تاریخ شائع کریں2024 11 December گھنٹہ 14:41
خبر کا کوڈ : 660450

رہبر انقلاب اسلامی کا ہزاروں افراد کی موجودگی میں اہم خطاب/ تفصیلی خبر

مزاحمتی محاذ کو نہ فتوحات پر مغرور ہونا چاہیے اور نہ ہی شکستوں سے مایوس ہونا چاہیے۔ جیت اور ہار ہے، لوگوں کی ذاتی زندگی بھی ایسی ہی ہے۔ اسی میں کامیابی اور ناکامی ہے۔ گروہوں کی زندگی بھی ایسی ہی ہے، ان میں بھی کامیابی اور ناکامی ہے
رہبر انقلاب اسلامی کا ہزاروں افراد کی موجودگی میں اہم خطاب/ تفصیلی خبر
رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے آج ہزاروں افراد کی موجودگی میں خطاب کیا۔

تقریب نیوز(تنا) رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے آج ہزاروں افراد کی موجودگی میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ شام میں جو کچھ ہوا اس کی اصل وجہ امریکہ اور اسرائیل کے کمانڈ روم میں منصوبہ بندی کی گئی تھی/ ہمارے پاس اس کے شواہد موجود ہیں/ شام کی ہمسایہ حکومت کا بھی اس میں کردار ہے، لیکن اصل سازش کار امریکہ اور صیہونی حکومت ہے۔

آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا: اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ شام میں جو کچھ ہوا وہ امریکی اور صیہونی مشترکہ منصوبے کا نتیجہ ہے۔ جی ہاں، شام کی ایک ہمسایہ حکومت اس میدان میں واضح کردار ادا کرتی رہی ہے اور اب بھی ادا کر رہی ہے - ہم یہ سب دیکھ سکتے ہیں - لیکن اصل ایجنٹ اور مرکزی سازش کار امریکہ اور صیہونیے کا مرکزی کمانڈ روم ہے۔ ہمارے پاس اسکے شواہد موجود ہیں۔ یہ شواہد شک کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑتے۔

رہبر معظم انقلاب نے مزید فرمایا: میں آپ کے سامنے عرض کررہا ہوں کہ مزاحمت ماضی سے زیادہ پورے خطے پر محیط ہوگی۔ مزاحمت یہ ہے، مزاحمت کا محاذ یہ ہے: آپ جتنا زیادہ دبائیں گے، یہ اتنا ہی مضبوط ہوتا جائے گا، آپ جتنا زیادہ جرم کریں گے، اتنا ہی زیادہ حوصلہ افزائی ہوگی۔ جتنا آپ ان کے ساتھ لڑیں گے، یہ اتنا ہی وسیع ہوگا، اور میں آپ کے سامنے عرض کررہا ہوں، کہ بحول و قوہ الہی، مزاحمت کا دائرہ پورے خطے کو پہلے سے زیادہ احاطہ کرے گا۔ وہ جاہل تجزیہ نگار جو مزاحمت کے مفہوم سے ناواقف ہے، یہ تصور کرتا ہے کہ جب مزاحمت کمزور ہو جائے گی تو اسلامی جمہوریہ ایران بھی کمزور ہو جائے گا، اور میں عرض کرتا ہوں کہ خدا کی مرضی اور قدرت سے، خدا کے حکم سے ایران مضبوط اور طاقتور ہے اور زیادہ طاقتور بنے گا.

