تاریخ شائع کریں2022 16 April گھنٹہ 11:20
خبر کا کوڈ : 545770

بنگلہ دیش کےنگران ریاست بننے کا خطرہ کیوں ہے

شیخ حسینہ  واجد  کی حکومت کو , ایک ایسا قانون  متعارف کروانے ک وجہ سے تنقید کا  سامنا  ہے، جس کی وجہ سے پریس کی آزادی پر قدغن لگ سکتی ہے اور ان افراد کو  نشانہ بنایا جا سکتاہے جو  سوشل میڈیا پر ایسا مواد پوسٹ کریں جو اس کی جماعت کے سیاسی ایجنڈے سے متضاد ہو۔
بنگلہ دیش کےنگران ریاست بننے کا خطرہ کیوں ہے
بشکریہ:شفقنا اردو 

شیخ حسینہ  واجد  کی حکومت کو , ایک ایسا قانون  متعارف کروانے ک وجہ سے تنقید کا  سامنا  ہے، جس کی وجہ سے پریس کی آزادی پر قدغن لگ سکتی ہے اور ان افراد کو  نشانہ بنایا جا سکتاہے جو  سوشل میڈیا پر ایسا مواد پوسٹ کریں جو اس کی جماعت کے سیاسی ایجنڈے سے متضاد ہو۔ماہرین کے اندیشوں کے مطابق بنگلہ دیش کی موجودہ حکومت ایک ایسی قانون سازی کو حتمی شکل دے رہی ہے، جو اگر پارلیمنٹ سے منظور ہو جاتی ہے تو ملک کو ایک  ‘نگرانی رکھنے والی  ریاست’ میں بدل دے گی۔

شیخ حسینہ واجد کی حکومت نے ، سیاسی مفادات کی خاطر ایسے قوانین  منظور کئے ہیں جو اسکی  بدنامی کا باعث ہیں۔ 2009 سےحکومت میں ہونے کے بعد حسینہ  انتظامیہ نے، 2018 میں،  ڈیجیٹل سیکورٹی ایکٹ(DSA) پاس کیا او اس کی وجہ سے، حقوق کی محافظ تنظیموں کی جانب سے، اس قانون کو سیاست دانوں ، جرنلسٹوں، اور حتٰی کہ عام شہریو کے خلاف استعمال کرنے پر اسے اتنقید کانشانہ بنایا گیا ۔ان متاثرہ افراد  میں سے بہت سے ابھی تک جیلوںمیں ہیں۔

نئی  قانون سازی کا  مسودہ،جسےجسے” ٹیلی کمیونیکیشن ریگولیٹری کمیشن برائے ڈیجیٹل، سوشل میڈیا اور اوٹی ٹی(  OTT)پلیٹ فارمز”  کا  نام دیا گیا ہے ، کا مقصد،  بجائے مبینہ خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف  قانونی  کاروائی کے،سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور  ٹیک کمپنیوں کو، صافین کی آن لائن سرگرمیوں  کے لیے، سخت نگرانی میں  رکھنا  ہے ۔

اگر سادہ طریقےسے کہا جائے تو اس کامطلب ہے کہ اس مجوزہ  قانون کے زریعے، بنگلہ دیشی حکومت چاہتی ہے کہ فیس بک جیسے پلیٹ فارمز کو حکومتی سنسر کے طورپر استعمال کیا جائے کیونکہ کہ قانون اس بات کی وضاحت  کرتا ہے کہ فیس بک پر بنگلہ دیشی صارفین کی کون سی بات شائع ہونی چاہیے اور کن حالا ت کے تحت فیس بک کوصارفین کا پوسٹ کیا ہوامواد ہٹا دینا چاہیے۔

پلیٹ فارمز اور کمپنیوں کو قانونی کاروائی کی دھمکی کے ساتھ ساتھ، مسودہ قانون حکومتی مواصلاتی کمپنی بی –آر-ٹی-سی کو اختیار دیتا ہے کہ وہ خدمات فراہم کرنے والی کمپنیوں کو حکم دے سکتی ہے کہ متعلقہ مواد کو ہٹا دے یا بلاک کردے اور اس کی تعمیل  72 گھنٹے کے اندر اندر  ہونا  چاہیے۔

تمام سوشل میڈیا رابطہ کار کمپنیوں کےلیے ایک ریذیڈنٹ کمپلینٹ آفیسر مقرر کرنے کے علاوہ ایک عمل درآمد کروانے والا آفیسر بھی مقرر کرنا ضروری ہے جو ان احکاما ت پر عملدرآمد کو یقینی  بنائے گا۔  اور ان دو کے علاوہ ایک ایجنٹ بھی  مقرر کیاجائے جو قانون نافذ کرنے والے اداروں اور بی آر ٹی سی کے درمیان رابطے کا کام کرے گا۔ اس کامطلب یہ ہوا کہ سوشل میڈیا کمپنیوں کو  ایسے افراد مقرر کرنا  چاہیئں جنھیں زمہ دار قرار دیا جاسکے اور کسی خلاف ورزی کی صورت میں انہیں گرفتار کیا جا سکے۔

