تاریخ شائع کریں2022 6 April گھنٹہ 10:45
خبر کا کوڈ : 544525

ا آئین پاکستان کی حیثیت اور اہمیت

۔ دوسری جانب جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے سربراہ اور اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے صدر مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ عمران خان ایک خط کے مفروضے کے پیچھے چھپنے کی کوشش کر رہا اور سیکیورٹی ادارے سلامتی کمیٹی کے اجلاس پر اپنی پوزیشن واضح کریں۔
ا آئین پاکستان کی حیثیت اور اہمیت
بشکریہ:شفقنا اردو

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ عمران خان کی حکومت ختم ہوگئی مگر ابھی پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ نے فیصلہ سنانا ہے، اعلیٰ عدلیہ فیصلہ دے گی کہ کیا آئین پاکستان کی کوئی حیثیت اور اہمیت ہے یا وہ صرف کاغذ کا ایک ٹکڑا ہے۔لاول بھٹو کا کہنا تھا کہ عمران خان کی حکومت ختم ہوگئی مگر ابھی پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ نے فیصلہ سنانا ہے، ملک کی عدلیہ جو بھی فیصلہ سنائے، عمران خان کی حکومت نہیں بچ سکتی، عمران خان کا اقتدار تو گیا ہی گیا، مگر اعلیٰ عدلیہ ہماری جمہوریت اور آئین پر فیصلہ سنائے گی۔ دوسری جانب جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے سربراہ اور اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے صدر مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ عمران خان ایک خط کے مفروضے کے پیچھے چھپنے کی کوشش کر رہا اور سیکیورٹی ادارے سلامتی کمیٹی کے اجلاس پر اپنی پوزیشن واضح کریں۔

یاد رہے کہ  تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری سے پہلے وزیر اعظم نے بار بار اشارہ دیا تھا کہ ان کے پاس ’ٹرمپ کارڈ‘ ہے۔ سیاسی تجزیہ کار اور ذرائع ابلاغ عدم اعتماد کے ووٹ میں عمران خان کی شکست کی بلا ججھک پیش گوئی کر رہے تھے تاہم ایسے آثار موجود تھے کہ کہیں نہ کہیں کچھ گڑبڑ ہو سکتی ہے۔ اس کے باوجود شاید ہی کسی کو اندازہ تھا کہ جمہوری طریقہ کار کی مدد سے اقتدار میں آنے والی جماعت اپنا اقتدار بچانے کے لئے طور پر آخری چال میں جمہوری نظام ہی کو نذر آتش کر دے گی۔ پارلیمانی عمل کو ایک ایسے رہنما کے حکم پر تہس نہس کر کے رکھ دیا گیا ہے جو مسلسل پارلیمانی عمل کے بارے میں حقارت کا اظہار کرتا رہا ہے۔ اس اقدام کے ذریعے پاکستان کو آئینی بحران کی تاریک کھائی میں دھکیل دیا گیا ہے۔ حالیہ واقعات کو دیکھا جائے تو لگتا ہے کہ کپتان نے بہت پہلے سے یہ گھناؤنا کارڈ کھیلنے کا منصوبہ بنا رکھا تھا۔ تاہم جس طریقے سے یہ قدم اٹھایا گیا اس سے قوم ایک گہرے صدمے سے دوچار ہوئی ہے۔ ایک خود ساختہ ‘فائٹر’ نے ایسے بے ضابطہ رویے سے اپنی قامت کم کر لی ہے۔ ‘آخری گیند تک کھیلنے’ کے بجائے عمران خان نے کھیل کے قواعد و ضوابط ہی کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔

حیرت کا امر ہے کہ ایک طرف تو چیف جسٹس کو ملک میں پیدا ہونے والے آئینی و سیاسی بحران پر اس قدر بے چینی لاحق تھی کہ انہوں نے اتوار کو عدالت عظمیٰ کے دروازے کھلوائے اور آئین کی شق 184(3) کے تحت قومی اسمبلی میں رونما ہونے والے واقعات اور اس کے فوری بعد وزیر اعظم کی طرف سے صدر مملکت کو قومی اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس بھجوانے کے معاملہ پر غور کا عندیہ دیا۔ شق 184(3) کے تحت سپریم کورٹ کو عوامی اہمیت کے معاملہ کا از خود نوٹس لینے کا حق حاصل ہے۔ البتہ یہ معاملہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی سے متعلق ہونا چاہئے جن کا ذکر آئین کے پہلے باب کے دوسرے حصے میں کیا گیا ہے۔ اس شق کے تحت سپریم کورٹ کے کسی فیصلہ کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ عدالت عظمی کو ثابت کرنا ہے کہ اس معاملہ میں سوموٹو کا استعمال فوری انصاف کی فراہمی کے لئے کیا گیا ہے۔ اس شق کی آڑ میں کسی ناقابل قبول فیصلہ کو مسلط کرنے کی کوشش نہیں کی جائے گی۔

