اس وقت فریضہ "بصیرت" کے ساتھ حق کے پرچم کو سربلند رکھنا اور جدوجہد کو جاری رکھنا ہے۔ یہ جدوجہد سیاسی، سماجی، معاشی اور عسکری ہر میدان میں ہونی چاہیئے۔ اس میں شک نہیں کہ جیت بہرحال حق کی ہونی ہے
شیئرینگ :
تحریر: سید اسد عباس
شام کے سابق صدر بشار الاسد 8 دسمبر 2024ء سے لاپتہ تھے۔ ان کی جانب سے اس عرصے کے دوران میں کوئی بیان نہیں جاری ہوا۔ بعض اطلاعات کے مطابق ان کا طیارہ کسی حادثے کا شکار ہوگیا اور یہ بھی اطلاعات تھیں کہ ان کو روس پہنچا دیا گیا ہے۔ آج یعنی 16 دسمبر کو سابق شامی صدر کے ٹیلی گرام چینل سے بشار الاسد کے نام سے ایک بیان جاری ہوا، جو اس وقت میڈیا چینلز پر زیر بحث ہے۔ فی الحال اس بات کی تصدیق نہیں ہوئی کہ یہ بیان بشار الاسد کا ہی ہے، تاہم چونکہ ان کے آفیشل اکاونٹ سے جاری ہوا، لہذا عین ممکن ہے کہ یہ بیان انہی کی جانب سے جاری کیا گیا ہو۔ اس بیان میں بشار الاسد نے ملک سے "منصوبہ بندی" کے ساتھ نکلنے کی تردید کی۔ بیان میں کہا گیا کہ باغیوں کے قبضے کے دوران کسی بھی لمحے میں نے حکومت چھوڑنے یا پناہ لینے پر غور نہیں کیا اور نہ ہی کسی فرد یا جماعت کی طرف سے ایسی کوئی تجویز پیش کی گئی تھی۔
بشار الاسد نے مزید کہا کہ باغیوں کے قبضے کے دوران واحد راستہ یہی تھا کہ دہشت گردوں کے حملے کے خلاف جنگ جاری رکھی جائے۔ انھوں نے کہا کہ جیسے ہی دارالحکومت باغیوں کے قبضے میں آیا، میں "جنگی کارروائیوں کی نگرانی" کے لیے صوبہ لاذقیہ میں روسی فوجی اڈے گیا اور وہاں دیکھا کہ شامی فوجیوں نے پوزیشنیں چھوڑ دی ہیں۔ انھوں نے لکھا کہ روسی بیس بھی لگاتار ڈرون حملوں کی زد میں تھا۔ انھوں نے لکھا کہ جب ریاست دہشت گردوں کے ہاتھوں میں آجاتی ہے اور ان سے جنگ کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے تو کوئی بھی عہدہ بے مقصد ہو جاتا ہے۔بشار الاسد نے کہا کہ روس نے مجھے ہوائی جہاز کے ذریعے 8 دسمبر کی شام ماسکو لے جانے کا فیصلہ کیا۔ معزول صدر نے الزام عائد کیا کہ اس وقت شام "دہشت گردوں کے ہاتھوں" میں ہے۔ میرا شام کے ساتھ تعلق گہرا اور غیر متزلزل ہے۔ بشار الاسد نے کہا کہ وہ ریاست کے ذمہ دار تھے اور ایک ذمہ دار کی حیثیت سے انھوں نے عوام کی مرضی اور ارادے کے مطابق ریاست کی حفاظت، اس کے اداروں کا دفاع کرنے اور ان کے انتخاب کو آخری لمحے تک برقرار رکھنے کی صلاحیت پر اٹل یقین رکھا ہے۔
