وائس چیئرمین مجلس وحدت مسلمین نے کہا ہے کہ آٹھ ماہ ہو چکے ہیں لیکن افسوسناک صورتحال ہے کہ پاراچنار کے راستے نہیں کھولے جا سکے، صوبائی اور وفاقی حکومت سمیت تمام سیکورٹی کے ذمہ دار ادارے راستے کھلوانے میں مکمل ناکام ہیں۔
تفصیلات کے مطابق مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے وائس چیئرمین علامہ سید احمد اقبال رضوی نے دیگر سینیئر تنظیمی عہدیداروں کے ہمراہ تنظیمی مرکزی کنونشن، انٹرا پارٹی الیکشن اور پارا چنار کے آٹھ ماہ سے جاری محاصرے کے حوالے سے میڈیا سے گفتگو کی ہے۔
19 اپریل بروز ہفتہ انٹرا پارٹی الیکشن کروانے کا اعلان کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکرٹری جنرل ناصر شیرازی نے میڈیا کو ان الکشنز میں بطور مبصر شرکت کی دعوت دی۔
انہوں نے کہا کہ 20 اپریل کو نئے چئیرمین کے نام کا اعلان کیا جائے گا، مرکزی کنونشن میں عزاداری کانفرنس بھی ہو گی، جس میں شہدائے اسلام ومقاومت اور پارا چنار کے شہداء پر بات ہوگی، جس سے سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس جعفری سینیٹر مشتاق احمد خان، علامہ سید علی رضا نقوی سمیت دیگر علمائے کرام خطاب کریں گے، کنونشن کے آخری دن بیس اپریل اتوار کو استحکام پاکستان کانفرنس کا انعقاد ہو گا جس سے نومنتخب چیئرمین سمیت دیگر مذہبی و سیاسی جماعتوں کے مرکزی رہنما خطاب کریں گے۔
وائس چیئرمین مجلس وحدت مسلمین علامہ سید احمد اقبال رضوی نے میڈیا نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پارا چنار پاکستان کا دفاعی حوالے سے حساس ترین علاقہ ہے، پارا چنار کے عوام وطن کے باوفا اور انتہائی باشعور اور تہذیب یافتہ شہری ھیں، تمام تر مشکلات اور سنگین صورتحال کے باوجود یہاں کے محب وطن شہریوں نے کبھی خلاف قانون اقدام نہیں کیا، آٹھ ماہ ہو چکے ہیں لیکن افسوسناک صورتحال ہے کہ راستے نہیں کھولے جا سکے، صوبائی اور وفاقی حکومت سمیت تمام سیکورٹی کے ذمہ دار ادارے راستے کھلوانے میں مکمل ناکام ہیں، وزیر اعظم، وزیر داخلہ، چیف جسٹس اور وزیر اعلی پارا چنار کے راستوں کی بندش بارے بے بس اور بے حسی کی کھلی تصویر بنے ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پارا چنار کے مجبور لوگ اپنے گھروں سے دیگر شہروں کی طرف نہیں جا سکتے، ہمارا مطالبہ ہے کہ حکومت اور امن و امان کی ذمہ دار ایجنسیاں عوام کو تحفظ فراہم کریں، ایئر ایمبولینس سروس فوری بحال کی جائے اور ایئرپورٹ کو بھی تیزی سے فنگشنل کیا جائے، پینتیس سو شہریوں کی نوکریاں داؤ پر لگ چکی ہیں، فیول نہ ہونے کی وجہ سے سکولز بند ہیں اور فصلیں کاشت نہیں کی جا سکی ہیں، جب بلوچستان میں ناامنی پر وفاقی حکومت اور سیکورٹی فورسز تیزی سے حرکت میں آتی ہیں تو پارا چنار کے شہری اس ملک کے باسی نہیں ہیں آخر اس ایشو پر سب ریاستی ذمہ داران کی زبانیں خاموش کیوں ہیں کیا یہ سب تضاد نہیں ہے۔