بھارتی دارالحکومت کے علاقے جہانگیر پوری میں مسلمانوں پر انسانیت سوز مظالم
جہانگیر پوری کے رہائشی محمد عاقب نے بتایا کہ صبح جب ہنومان جینتی کے دو جلوس اس علاقے سے گزرے تو سب کچھ پرامن تھا، شام کے جلوس کے دوران تشدد اس وقت شروع ہوا جب میں نے لوگوں کو چیختے ہوئے سنا کہ وہ مسجد میں داخل ہو رہے ہیں۔
شیئرینگ :
بھارتی دارالحکومت کے علاقے جہانگیر پوری میں مسلمانوں کئے گئے انسانیت سوز مظالم نے علاقہ مکینوں کو شدید صدمے سے دوچار کردیا ہے اور انہوں نے اسے قیامت قرار دیا ہے۔جہانگیر پوری میں ہندو اور مسلمان ہم آہنگی کے ساتھ رہتے چلے آرہے ہیں مگر گذشتہ ہفتے ہونے والے واقعات ان کے لئے کسی صدمے سے کم نہیں، جس یاد کرتے ہوئے ان کی روح تک کانپ جاتی ہے۔
ہندوستان ٹائمز میں شائع خبر کے مطابق جہانگیر پوری کے رہائشی محمد عاقب نے بتایا کہ صبح جب ہنومان جینتی کے دو جلوس اس علاقے سے گزرے تو سب کچھ پرامن تھا، شام کے جلوس کے دوران تشدد اس وقت شروع ہوا جب میں نے لوگوں کو چیختے ہوئے سنا کہ وہ مسجد میں داخل ہو رہے ہیں۔
میں بھی صورتحال دیکھ کر گھبرا گیا اور اپنی دکان بند کرنے کے لیے بھاگا، میں اپنی بیوی اور بچوں کے لیے پریشان تھا کیونکہ میں لوگوں کو ایک دوسرے پر پتھراؤ کرتے دیکھ رہا تھا۔مسجد کے قریب رہنے والے جہانگیرپوری کے ایک رہائشی نے بتایا کہ اس روز افطار بھی وقت پر نہ ہوسکا ہم اتنے خوفزدہ تھے کہ ہم نے دن 2 بجے ہی روزہ توڑ دیا۔مسجد کے قریب رہنے والے جہانگیرپوری کے ایک رہائشی نے بتایا کہ اس روز افطار بھی وقت پر نہ ہوسکا ہم اتنے خوفزدہ تھے کہ ہم نے دن 2 بجے ہی روزہ توڑ دیا۔
علاقہ کے ایک دکاندار منوج مڈیا نے بتایا کہ میں اپنی دکان بند کرنے کے بعد گھر پہنچا، میں کئی سالوں سے اس علاقے میں رہ رہا ہوں اور میں نے اس قسم کا تشدد کبھی نہیں دیکھا، میرے پڑوسی مسلمان ہیں، لیکن ہمیں کبھی بھی فرقہ وارانہ مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑا، ہم سب ہم آہنگی سے رہ رہے ہیں۔
جہانگیرپوری واقعے کے لیے ہندو اور مسلم دونوں مذاہب کے لوگوں نے ایک دوسرے پر فسادات شروع کرنے کا الزام لگایا ہے۔ یہ فسادات اس وقت ہوئے جب دلی کے جہانگیر پوری علاقے میں ہندوؤں کا ایک جلوس مسجد کے سامنے سے گزر رہا تھا۔اس واقعے کے بعد مرکز میں برسراقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کے تحت کام کرنے والی دہلی پولیس نے اس معاملے میں زیادہ تر مسلمانوں کو گرفتار کیا۔
اس کے علاوہ بی جے پی کے زیرقیادت میونسپل کارپوریشن نے علاقے میں غیر قانونی تجاوزات کو مسمار کرنے کے لیے بلڈوزر کا استعمال کیا۔ تاہم سپریم کورٹ کی مداخلت سے تجاوزات ہٹانے کی یہ مہم روک دی گئی۔ لیکن حکومت کے اس اقدام کو لوگوں نے ‘مسلم فسادیوں کو سبق سکھانے’ کے طور پر دیکھا۔تاہم حکومت کے ان اقدامات سے زیادہ تر لوگوں کو حیرانی نہیں ہوئی کیونکہ گذشتہ چند برسوں کے دوران انڈیا میں مسلمانوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ حال ہی میں بی جے پی کی حکومت والی کئی ریاستوں میں انتظامیہ کی ایسی کارروائیاں دیکھی گئی ہیں۔