رهبر انقلاب نے اس بات کی اجنب اشارہ کرتے ہوئے کہ ہمارے سیکیورٹی اداروں نے اگست کے اواخر میں ہی بشار اسد کو اس بارے میں آگاہ کردیا تھا شام میں موجود مسلح گرہوں کی موجودگی پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ موجودہ گروہ زیادہ عرصہ حاصل نہیں کر پائے گا۔

آپ نے شام کے جوانوں سے امید کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: جب اس ملک کی فوج ہی کام نہ کر رہی ہو تو مداخلت بھی بے معنی ہے اور رائے عامہ بھی اسے قبول نہیں کرتی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری فوج پیچھے ہٹنا تو دور کی بات سرے سے فرار کرگئی۔ حتی جب ہم نے فضائیہ کے ذریعے اقدام کی کوشش کی تو امریکی اور اسرائیلی F-15 طیاروں نے ہمارا راستہ روک دیا۔ لیکن پھر بھی ہمارا ایک بہادر پائلٹ جا کر بیٹھ گیا۔ خدا کے فضل سے شام کے زیر قبضہ علاقوں کو غیور شامی جوانوں کے ذریعے آزاد کرایا جائے گا۔ شک نہ کریں کہ ایسا ہو جائے گا اور مزاحمتی محاذ کے ذریعے امریکہ کو بھی خطے سے نکال باہر کیا جائے گا۔

یقیناً، ان حملہ آوروں کا جن کا میں نے ذکر کیا ہے ہر ایک کا ایک خاص مقصد ہے۔ ان کے اہداف مختلف ہیں، ان میں سے کچھ شام کے شمالی یا جنوبی علاقوں کی سر زمین پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں، امریکہ خطے میں اپنے قدم جمانے کے درپے ہے، ان کے مقاصد یہ ہیں اور وقت بتائے گا کہ انشاء اللہ ان میں سے کوئی بھی اپنے مقاصد حاصل نہیں کر پائے گا. شام کے زیر قبضہ علاقوں کو پرجوش شامی نوجوانوں کے ذریعے آزاد کرایا جائے گا۔ شک نہ کریں کہ ایسا بہت جلد ہو گا۔ امریکہ کے قدم بھی نہیں جم پائیں گے، بتوفیق الہی، بہ حول و قوہ الہی امریکہ کو بھی مزاحمتی محاذ کے توسط سے اس خطے سے نکال باہر کیا جائے گا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے داعش کے فتنے کے دور میں شام میں ایران کی موجودگی کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ داعش کے فتنے کے مسئلے میں۔ داعش کا مطلب یعنی نا امنی کا بم۔ داعش کا مقصد عراق کو غیر مستحکم کرنا، شام کو غیر مستحکم کرنا، خطے کو غیر مستحکم کرنا، پھر اصل نقطہ اور آخری ہدف کی طرف آتے ہیں، جو کہ اسلامی جمہوریہ ایران کو غیر مستحکم کرنا ہے۔ یہ اصل اور آخری مقصد تھا۔ یہ داعش کا مفہوم ہے۔ ہم وہاں حاضر ہوئے، ہماری افواج عراق اور شام دونوں ممالک میں دو وجوہات کی بنا پر موجود تھیں۔ ایک وجہ مقدس مقامات کی حرمت کا تحفظ تھا۔ کیونکہ وہ لوگ روحانیت اور مذہب اور عقائد سے صرف نظر ان مقامات کو تباہ کرنا چاہتے تھے اور انہوں نے تباہ بھی کیا، آپ نے سامرہ میں مشاہدہ کیا، امریکیوں کی مدد سے انہوں نے سامرہ کے پاکیزہ گنبد کو نابود کردیا، انہوں نے تباہ کیا اور بعد میں بھی یہ کام کرنا چاہتے تھے کہ کربلا میں کرین، کاظمین میں کریں، دمشق میں کرئں، یہ داعش کا ہدف تھا۔ خوب، یہ واضح ہے کہ اہل بیت سے محبت کرنے والا غیرت مند نوجوان مومن کبھی بھی ایسی چیزوں کو برداشت نہیں کرے گا، وہ اس بات کی اجازت نہیں دے گا، یہ ایک وجہ ہے۔ ایک اور وجہ سیکورٹی کا مسئلہ تھا۔ حکام کو جلد ہی موقع پر یہ احساس ہوگیا کہ اگر اس عدم تحفظ کو یہیں پر نہ روکا گیا تو یہ پھیلے گی اور عدم تحفظ ہمارے عظیم ملک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ داعش کی بغاوت اور فتنے کا عدم تحفظ کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ امیر المومنین نے فرمایا جو قوم دشمن کے ساتھ اپنے گھر کے دروازے پرمشغول ہو جائے وہ ذلیل و خوار ہو گی، لہذا اسے اپنے گھر تک نہ پہنچنے دو۔ اس لئے، ہماری افواج، ہمارے ممتاز جرنیل چلے گئے، ہمارے عزیز شہید سلیمانی اور ان کے دوست اور ساتھی، جوانوں کو عراق اور شام میں پہلے عراق اور پھر شام میں منظم کیا گیا مسلح کیا گیا۔ انکے اپنے ہی جوان، داعش کے سامنے کھڑے ہوئے، داعش کی کمر توڑ دی اور ان پر غلبہ حاصل کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہماری افواج جو کچھ کر سکتی تھیں اور جو انہوں نے کیا وہ بس مشورے دینے کا کام تھا۔ کیا مطلب؟ اس کا مطلب ہے اہم مرکزی اور اصلی اڈوں کی تشکیل، حکمت عملی اور تکنیکوں کا تعین اور ضرورت پڑنے پر میدان جنگ میں داخل ہونا، لیکن سب سے اہم بات یہ تھی کہ اس خطے کے نوجوانوں کو متحرک کیا جائے، یقیناً ہمارے اپنے نوجوان، ہمارے بسیجی بھی بے صبری سے، بے تابی سے اور ثابت قدمی سے اشتیاق رکھتے تھے۔ اور ان میں سے بہت سے چلے بھی گئے.