بشار حکومت کے خاتمے کے وقت سے اسرائیل شام کے مختلف مقامات پر مسلسل فضائی حملے کر رہا ہے۔ اسرائیلی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ بشار حکومت کے دور میں قائم کیے جانے والے اسلحہ ڈپوز، ریسرچ سنٹرز، فضائی مراکز اور دیگر اہم تنصیبات کو نشانہ بنا رہا ہے، تاکہ ان کو دوبارہ استعمال نہ کیا جاسکے۔ ادلب کے گورنر کی سربراہی میں قائم ہونے والی عبوری شامی حکومت کا ان حملوں کے حوالے سے کوئی خاطر خواہ موقف سامنے نہیں آیا۔ جولانی نے فقط اتنا کہا کہ ہم مزید جنگ نہیں چاہتے ہیں۔ شام میں اسرائیلی حملوں کے باوجود سکول کھول دیئے گئے ہیں۔ طرطوس کے شہر میں ہونے والے دھماکے شدید ترین ہیں، جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ دھماکے شائد کیمیائی مواد کی تیاری کے مراکز میں ہوئے ہیں یا میزائل ڈپوز میں۔
اسرائیل نے دفاعی طور پر شام کو زیرو پر لانے کا ارادہ کر رکھا ہے، جو اس کے خوف، تشویش یا مستقبل کی منصوبہ بندی کا حصہ ہے۔ نیتن یاہو نے 1974ء کے سرحدی معاہدے کو بھی کالعدم قرار دے دیا ہے اور اعلان کیا ہے کہ گولان کی پہاڑیوں میں مزید آبادیاں بنائی جائیں گی۔ گولان کا علاقہ 1800 مربع کلومیٹر پر مشتمل ہے اور دہائیوں سے یہ شام اور اسرائیل کے مابین وجہ نزاع تھا۔ گولان کے 1200 مربع کلومیٹر کے علاقے پر اسرائیل نے 1967ء کی جنگ میں قبضہ کیا۔ یہ پہاڑیاں دمشق سے فقط 60 کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں۔ دریائے اردن اور دریائے ہسبانی کا پانی انہی پہاڑیوں کے چشموں کا مرہون منت ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق گولان شام کا حصہ ہے۔ اس علاقے میں اسرائیل نے 30 غیر قانونی آبادیاں بنائی ہوئی ہیں، جن میں 25,000 کے قریب اسرائیلی آباد ہیں۔ نیتن یاہو نے گولان کے بفرزون پر قبضہ کے بعد اعلان کیا ہے کہ ہم اس علاقے میں مزید آبادیاں بسائیں گے۔ اس کے لیے اسرائیلی کابینہ 11 ملین ڈالر کا منصوبہ منظور کرچکی ہے۔
14 دسمبر 2024ء کو اردن میں عرب لیگ کے آٹھ ممالک کے وزرائے خارجہ کی اہم کانفرنس منعقد ہوئی، جس کے اعلامیہ میں کہا گیا کہ شام میں بننے والی نئی حکومت میں تمام سیاسی اور سماجی طبقات کو نمائندگی حاصل ہونی چاہیئے۔ تمام شہریوں کو برابر کے حقوق میسر ہونے چاہییں، اس حکومت کے قیام کے لیے نسلی یا مذہبی تعصب کو بالائے طاق رکھا جانا چاہیئے۔ عرب لیگ اقتدار کے پرامن انتقال کو سپورٹ کرے گی۔ اسی طرح عرب لیگ کے ممالک، ترکیہ، امریکی وزیر خارجہ بلنکن، یورپی یونین کے فارن پالیسی کے سربراہ کاجا کیلس نیز اقوام متحدہ کے شام کے لیے خصوصی ایلچی کے مابین ایک علیحدہ اجلاس بھی ہوا ہے۔ اس نشست میں بھی اقتدار کی پرامن منتقلی پر زور دیا گیا ہے۔ اجلاس میں کہا گیا کہ کوئی ملک شام کے ٹکڑے ہوتے نہیں دیکھنا چاہتا، ہم ایک مستحکم شام چاہتے ہیں، تاہم اس ملک کو دہشت گردوں کا بیس نہیں ہونا چاہیئے۔
