اس نے قوم کو فوجی طاقت کے استعما ل کے بارے اس انسان دشمن سوچ پر خبردار کیا۔1917 میں ایڈورڈ برنیز ،” تعلقات عامہ کا باپ” نے امریکی عوام کو یہ کہہ کرگمراہ کیا کہ جنگوں اور جارحیتوں کا مقصد جمہوریت پھیلا نا ہے۔
شیئرینگ :
بشکریہ:شفقنا اردو
"بلوم برگ” کے لیے لکھےگئے ایک مضمون میں، برطانوی تاریخ دان، نائیل فرگوسن، یوکرین جنگ کےبارے میں، بائیڈن انتظامیہ کے حقیقی ارادوں کے بارے میں اپنی سٹریٹجک بصیرت کا اظہار کرتاہے۔سرکاری طور پر، امریکہ جمہوریت کی حمایت کی کوشش میں، یوکرین کے دفاع میں سرگرم ہونےکا دعوٰی کرتاہے۔ اور ساتھ ہی وہ خودمختیاری کے اصول کا اعادہ بھی کرتاہے ، جو کسی بھی ملک کو ،سمندر کی دوسری جانب، امریکی سرپرستی میں قائم،،قدیم فوجی اتحادمیں شمولیت کا حق دیتاہے۔
سرکاری موقف سے زرا نیچے آکر، صدر جو بائیڈن امریکی حمایت کے جذباتی پہلو پر زور دیتے ہوئے،روسی صدر کو ایک جنگی مجرم اور قاتل کے خطاب سےنوازنےکے بعد ،روس کو ایک اچھوت ملک میں بدل دینے کی بات کرتاہے۔بائیڈن کا خطابیہ واضح طور پر اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہےکہ امریکہ جنگ میں اپنی خاطر خواہ معاشی شراکت کے لیے، جوبھی خالص قانونی یا اخلاقی جواز پیش کرتاہے، بہرحال اس کا حقیقی ارادہ، بزعم خود ایک نجات دہندہ کی زہنیت کی عکاسی کرتاہے جو روسی حکومت کی تبدیلی پر اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔
انتظامیہ اس بات کو تسلیم نہیں کرتی کہ وہ حکومت کی تبدیلی کے بارے میں سوچ رہی ہے۔فرگوسن ایک سینئیر انتظامی اہلکارکے بارے بات کرتے ہوئے کہتا ہےکہ اس نےرازداری کی شرط پر بتایا کہ بائیڈن کا ” حتمی مقصد، پیوٹن حکومت کا خاتمہ ہے”۔ تاریخ دان، نتیجہ پیش کرتاہے کہ بجائے جنگ کے خاتے کے لیے،مذاکرات کی کوشش کے، امریکہ چاہتاہے کہ جنگ جاری رہے۔خارجہ پالیسی معاملات میں ایک معمول کے طور پر، فرگوسن اس معاملے میں اپنے ملک کی حکومت کو بھی اس نکتہ نظر میں شراکت دار سمجھتاہے۔اس کے بقول، ایک نامعلوم زریعہ نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ برطانیہ کا سب سے پہلا آپشن یہی ہے کہ جنگ طویل ہو جائے اور اور اس کے نتیجے میں پیوٹن کمزور ہو جائے۔
حوالہ جاتی نوٹ
فرگوسن اس غالب امریکی عقیدے پر اعتراض اٹھاتا ہےکہ "روس کو مسلسل کمزور کرنا” کامیابی کا نسخہ ہے۔ "جنگ کو طول دینے کے نتیجے میں نہ صرف لاکھوں یوکرینیوں کی ہلاکت اورکئی لاکھوں کے بے گھر ہونے کا خدشہ ہے بلکہ،یہ یوٹن کے ہاتھ میں ایک ایسا جواز مہیا کرنا بھی ہے جسے وہ اپنے ملک کے لوگوں کے سامنے جنگ میں فتح کی دلیل کے طورپیش کر سکے۔ ” فرگوسن لکھتا ہے۔
"یوکرینیوں کے لیے جنگ آئندہ چند ہفتوں میں کس قدر خوفناک ہو سکتی ہے، اس بات کا ادراک مجھے مغرب کی موجودہ حکمت عملی میں نظر نہیں آتا”۔فرگوسن کا مشاہدہ ہے۔ اسکی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ اس وقت مغربی دنیا جس مبالغہ آمیز سچائی سے گزر رہی ہےوہ تنقید نگاروں کےلیے بہت پرلطف ثابت ہو رہی ہے، کم از کم میڈیا میں یہی نظرآتا ہے۔معصوم شہریوں پر،حملوں کی خوفناک کہانیاں جس قدر ہیڈلائنز بناتی ہیں،اسی قدر، میڈیا اخلاقی اطمینان کے ساتھ اپنا کھیل جاری
رکھتاہے: یہ پیوٹن سے نفرت کی ایک اور وجہ ہے۔
تاریخی نوٹ
امریکیوں کی، یوکرین جنگ کےبارے میں سمجھ بوجھ کا نمایاں ترین پہلو سب کے لیے قابل مشاہدہ ہونا چاہیے ۔آج کا میڈیا امریکی عوام کی ،”درست قسم کی گمراہ کن معلومات "کےلیے ناقابل تسکین بھوک کے بارے میں ٹھیک ٹھیک جانتاہے۔نائیل فرگوسن کی دلیل یہ ہے کہ امریکی حکومت انہیں یہ فراہم کرنے میں زار بھی نالائقی نہیں دکھاتی۔جنگ کے وقتوں میں، ناقص معلومات کی تاریخ کا سراغ ہمیں گذشتہ صدی میں ملتاہے۔