مسودہ قانون مشکلات  کیوں پیدا کر رہا ہے؟

ڈیلی  سٹار کی ایک رپورٹ کے مطابق، اس قانون کی بعض شقیں ڈیجیٹل  سیکورٹی  ایکٹ سے مشابہ ہیں اور انہیں مخالفانہ  آوازوں کو دبانے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے ۔اگر یہ قانون منظور  ہو جاتا  ہےتو سوشل میڈیا رابطہ  کار کمپنیاں ایسا کوئی مواد شائع نہیں کر سکتیں  جو بنگلہ دیش کی جنگ آزادی، اور اس آزادی کی روح  کے خلاف ہو ۔ اس میں وہ مواد بھی قابل مواخذہ ہو گا جوبابائے قوم ،قومی ترانے اور یا قومی جھنڈے کے خلاف ہو یا حکومتی رازداری کے لیے خطرے کا باعث ہو۔

صحافی اور محقق شاقب احمد نے ٹی آر ٹی ورلڈ کو بتایا کہ ،اپنےوسیع تر مفہوم میں اور ضابطہ اخلاق کو  منظور کرنے کےحکومتی منصوبے کے مطابق، یہ مجوزہ قانون بنگلہ  دیش میں صحافتی آزادی کے تابوت میں آخری کیل  ثابت ہوگا۔” ہمیں سوشل میڈیا، او ٹی ٹی پلیٹ فارمز اور ڈیجیٹل نیوز  میڈیا   کے دائرہ کار کےاندر، اس جدید دور میں ‘سوچنے کے جرم’  کا نیا مظاہر ہ دیکھیں  گے۔” احمد کا کہنا ہے

دوسروں سےسبق حاصل نہ کرنا

جنوبی ایشیا کے تجزیہ نگار ایڈم پٹ مین کے مطابق, بی آر ٹی سی،ہندوستان کے 2021 کے آئی-ٹی قوانین جیسا ہے،  ” وہ قانون ایک  ناقابل تخفیف تباہی ثابت  ہوا”۔ انڈیا کے میڈیا  نے سب  سے پہلےبنگلہ دیشی مسودہ قانون کے  خلاف انتباہ کیا، کیونکہ، انہیں علم تھا کہ یہ ملک کے لیےکتنا نقصان دہ ہے” اس کا کہنا ہے۔

” اورآپ مودی کے انڈیا کے بارے میں جو کچھ بھی کہنا  چاہتےہیں، تو آپ  یقیناً حیران ہوتے کہ کیا  وہ  سب کچھ کر گزرتے اگر انہیں  اسکی وجہ سے واقع ہونے والے ،قانونی، اور نیک نامی کے مسائل کے بارے میں  پہلے سے علم ہوتا۔کیا بنگلہ دیش حقیقتاً ان مسائل سے نمٹ سکتاہے ؟ میں اس بارے میں مشکوک ہوں” پٹ مین نے اپنی بات میں  اضافہ کیا ۔” انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش،  دوسرے ممالک کی نسبت، سوشل میڈیا کمپنیوں کے ساتھ کہیں زیادہ ہم آہنگی کے ساتھ کام کر رہا  تھا۔

لیکن ایک  زیادہ بہتر ملکی  سوچ زیادہ  دانشمندانہ ہوسکتی تھی” ، پٹ  مین کے مطابق۔"مثال کے طور پر، بنگلہ دیشیوں نے ، کاکس بازار کے گرد وپیش میں رہنے والی ، روہنگیا  مہاجروں کی کمیونیٹیز میں پھیلنے والی فواہوں ، غلط معلومات اور نفرت انگیز تقریر جیسی  باتوں کو روکنے کے لیے بہت جدید ماڈل بنائے تھے۔یہ پیشہ ور لوگ، مختلف  تنظیموں  کے اندر ، ان معلومات کی نشاندہی کرنے، ان کو بے اثر کرنے اور  ایسی معلومات  کو تحلیل کرنے کے لیے کام کرتےتھے جو نقصان دہ ہو سکتی تھیں۔

اس چیز نے کووڈ لاک ڈاؤن کے دوران اور ایسے مواقع پر بہت اچھا  کام کیا جب تناؤ بہت زیادہ تھا۔ ” انہوں نے بتایا۔بنگلہ دیش کے ٹیلی کام کے وزیر مصطفٰے جبار نے بہر حال اس طرح کی قانون سازی کی  ضرورت کا دفاع کیا۔” ہم جنگل میں نہیں رہتے۔ ہم ایک مہذ ب معاشرے میں رہتے ہیں اور مہذب معاشرے کو، شہریوں پر حکومت کرنے کے لیے قانون کی ضرورت ہوتی ہے،”انہوں نے ٹی آر ٹی ورلڈ کو بتایا۔
 
https://taghribnews.com/vdchqmnmv23nkqd.4lt2.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