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مزاحمتی محاذ کا ذکر کرتے ہوئے کہا: مزاحمت اس طرح ہے؛ جب وہ دشمن کے گھناؤنے جرائم کو دیکھتے ہیں تو جن کو شک تھا کہ مزاحمت کی جائے یا نہ کی جائے ، وہ بھی شک سے باہر آنکل آتے ہیں، وہ سمجھ جاتے ہیں کہ ظالم، جابر اور بدمعاش کے مقابلے میں سینہ سپر ہونے کے علاوہ انسان اپنا راستہ جاری نہیں رکھ سکتا، اسے قیام کرنا چاہیے۔ مزاحمت کا مطلب یہ ہے۔ آپ لبنان کی حزب اللہ کو دیکھیں اور دیکھیں کہ کیا حزب اللہ پر جو آفت آئی وہ مذاق تھی؟ حزب اللہ نے سید حسن نصراللہ جیسے شخص کو کھو دیا، کیا یہ چھوٹی سی بات تھی؟ حزب اللہ کے حملے، حزب اللہ کی طاقت، حزب اللہ کی محکم مٹھی پہلے سے زیادہ مظبوط ہو گئی ہے۔ دشمن نے بھی اس کو سمجھ چکا اور تسلیم کر چکا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ اب جب انہوں نے حملہ کیا ہے تو وہ لبنانی سرزمین میں داخل ہو سکتے ہیں، حزب اللہ کو پیچھے دھکیل سکتے ہیں یہاں تک کہ وہ کسی خاص جگہ، مثال کے طور پر لیتانی نہر کی طرف پیش قدمی کر سکتے ہیں، لیکن وہ پیشقدمی نہیں کرسکے، حزب اللہ نے قیام کیا اور اپنے کمال قدرت کے ذریعے ایسا کام کر دکھایا کہ وہ خود آئے، اور انہوں نے جنگ بندی کا مطالبہ کردیا۔ یہ مزاحمت ہے۔ غزہ دیکھیں۔ وہ ایک سال اور چند ماہ سے غزہ پر بمباری کر رہے ہیں۔ غزہ کے سرکردہ لوگوں مثلا یحییٰ سینور جیسوں کو شہید کیا، یہ ضربیں لگائیں، لیکن اسی عالم میں عوام اٹھ کھڑے ہوئے۔ ان کا خیال تھا کہ لوگوں پر دباؤ ڈالنے سے ان کے اپنے لوگ حماس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے اور قیام کریں گے۔ لیکن برعکس ہوا، عوام حماس کے پہلے سے زیادہ حامی بن گئے ہیں۔