شامی پناہ گزین یورپ اور امریکا کے لیے ایک اہم مسئلہ ہیں، اسرائیل اور امریکا کے شام میں اپنے مفادات ہیں، ایسے ہی ترکیہ بھی اپنے مفادات کے ساتھ اس میدان میں موجود ہے۔ ان تمام ممالک کے اکٹھ سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ شام کو ایک پرامن، مستحکم اور مغرب و اسرائیل دوست ملک بنانے کے لیے مغربی قوتیں بشمول عرب اکٹھ کرچکے ہیں اور یہ سب ممالک اپنے تئیں کوشش کریں گے کہ ان اہداف کو حاصل کیا جائے۔ یورپ سے شامی پناہ گزینوں کی واپسی، روسی انرجی بلیک میلنگ، اسرائیل کی ایران کے مقابل اسٹریٹجک ڈیپتھ، امریکہ کا خطے میں اڈے قائم رکھنے کا خواب اس کے بغیر شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ جہاں تک کرد علاقوں کا تعلق ہے تو یہ علاقے نیم خود مختار ہی رہیں گے اور امریکا ان علاقوں میں کسی قسم کی مداخلت کی اجازت نہیں دے گا۔
روسیوں کو اگلی منتخب حکومت الٹی میٹم دے گی کہ وہ اپنی افواج کو ملک سے نکال لیں، ممکن ہے کہ یہ افواج اس سے پہلے ہی فوجی اڈے خالی کر دیں، اگر ایسا نہیں ہوتا تو شام روس اور امریکا کے مابین پراکسی وار کا میدان جنگ بن سکتا ہے، جس کے امکانات بہت کم ہیں۔ اسرائیل 7 اکتوبر 2023ء کے بعد سے لے کر تادم تحریر اپنے مخالف لڑنے والے گروہوں پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔ شام کو اس نے دفاعی طور پر پتھروں کی تہذیب کے دور میں پہنچا دیا، شام کے تمام فوجی اثاثے تباہ و برباد کر دیئے، جن کو دوبارہ بنانے میں نئی شامی حکومت کو برسوں کا وقت درکار ہے۔ اسرائیل صومالی لینڈ کی ریاست سے سفارتی تعلقات کو استور کرنے کے بدلے میں وہاں ایک فوجی اڈہ قائم کرنا چاہتا ہے، جہاں سے وہ یمنی حوثیوں کا مقابلہ کرسکے گا۔
عراق کی حشد الشعبی اور حزب اللہ کے بارے میں بھی یقیناً منصوبہ بندی کر لی گئی ہوگی۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اسرائیل اپنے سرپرست امریکا کے ساتھ مل کر ایران کے خلاف بھی اقدامات کرے گا۔ مشرق وسطیٰ سے موصول ہونے والے مذکورہ بالا اشارے اس خطے میں مغربی قوتوں اور ان کے پروردہ اسرائیل کے غلبے کی نشاندہی کرتے ہیں، تاہم قرآن کریم کی تعلیمات ایک حقیقی مسلمان کو دشمن کی بے تحاشا طاقت اور ظاہری غلبے کے باوجود خدا پر توکل رکھتے ہوئے اپنی جدوجہد جاری رکھنے کا حکم دیتی ہیں۔ مسلمان کبھی بھی کسی عمل کے نتیجے کا ذمہ دار نہیں ہے، بلکہ اس کی ذمہ داری اپنے فرائض کی انجام دہی ہے۔ اس وقت فریضہ "بصیرت" کے ساتھ حق کے پرچم کو سربلند رکھنا اور جدوجہد کو جاری رکھنا ہے۔ یہ جدوجہد سیاسی، سماجی، معاشی اور عسکری ہر میدان میں ہونی چاہیئے۔ اس میں شک نہیں کہ جیت بہرحال حق کی ہونی ہے، خواہ اس کے لیے کتنی ہی مدت انتظار کرنا پڑے۔ ان شاء اللہ
آج پاکستان کے مختلف شہروں میں شیعہ مسلمانوں نے مظاہرے کرکے، پارا چنار کے عوام پر تکفیری دہشت گردوں کے تازہ حملے کی مذمت کرتے ہوئے حکومت اور فوج سے اس حملے کے عوامل ...