1935 میں،میجر جنرل سمیڈلی بٹلر نے ایک کتاب لکھی جس میں اس نے مختلف براعظموں میں، خود اپنی نوکری کے پیچھے کارفرما منطقی دلائل دئیے۔ اس کا عنوان تھا” جنگ ایک مجرمانہ کاروبارہے”۔ اس نے بتایا کہ جنگ کا امریکی نقطہ نظر یہ ہے کہ یہ کارپوریٹ منافع کی کھوج ہے۔ اس نے قوم کو فوجی طاقت کے استعما ل کے بارے اس انسان دشمن سوچ پر خبردار کیا۔1917 میں ایڈورڈ برنیز ،” تعلقات عامہ کا باپ” نے امریکی عوام کو یہ کہہ کرگمراہ کیا کہ جنگوں اور جارحیتوں کا مقصد جمہوریت پھیلا نا ہے۔
اپنی باقی ماندہ زندگی میں برنے نے مختلف کمپنیوں کو انکے برانڈز کی تشہیر میں مدد کی۔ 1953 میں، یونائیٹڈ فروٹ کمپنی میں کام کرتے ہوئے، اس نے صدر وائٹ آئزن ہاور کےسٹیٹ سیکرٹری ،جان فاسڑ ڈلس اور اسکے بھائی، سی آئی اے ڈائریکٹر ایلن ڈلس کےساتھ مل کر گوئٹے مالا کےمنتخب صدر، جیکب اربنز کا تختہ الٹ دیا۔اربنز ، یونائیٹڈ فروٹ کےزیراجارہ "غیر استعمال شدہ ” زمین کو غریب کسانوں میں تقسیم کرنے کا ارادہ رکھتاتھا۔2007 کے،فنانشل ٹائمز کو لکھے گئے ایک آرٹیکل میں پیٹر چمپن نے بتایاکہ دونوں ڈلس برادران یونائیٹڈ فروٹ کمپنی کے قانونی مشیر تھے۔چمپن اس بات کی بھی خبر رکھتا تھا کہ یہ کمپنی، 1961 کی،سی آئی اے کی رہنمائی میں ہونے والی "بے آف پگز” نامی جارحیت میں بھی ملوث تھی۔
امریکی ابھی تک برنے کی زہانت کے قائل ہیں جس نے ایک مشکوک آئیڈیالوجی کو ایک پر کشش نعرےمیں بدل دیا تھا۔دوسرے ممالک میں امریکی جارحیتوں کو ،یہ کہہ کر ایک شریفانہ کوشش کے طور پر دکھایا جاتا ہےکہ یہ جنگیں جمہوریت کی مدد اور امریکی کاروبار کے فروغ کے لیے ہیں(بٹلر انہیں بدمعاش کاروبارکہتا تھا)۔یہ(امریکہ)ان حریص صارفین کی آبادی ہے جو میڈیا کی مس انفارمیشن کی مسلسل فراہمی کے بھوکے ہیں۔بہرحال ایسےانوکھے لمحے بھی آتے ہیں جب حقیقی معلومات اپنا راستہ بنالیتی ہیں، اگر چہ یہ بہت کم ہی دیرپا اثرات مرتب کرتی ہیں۔
گزشتہ ہفتے،پنٹاگون نے ایسی خبریں لیک کی ہیں جوسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ،انٹیلیجنس کمیونٹی اور امریکی میڈیاکی پھیلائی ہوئی خبروں سے متضاد تھیں۔ ڈیفنس ڈیپارٹمنٹ کے خیال میں، روسی جارحیت،جس کا رخ یوکرینی عوام کی طرف ہے اس کو بے لگام ایذا پسندی نہیں کہا جاسکتا۔” اس قدر تباہ کن، جس قدر یوکرین کی جنگ ہے” اخبار نے رپورٹ دی” روس بہت کم نقصان کررہا ہے اورجتنے لوگوں کو وہ مار سکتاتھا اس سے بہت کم لوگوں کو مار رہا ہے،امریکی انٹیلی جنس ماہرین کہتے ہیں "۔
امریکہ کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا مشاہدہ ہے کہ روس نے تحمل کے ساتھ ایکشن لیاہے اور وہ اسے” روسی لیڈر کا تزویراتی توازن کا عمل” کہتی ہے۔ حقیقت پسندی کےساتھ جائزہ لیتے ہوئے کہ پیوٹن کا مقصد یوکرین پر قبضہ نہیں بلکہ اس کا مقصد اس قدر زمینی علاقہ حاصل کرنا ہے کہ وہ یوکرین کو مذاکرات پر آمادہ کر سکے۔
فرگوسن نے امریکی اور برطانوی حکمت عملی سے متعلق مواد خود اکٹھا کیا ہے، جو ” اس بات کی وضاحت کرنے میں مدد دیتاہے کہ” اور چیزوں کے ساتھ ساتھ، امریکہ کی طرف سے اب تک جنگ بندی کے لیے کوئی سفارتی کوشش نہیں گئی۔یہ صدر جو بائیڈن کی اس جلد بازی کی بھی وضاحت کرتا ہےجو انہوں نے پیوٹن کو جنگی مجرم قرار دینے میں دکھائی”۔مطمع نظر امن نہیں ہے۔ سزا ہے مطمع نظر۔