قائد انقلاب اسلامی نے شام کے مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا: یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے۔ شام کے مسائل کی جو تفصیل ہم نے بیان کی، کیا ہم ان چند سالوں میں شام میں موجود تھے یا نہیں؟ خوب، سب جانتے ہیں کہ جی ہاں۔ شہدائے حرم، مزارات کے دفاع کے شہداء نشان دہی کررہے ہیں کہ ہم حاضر تھے۔ ہم نے شامی حکومت کی مدد کی، لیکن اس سے پہلے کہ ہم شامی حکومت کی مدد کریں، شامی حکومت نے ایک نازک وقت میں ہماری اہم مدد کی۔ یہ بات اکثر افراد نہیں جانتے۔ مقدس دفاع کے دوران، جب سب صدام کی حمایت اور ہمارے خلاف کام کر رہے تھے، شام کی حکومت نے آ کر ہمارے حق میں اور صدام کے خلاف ایک بڑا فیصلہ کن اقدام کیا، اور وہ یہ تھا کہ تیل کی اس پائپ لائن کو کاٹ دیا جائے جو وہاں کا تیل بحیرہ روم اور یورپ لے جا رہا تھا اور اس کے پیسے صدام کی جیب میں آرہے تھے، شام نے یہ پائپ لائن کاٹ دی، اس نے یہ پائپ لائن کاٹ دی۔ دنیا میں کھلبلی مچ گئی۔ اس نے وہ تیل جو صدام کے لیے تھا اسے استعمال نہیں ہونے دیا۔ خود شامی حکومت بھی اس نام نہاد تیل کی راہداری کے ذریعے فائدہ اٹھا رہی تھی، اور پیسے کما رہی تھی۔ اس نے اس رقم سے بھی صرف نظر کیا۔ البتہ اس نے ہم سے اس کا عوض لیا۔ یعنی اسلامی جمہوریہ نے اس خدمت کو بلا عوض نہیں چھوڑا۔ لیکن پہلے انہوں نے ہماری مدد کی۔