گذشتہ دنوں دہلی میں جميعت علمائے ہند کی ایک کانفرنس ہوئی۔ اس میں ملک کے کئی سرکردہ مسلم رہنماؤں نے مذہبی اقلیتوں کے خلاف بڑھتے ہوئے نفرت انگیز بیانات اور مذہبی حملوں پر تشویش کا اظہار کیا۔شیعہ مذہبی رہنما مولانا کلب جواد نے کہا کہ ’کئی ہندو تنظیم مسلمانوں اور اسلام کے خلاف نفرت پھیلا رہی ہیں اور حکومت خاموشی سے تماشا دیکھ رہی ہے۔‘انھوں نے کہا کہ ’اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
مدرسوں کو دہشت گردی سے جوڑا جا رہا ہے لیکن مسلمانوں کو صبر و تحمل دامن ہاتھ سے جانے دینے کی ضرورت نہیں ہے۔‘مسلم لیڈروں نے مودی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اقلیتوں کے مذہبی اداروں کو تحفظ فراہم کرے اور بعض ہندو تنظیموں کی مذہبی جارحیت اور نفرت پھیلانے کی کوششوں پر روک لگائے۔
بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی بھارت کو ایک ہندو ملک بنانے کاعملی مظاہرہ کررہا ہے۔ دوسری صرف اس کے خلاف خود اعتدال پسند ہندوہر سطح پر اس کی مذمت کرتے ہوئے اس سوچ یعنی ہندوتوا کا مختلف فورم پر مذمت کرتے ہوئے برملا کہہ رہے ہیں کہ اس طرح بھارت اندرسے تقسیم کی طرف جارہاہے۔
مسلمان اوردیگر اقلیتیں حکومت کی اس پالیسی کے سخت خلاف ہیں اور اخبارات، ٹی وی اور دیگر ذرائع سے بھارت کی حکومت کو تنبیہ کررہے ہیں کہ اگر یہ غیر آئینی سلسلہ جاری رہاتو ہندوئوں کے ساتھ خونی تصادم ناگزیرہوجائے گا۔ بہرحال مسلمانوں کی بھارت میں اس وقت تعداد24کروڑ سے زیادہ ہے،اگر یہ متحدہوجائیں ،جس کے امکانات ظاہر ہورہے ہیں تو نریندر مودی کیلئے حکومت کرنا مشکل ہوجائے گا۔
ایسا محسوس ہورہا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کے خلاف ایک گہری حکمت عملی کے تحت ان کے عقائد، تہذیب وتمدن پرحملہ کرکے ان کو اپنے ہی وطن میں بے وطن کرنے کی مذموم کوششیں کی جارہی ہیں، بھارت کے سیکولر سوچ رکھنے والے دانشور بھی بی جے پی کی اقلیتوں کے خلاف طاقت اور تشدد کی پالیسیوں کی مذمت کرتے ہوئے نریندرمودی سے مطالبہ کررہے ہیں کہ وہ ہوش کے ناخن لے‘ بھارت کو تقسیم ہونے اور ٹوٹ پھوٹ ہونے سے بچانے کے لئے اقلیت دشمن پالیسیوں کو ترک کرے کیونکہ یہ پالیسیاں بھارت کے آئین سے متصادم ہیں اوربنیادی انسانی حقوق کے خلاف بھی۔
بھارت کی موجودہ حکومت نے مذہبی جنون پھیلاکر بھارت کے سیکولر چہرے کو مسخ کردیا ہے۔ نیز افسوس اس بات کاہے کہ بھارت کی دیگر بڑی سیاسی جماعتیں اس صورتحال کے پیش نظر مزاحمت کازیادہ موثر انداز میں مظاہرہ نہیں کر رہی ہیں۔ اگر یہ سیاسی جماعتیں جن میں علاقائی جماعتیں بھی شامل ہیں ایک زبان ہوکر بی جے پی کی اقلیتوں کے خلاف پالیسیوں کو تبدیل کرنے کی کوشش کریں تو بہت کچھ بدل سکتاہےلیکن سوال یہ پیداہوتاہے کہ بھارت کو آزادی دلوانے والوں کے فلسفے کاکیا ہوا؟ان کی انسان دوست سوچ کا کیاہوا؟ اس فلسفہ کے تحت ہرمذہبی اکائی کو اپنے عقیدے کے مطابق زندگی بسر کرنے کا حق حاصل تھا، لیکن اب نریندر مودی نے (جوگجرات میں مسلمانوں کا قاتل ہے) اس ترقی پسند اور انسان دوست پالیسی کو ترک کرکے ایک ایسی پالیسی تشکیل دینے کی کوشش کررہاہے جو بھارت کے موجودہ سیاسی وسماجی حالات کومزید خراب کرنے کا سبب بنے گا۔