انصار اللہ: مستقبل کے حملے سعودی عرب کے لیے تکلیف دہ ہوں گے
انصار اللہ کی سیاسی کونسل کے سینئر رکن نے کہا کہ یمن کے خلاف جارحیت کا جاری رہنا امریکہ اور برطانیہ کے لیے خطرناک ہے۔
شیئرینگ :
یمن کی انصار اللہ تحریک کی سیاسی کونسل کے رکن "محمد البخیتی" نے پیر کی شام "المیادین" کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ جب سعودی اور متحدہ عرب امارات کی حکومتیں خطرے میں ہیں۔ یمن کے خلاف جنگ روکنا امریکی اور برطانوی مفاد میں ہے۔
انصار اللہ کی سیاسی کونسل کے ایک رکن نے یمنی فوج کی حالیہ کارروائیوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ پہلا موقع ہے کہ ہمارے آپریشن کو 'محاصرہ توڑنا' کہا گیا ہے۔ محمد البخیتی نے مزید کہا کہ "یمن اپنی زراعت میں ڈیزل ایندھن پر انحصار کرتا ہے،" انہوں نے مزید کہا کہ سعودی اتحاد "جانتا ہے کہ ان پیٹرولیم مصنوعات کی درآمد کو روکنا یمن میں زندگی کو روک رہا ہے۔"
انصار اللہ کے سینئر رکن نے یہ بھی کہا کہ صنعا کے پاس "تناؤ اور ملک کے اندر سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات کو نشانہ بنانے" کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا اور یہ آپریشن "اوپر کی طرف جاری رہے گا"۔ محمد البخیتی نے کہا کہ "ہم ان کی تیل کی تنصیبات کے خلاف کارروائیوں کو تیز کرنے کے بارے میں سنجیدہ ہیں،" یمنی فوج کے پاس بڑی مقدار میں بیلسٹک میزائل، کروز میزائل اور UAVs موجود ہیں۔
یمن کے خلاف مسلسل جارحیت امریکہ اور برطانیہ کے لیے خطرہ ہے۔
البخیتی نے انٹرویو میں یہ بھی کہا: "یمن پر حملہ کئی مراحل کا مشاہدہ کر چکا ہے۔ پہلا مرحلہ وہ تھا جب یمن کے پاس فضائی صلاحیت نہیں تھی اور اس وقت سعودی عرب محفوظ جانب تھا۔ لیکن دوسرے مرحلے میں دشمنی کے خاتمے کا فائدہ سعودی عرب اور یمن دونوں کو ہوا۔ "نئے مرحلے میں یمن کے خلاف جارحیت کا جاری رہنا امریکہ اور برطانیہ کے لیے خطرہ ہے۔"
"ایک نیا مرحلہ شروع ہوتا ہے جب امریکہ محسوس کرتا ہے کہ آل سعود اور بن زاید حکومتیں اب محفوظ نہیں ہیں۔" انہوں نے کہا کہ جس نے جنگ میں جانے کا فیصلہ کیا وہ وہ ہے جس کے پاس کوئی تجربہ نہیں ہے، جیسا کہ شاہ عبدالعزیز کا تجربہ جب سعودی عرب سہ ماہی جنگ میں داخل ہوا اور پیچھے ہٹ گیا۔
محمد البخیتی نے کہا، "محمد بن سلمان جیسے رہنما اخلاقیات کی منطق کے مطابق نہیں سوچتے۔" یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے جس کا ہم نے سامنا کیا ہے۔ البخیتی نے متحدہ عرب امارات پر یمن کی جنگ سے دستبرداری کے لیے دباؤ ڈالتے ہوئے مزید کہا: "ہم ایک نئے مرحلے کے دہانے پر ہیں جس میں امریکہ اور برطانیہ کو یقین ہو گیا ہے کہ خطے پر ان کا تسلط ان کے لیے خطرناک ہے۔"
حملوں کو تیز کرنے کے لیے صنعا کی قوت ارادی اور قوت
انصار اللہ کے ایک سینئر رکن نے کہا کہ "سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے رہنما جانتے ہیں کہ ہم حساس اور دور دراز اہداف سے کیا مراد لیتے ہیں۔" "ہمارے حساس اہداف کا انکشاف ہمارے مفاد میں نہیں ہے،" انہوں نے جاری رکھا۔ "حملوں میں اضافہ ہو گا،" البخیتی نے زور دیا۔ "یمن کے پاس حملوں کو تیز کرنے کی قوت اور طاقت ہے اور یہ حملے سعودی عرب کے لیے تکلیف دہ ہوں گے۔"
البخیتی نے مزید کہا کہ "محمد سلمان اور محمد بن زاید کا ضمیر نہیں جاگا، اس لیے ہم حملوں کو تیز کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔" فوجی طاقت ایک ایسی زبان ہے جسے سعودی اتحاد سمجھتا ہے۔ حالیہ واقعات سعودی سرزمین میں گہرائی میں ہمارے حملوں کے بڑھتے ہوئے اثرات کا ایک اہم عنصر ہیں۔ "ہمارے حملوں کو تیز کرنے سے تیل کا عالمی بحران دوگنا ہو جائے گا۔"