آپ نے ایک اہم مسئلے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مسلح افواج کے اعلیٰ حکام مجھے لکھتے ہیں کہ ہم لبنان اور حزب اللہ کا مسئلہ برداشت نہیں کر سکتے، اس لیے ہمیں جانے کی اجازت دیں۔ اس کا موازنہ ایسی فوج سے کریں جو اسے برداشت نہیں کر سکتی اور بھاگ جاتی ہے۔ بدقسمتی سے ہماری فوج طاغوت کے دور میں ایسی ہی تھی۔ وہ دوسری [عالمی] جنگ سمیت مختلف جنگوں میں دشمنوں، غیر ملکیوں کے حملے کے خلاف بھی کھڑے نہیں ہوئے۔ دشمن اس دن تہران پر قبضہ کرنے آیا تھا۔ وہ کھڑے نہیں ہوئے، انہوں نے قیام نہیں کیس۔ جب وہ قیام نہیں کرتے تو یہ نتیجہ ہوتا ہے۔ مزاحمت کرنا  نہایت ضروری ہے۔ اس مشکل حالات میں بھی ہم تیار تھے انہوں نے مجھے بتایا کہ ہم نے وہ تمام سہولیات تیار کر رکھی ہیں جن کی آج شامیوں کو ضرورت ہے اور ہم جانے کے لیے تیار ہیں۔ فضائی راستے بند ہو گئے، زمینی راستے بند ہو گئے، صیہونی حکومت اور امریکہ نے شام کے فضائی راستے کو بند کر کے زمینی راستے بھی بند کر دیے، یہ ممکن نہیں تھا۔ چیزیں اس طرح ہیں۔ اگر اس ملک کے اندر محرکات وہی رہے اور وہ دشمن کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہوسکتے تو دشمن نہ آسمان بند کر سکتا اور نہ زمینی راستہ بند کر سکتا۔ ان کی مدد کی بھی جا سکتی تھی۔ سب جان لیں کہ یہ مسئلہ ایسا ہی نہیں رہے گا۔ اب جب کہ ایک گروہ دمشق اور دیگر جگہوں پر جشن منانے، رقص کرنے، لوگوں کے گھروں پر حملے کرنے آتا ہے اور صیہونی حکومت بمباری کرنے کے لئے، ٹینک اور، توپیں لے آتی ہے، تو جان لیں کہ یہ معاملہ ایسے ہی نہیں رہے گا۔ یقیناً شام کے غیور نوجوان اٹھ کھڑے ہوں گے،قیام کریں گے، قربانیاں دیں گے، تکلیفیں اٹھائیں گے، لیکن وہ اس صورتحال پر قابو پالیں گے۔ جیسا کہ غیور عراقی نوجوانوں نے کیا۔ ہمارے عزیز شہید کی مدد، رہنمائی، حکم اور تنظیم سے عراق کے غیرت مند نوجوان دشمن کو اپنی گلیوں، سڑکوں اور گھروں سے باہر نکالنے میں کامیاب ہوگئے وگرنہ امریکی عراق میں بھی یہی کچھ کر رہے تھے۔

شام کے حالیہ واقعات کو نشان عبرت سے تعبیر کرتے ہوئے رہبر انقلاب نے فرمایا کہ شام کا حادثہ ہمارے لیے، ہم میں سے ہر ایک کے لیے، ہمارے حکام کے لیے ایک سبق اور درس عبرت ہے۔ اس سے درس لینا چاہیے۔ اس مسئلہ کا ایک سبق غفلت ہے، دشمن سے غافل ہونا۔ جی ہاں اس حادثہ میں دشمن نے تیزی سے کام کیا۔ لیکن انہیں اس واقعہ سے پہلے معلوم ہونا چاہئے تھا کہ یہ دشمن سازش کرے گا اور  تیزی سے کام کرے گا۔ ہم نے بھی ان کی مدد کی تھی۔ ہماری انٹیلی جنس ایجنسی نے چند ماہ قبل شامی حکام کو تشویشناک رپورٹ بھیجی تھی، معلوم نہیں یہ بات اعلیٰ حکام تک پہنچی یا نہیں، یا بیچ میں گم ہوگئی۔ لیکن ہمارے انٹیلی جنس اہلکاروں نے انہیں بتایا تھا کہ انہوں نے اگست ستمبر اکتوبر سے مسلسل رپورٹیں ارسال کی ہیں۔ دشمن کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ دشمن کو حقیر نہیں جاننا چاہیے، دشمن کی مسکراہٹ پر بھی بھروسہ نہیں کرنا چاہیے، کبھی دشمن  خوشگوار لہجے میں بات کرتا ہے، مسکراہٹ کے ساتھ بات کرتا ہے، لیکن وہ اپنی پیٹھ کے پیچھے خنجر پکڑ کر موقع کا انتظار کرتا ہے۔ شام میں، شہید سلیمانی نے اانکے اپنے ہی کئی ہزار نوجوانوں کے ایک گروپ کو تربیت دی، مسلح کیا، منظم اور تیار کیا۔
خوب لیکن اسکے بعد بدقسمتی سے، اس ملک کے کچھ فوجی حکام نے اس میں مین و میچ نکالی، مسئلہ پیدا کیا، بدقسمتی سے، انہوں نے اس بات کو درک نہیں کیا جو ان کے اپنے مفاد میں تھی۔ اور داعش کی شورش ختم ہونے کے بعد، بعض واپس آگئے، کچھ وہیں رہ گئے۔ وہ بھی انہی معاملات میں پیش پیش تھے لیکن جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ اصل جنگ اسی ملک کی فوج کو لڑنی چاہیے تھی۔ اس ملک کی فوج کے ساتھ ہی دوسری جگہ سے آنے والی بسیج فورس لڑ سکتی ہے۔ اگر اس ملک کی فوج کمزوری کا مظاہرہ کرے گی تو ان بسیجیوں کے متحرک ہونے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا اور بدقسمتی سے یہی ہوا۔ جب قیام اور مزاحمت کا جذبہ کم ہوجائے تو ایسی ہی آفتیں نازل ہوتی ہیں جو آج شام پر ہو رہی ہیں، اور خدا جانے کب تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا کب شام کے نوجوان میدان میں آ کر اسے روکیں گے، یہ وہی کمزوریاں ہیں جو وہاں دکھائی گئیں۔


رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا: مزاحمتی محاذ کو نہ فتوحات پر مغرور ہونا چاہیے اور نہ ہی شکستوں سے مایوس ہونا چاہیے۔ جیت اور ہار ہے، لوگوں کی ذاتی زندگی بھی ایسی ہی ہے۔ اسی میں کامیابی اور ناکامی ہے۔ گروہوں کی زندگی بھی ایسی ہی ہے، ان میں بھی کامیابی اور ناکامی ہے۔ ایک سسٹم ایک دن کام پر ہے، ایک دن کام سے الگ تھلگ ہے، اسی طرح حکومتیں بھی، اسی طرح ممالک بھیآ۔ زندگی میں نشیب و فراز آتے ہیں، ہم اس اتار چڑھاؤ سے بچ نہیں سکتے، بس یہ ضروری ہے کہ جب ہم فراز حاصل کررہے ہوں تو غرور نہ کریں یہ ضروری ہے۔ کیونکہ غرور جہالت کو جنم دیتا ہے۔ خود پسندی انسان کو غافل کردیتی ہے، اسی طرح جب ہم نشیب میں اترے اور ناکام ہوئے تب بھی ہمیں افسردہ، مایوس اور دل شکستہ نہیں ہونا چاہیے۔ اسلامی جمہوریہ نے ان چالیس سالوں میں بڑے مشکل حالات کا سامنا کیا ہے۔ عظیم واقعات۔ نوجوانوں نے وہ دن نہیں دیکھے، اسی تہران میں لوگ گھروں میں بیٹھے تھے، تہران کے عوام، صدام کا لڑاکا طیارہ مگ 25 ہمارے سروں پر پرواز کررہا تھا، اگر وہ مہذب ہوتا تو بمباری نہ کرتا، لیکن ہمیں ڈرایا گیا اور ہم کچھ نہ کر سکے۔ ہمارے پاس اس کا دفاع نہیں تھا، نہ ہمارے پاس ائیر ڈیفنس موجود تھا نہ ہی دیگر امکانات تھے کہ ہم ان کا سامنا کرتتے۔ مومن کو غیر فعال نہیں ہونا چاہئے۔ بے عملی بعض اوقات حادثے سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ بے حسی کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص کو جب یہ محسوس ہونے لگے کہ وہ کچھ نہیں کرسکتا تونہ ہو کہ وہ کچھ نہیں سکتا تو وہ ہار مان لیتا ہے۔ یہ انفعال ہے۔ پس کامیابیوں اور پیشرفت پر غرور کرنا زہر ہے۔ اور ناکامیوں، پریشانیوں میں بے حسی زہر ہے۔ 
https://taghribnews.com/vdcamwniw49niy1.zlk4.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