چیف جسٹس کے سو موٹو سے یہی ظاہر ہوتا تھا کہ چیف جسٹس قومی اسمبلی میں رونما ہونے والے واقعہ اور ڈپٹی اسپیکر کی واضح آئین شکنی کی صورت حال کو عوام کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی سمجھتے ہیں جس کی وجہ سے انہوں نے چھٹی والے دن کسی پٹیشن کے بغیر ہی سو موٹو اختیار کے تحت کارروائی کرنا ضروری سمجھا۔ گزشتہ روز منعقد ہونے والی سماعت میں ہی اس حوالے سے فوری عدالتی حکم آنا چاہئے تھا تاکہ یہ واضح ہوجاتا کہ سپریم کورٹ کسی آئین شکنی کو برداشت نہیں کرے گی خواہ اس کا ارتکاب کسی بھی عہدیدار اور کسی بھی طریقے سے کیا گیا ہو۔ لیکن اتوار کو یہ کہہ کر کارروائی ملتوی کردی گئی کہ لارجر بنچ فریقین کے دلائل سن کر کوئی فیصلہ دے گا۔

مگر آج کی سماعت کے دوران چیف جسٹس کا پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق نائیک کے ساتھ مکالمہ بھی افسوسناک لب ولہجہ لئے ہوئے تھا۔ فاروق نائک نے اس اہم آئینی معاملہ پر غور کے لئے فل کورٹ بنچ بنانے کی استدعا کی جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ’ اگر انہیں بنچ میں شامل ججوں کی قابلیت پر شبہ ہے تو وہ ابھی اٹھ جاتے ہیں‘۔ حالانکہ اسی مکالمہ کے دوران جب دلیل دیتے ہوئے فاروق نائیک نے عدالت کو بتانے کی کوشش کی تھی کہ ڈپٹی اسپیکر نے تین منٹ کے مختصر وقت میں تحریک عدم اعتماد مسترد کر کے اجلاس برخاست کردیا تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’آپ جذباتی باتیں نہ کریں، قانونی نکتہ واضح کریں‘۔ ایک طرف فاروق نائیک جیسے سینئر، تجربہ کار اور خاموش طبع وکیل کو جذبات سے گریز کا مشورہ دیا گیا لیکن ایک فل کورٹ بنچ کی درخواست پر ججوں کی ذاتی قابلیت کا عذر تراش کر جذباتی دلیل کے ذریعے آگے بڑھنے کی کوشش کی گئی۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو وضاحت کرنا پڑے گی کہ اگر قومی اسمبلی میں پیش آنے والا واقعہ آئین کی کھلی خلاف ورزی نہیں تھا اور اس سے عوام کے بنیادی حقوق متاثر نہیں ہوئے تھے تو انہوں نے اس معاملہ پر 184(3) کے تحت ازخود نوٹس لینے کی ضرورت کیوں محسوس کی؟ اور اگر واقعی یہ معاملہ آئین شکنی کا کھلا وقوعہ ہے تو اس پر حکم جاری کرنے میں لیت و لعل سے کیوں کام لیا جارہا ہے؟ آج کی عدالتی کارروائی کے دوران فاضل ججوں کی طرف سے اسپیکر کے اختیار میں عدالتی مداخلت کے حوالے سے شق پر سوالات اٹھانے کے علاوہ تحریک عدم اعتماد پر بحث نہ کروانے جیسے معاملات پر نکتہ آفرینی کی گئی لیکن ڈپٹی اسپیکر کے آئین شکن اقدام پر براہ راست کوئی ریمارکس یا رائے سامنے نہیں آئی جس نے ملکی آئین کی بنیاد کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس طرز عمل کی اگر اب روک تھام نہ کی جا سکی تو ملکی جمہوری نظام پر اس کے دوررس منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
 
https://taghribnews.com/vdcewe8nnjh8eni.dqbj.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