انصار اللہ سیاسی کونسل کے ایک رکن نے بھی کہا: "یوکرین میں روسی آپریشن کے بارے میں بین الاقوامی موقف نے ایک جامع عالمی مجرمانہ تصویر کو ظاہر کیا۔ "یمن میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ یوکرین میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے مقابلے میں [اصل چہرہ] دکھانے کے لیے کافی ہے۔"
عالمی تیل کی پیداوار کو کم کرنے اور بڑھانے میں یمن کا کردار
البخیتی نے کہا کہ "اس صورتحال میں ہمارے حملوں کی اہمیت کو کم کرنا غلط ہے۔" انہوں نے کہا کہ دنیا جس صورتحال کا سامنا کر رہی ہے اس میں یمن ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے۔
انصار اللہ کے سینیئر رکن نے یہ بھی کہا کہ امکان ہے کہ سعودی عرب تیل کی پیداوار بڑھانے کے امریکی مطالبات کا مثبت جواب دے گا، مزید کہا: سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں تیل کی پیداوار میں اضافہ اب امریکہ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ لیکن "یہ بھی یمن کے ہاتھ میں ہے۔"
البخیتی نے یہ بھی نوٹ کیا کہ متحدہ عرب امارات اب بھی یمنی سرزمین میں ہے اور "جو مستقبل کی کارروائیوں کے وقت کا تعین کرتا ہے وہ [یمن کی] قیادت ہے۔" محمد البخیتی نے انصار الاسلام کے اراکین کے بینک اکاؤنٹس منجمد کیے جانے کے حوالے سے بعض رپورٹوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس تحریک کے یمن کے اندر یا باہر کوئی اکاؤنٹ نہیں ہے۔
محمد البخیتی نے مزید کہا کہ یمن کے خلاف محاصرے میں اضافے کے بعد یمن کے حوالے سے عالمی اداروں کا کوئی بھی فیصلہ اب موثر نہیں رہا اور یمن پر اس کا کوئی اثر نہیں ہے۔
عرب اور اسلامی ممالک کے اتحاد کے بارے میں انصار اللہ کا مثبت نظریہ
انصار اللہ کے سینئر رکن نے شام کے صدر بشار الاسد کے حالیہ دورہ ابوظہبی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہماری پالیسی عرب اور اسلامی امت کے مطابق ہے اور ہم عرب اور اسلامی ممالک کے درمیان کسی بھی ہم آہنگی کا خیرمقدم کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ "میں نے شامی حکومت کو فلسطینی مزاحمت کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کی دعوت بھیجی ہے،" انہوں نے کہا کہ عرب ممالک کے اتحاد سے صنعا پریشان نہیں ہوگا۔ البخیتی نے کہا کہ "میں نے پہلے بھی سعودی ایران تعلقات کی مثبت بحالی کے بارے میں کہا ہے، کیونکہ عرب اور اسلامی ممالک کا ایک متفقہ موقف ہونا چاہیے، اور اسرائیل کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمارا نقطہ نظر یکساں ہونا چاہیے۔"
سعودی اتحاد کا ہائی جیکنگ اور تاوان
یمنی تیل کمپنی کے سرکاری ترجمان عصام المتوکل نے پیر کی شام المیادین کے ساتھ ایک انٹرویو میں سعودی اتحاد کی طرف سے سی ادور آئل ٹینکر کو قبضے میں لینے کے بارے میں بھی بتایا کہ یمنی تیل کے جہازوں کو قبضے میں لے لیا گیا ہے۔ یمنی عوام سخت محاصرے میں ہیں۔ یمنی آئل کمپنی کے نام پر تیل درآمد نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ ہم نے سوداگروں کی پناہ لی تاکہ وہ اس مشن کو آگے بڑھا سکیں۔ "ہمیں متحدہ عرب امارات سے تیل خریدنا ہوگا اور قیمت پیشگی ادا کرنی ہوگی اور اسے غیر ملکی بینکوں کی سیریز میں جمع کرنا ہوگا۔"
المتوکل نے جاری رکھا: "تیل کے جہاز متحدہ عرب امارات سے جبوتی جاتے ہیں اور کچھ دنوں کے لیے رکتے ہیں اور پھر یمنی سمندر میں چلے جاتے ہیں۔ "بحری جہاز یمنی علاقے کے پانیوں میں داخل ہونے سے پہلے جہازوں کو ہائی جیک کر کے جیزان کے ساحل پر لے جایا جاتا ہے۔"
یمنی آئل کمپنی کے ترجمان نے مزید کہا: "[مستعفی] یمنی حکومت تیل کی آمدنی میں ماہانہ 165 ملین ڈالر کی چوری کر رہی ہے۔ اتحادی افواج تیل کی ہر کھیپ کے لیے تقریباً 8,000 ڈالر رشوت لیتی ہیں۔ "الحدیدہ بندرگاہ [معاملات کے لیے] ایک انسانی بندرگاہ ہے، اور اس کے دوبارہ کھلنے سے قیمتیں کم ہوں گی۔"