30 کلومیٹر دور ہے۔

لہٰذا، مشرق وسطیٰ امن عمل کے لیے اقوام متحدہ کے نائب خصوصی کوآرڈینیٹر "موہنید ہادی" نے لبنان میں جنگ بندی کے قیام کے لیے سفارتی کوششوں کا خیرمقدم کیا اور متحارب فریقوں سے کہا کہ وہ جنگ بندی کے مجوزہ معاہدے پر مکمل عمل درآمد  قرارداد 1701 کی بنیاد پر کریں۔  تاہم، جنگ بندی کے حوالے سے لبنانیوں کی کوششیں کیسی تھیں اور کیا انہیں اس میں کامیابی مل سکتی ہے؟ 

مغربی ایشیائی مسائل کے ماہر حسین اجرلو کا کہنا ہے کہ جنگ بندی معاہدے کی کل 6 شقیں ہیں اور  پہلی چار شقیں اقوام متحدہ کی قرارداد 1701 کی طرح ہیں۔ ان معاملات میں جنوبی لبنان کا دریائے لیطانی تک انخلاء اور جنوبی علاقوں میں لبنانی فوج اور UNIFIL گروپوں کی موجودگی شامل ہے۔ 

انہوں نے معاہدے میں مذکور نئی چیزوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مزید کہا: غیر ملکی مبصرین کی موجودگی اور جنگ بندی کے معاملے میں یورپی ممالک کا داخلہ اس معاہدے کے نئے نکات میں سے ہیں اور اس کے علاوہ امریکہ اور یونیفیل گروپ بھی شامل ہیں۔ صیہونی حکومت، جرمنی، فرانس اور برطانیہ جیسے اداکار بھی داخل ہوں گے، یہاں تک کہ عرب ملک اردن کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ 

انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ جنگ بندی معاہدے کی آخری شق میں آپریشن کی آزادی بھی شامل ہے، مزید تاکید کی: لبنان نے گزشتہ دو شقوں کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا ہے اور اس نے مغربی ممالک کی مبصر کے طور پر شمولیت کو قبول نہیں کیا ہے، کیونکہ وہ ان ممالک کو صیہونی حکومت کے حامی سمجھتا ہے۔ 

لبنان کے مزاحمتی گروہ اور صیہونی حکومت کے درمیان جنگ کے دائر کا ذکر کرتے ہوئے اجرلو نے کہا: دونوں فریقوں نے حملوں کے حجم میں اضافہ کیا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ یہ معاہدہ مزاحمتی گروہوں پر دباؤ ڈالنے کے لیے ہے جب کہ صیہونی حکومت بھاری رعایتیں حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ لیکن حزب اللہ نے اپنی زبردست جوابی کاروائیوں سے صورتحال میں توازن پیدا کیا ہے۔

 انہوں نے زور دے کر کہا کہ جنگ بندی  معاہدے کی کامیابی کا اندازہ لگانا ابھی قبل از وقت ہے اور ہمیں یہ دیکھنے کے لیے انتظار کرنا ہوگا کہ صورت حال کہاں تک پہنچے گی۔" ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ لبنان کی صورت حال غزہ سے مختلف ہے اور سب سے اہم فرق حزب اللہ کی فوجی طاقت ہے۔

تاہم بین الاقوامی منظرنامے کے شواہد اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ صیہونی بین الاقوامی سطح پر بہت کمزور ہوچکے ہیں اور بین الاقوامی فوجداری عدالت کی جانب سے نیتن یاہو اور گیلنٹ کے خلاف وارنٹ گرفتاری کے اجراء نے اس حکومت کو مزید تنہا کردیا ہے اور لامحالہ اس نے مسئلے کو میدان کے بجائے میز پر حل کرنے کو ترجیح دی ہے۔
https://taghribnews.com/vdcb8wb0frhbs9p.kvur.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