پارلیمنٹ نےمنگل کے روز، اسمبلی کا مجازی اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا۔صدر نے ،طاقت پر غاصبانہ قبضے کے خلاف ووٹنگ کو روکنے کے لیے، ملک بھرمیں،آن لائین ویڈیو پلیٹ فارمز کو بلاک کرنے کی کوشش کی لیکن ایسا کرنے میں وہ ناکام ہو گیا۔
شیئرینگ :
بشکریہ:شفقنا اردو
منتخب جمہوری پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے کے چند گھنٹے بعد، تیونس کے صدر قیس سعید کا کہنا ہے کہ پارلیمانی انتخابات اگلے تین ماہ کےدوران منعقدنہیں کیے جائیں گے۔اس کے نتیجے میں تیونس، 2011 کے انقلاب کےبعد سے اب تک کے ،سب سے سنگین سیاسی اور معاشی بحران میں داخل ہو گیا ہے۔گزشتہ جولائی میں، جب بدعنوانی، معاشی بحران، اورعالمی وبا سےنبٹنے میں ناکامی پر ہنگامے پھو ٹ پڑے توسعید نے، اپنے آپکو غیرمعمولی اختیارات کامالک بنانے کے بعد،پارلیمنٹ کو معطل کردیا اور اپنے ہی منتخب کیے ہوئے وزیراعظم اور دوسرے حکام کو برطرف کردیا۔اس وقت اسے بہت سے تیونسیوں سے حمایت ملی، لیکن جب اس نے اپنی طاقت میں اضافہ کر لیا اور مزیداختیارت حاصل کیے تو اس کی مخالفت شروع ہو گئی۔
سعید کے ان اقدامات کے خلاف دفاع میں، پارلیمنٹ نےمنگل کے روز، اسمبلی کا مجازی اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا۔صدر نے ،طاقت پر غاصبانہ قبضے کے خلاف ووٹنگ کو روکنے کے لیے، ملک بھرمیں،آن لائین ویڈیو پلیٹ فارمز کو بلاک کرنے کی کوشش کی لیکن ایسا کرنے میں وہ ناکام ہو گیا۔کئی گھنٹے بعد، اس نے اپنے خطاب میں، پارلیمنٹ پر الزام لگایا کہ وہ بیرونی طاقتوں کی مدد سے اس کا تختہ الٹنے کی کوشش کررہی ہے۔ اس کےساتھ ہی اس نے پارلیمنٹ کو ” حکومت، اداروں اور تیونس کےلوگوں مفاد کی خاطر” تحلیل کر دیا۔جمعے کے روز، سعید نے یہ اعلان بھی کیا کہ وہ تین ماہ میں الیکشن نہیں کروائے گا ۔ اس کے بجائے وہ ایک نئے آئین کا مسودہ تیار کرے گا جس پر 25 جولائی کو ریفرنڈم کروایا جائے گااو راس کے بعد الیکشن منعقد کروائےجائیں گے۔راشد غنوشی نے، جو کہ اسمبلی کے سپیکر اور ناحدہ پارٹی کے سربراہ ہیں ، رائٹرز کو بتایا کہ اس کی جماعت ناحدہ اور دیگر جماعتوں سے کم از کم 20 قانون سازوں کو انٹی ٹیررازم یونٹ نے تفتیش کے لیے طلب کیا ہے۔
جولائی تک جب سعید نے پارلیمنٹ کو معطل کیا، تیونس کو ایسی واحد جمہوریت کے طور پر جانا جاتا تھا جو 2011 کی "عرب بہار” نامی عوامی ابھار کے نتیجے میں وجود میں آئی تھی- عرب بہار، عوامی ابھار کا سلسلہ تھا جس نےپوری عرب دنیا کو اپنی لپیٹ میں لےلیا تھا۔سعید جو کہ آئینی قانون کا ایک سابقہ پروفیسر ہے، 2019 کی الیکشن میں بھاری اکثریت سے جیت کر صدر بنا تھا۔تجزیہ نگاروں کےمطابق،صدر اور پارلیمنٹ کے درمیان موجودہ بحرانی کیفیت نے، تیونس میں جمہوریت کو ایک شدید خطرے سے دوچارکردیا ہے۔” لیکن اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ مستقبل کے لیے،بغیر کسی واضح راستے کے، تیونسی عوام کی سماجی اور رمعاشی ضروریات کو پورا کرنے میں ناکامی ہوئی ہے،” سارہ یرکیزنے ،جو کہ کارنیگی وقف برائے بین الاقوامی امن کی سینئر فیلو ہیں ، ٹی آر ٹی ورلڈ کو بتایا۔سعید کی فرد واحد کی حکمرانی میں، جمہوری تیونس کی نسبت، معیشت زیادہ برے حالات کا شکارہے اور اس کے ساتھ ہی بد امنی میں بھی اضافہ ہواہے۔ سعید ملک اور تیونس کے لوگوں کےمفادات کے لیے کام نہیں کر رہا۔ملک بھرمیں اشیاا ور خدمات کی قیمتوں کی اضافہ ہوا ہے اور ا س دوران کئی کاروبار بند ہو چکےہیں۔
اس ماہ کے آغاز میں، تیونس کی سب سے بڑی ٹریڈ یونین، یو-جی-ٹی-ٹی (UGTT)نےآئی ایم ایف کی ایما پر ہونے والی معاشی اصلاحات کے خلاف احتجاج کی دھمکی دی ہے۔ان کا موقف ہے کہ انہیں ملک کے سیاسی اور معاشی مستقبل کے بارے میں ہونے والے فیصلوں میں بھی شریک کیاجائے۔سعید کی حکومت نےآئی ایم ایف سے قرض کے حصول کے لیےایک معاہدہ پر،مذاکرات شروع کر دیے ہیں۔اگر یہ معاہدہ کامیاب ہو جاتاہےتو اس کےنتیجےمیں، کفایت شعاری کےلیے حکومتی اقدامات کرنا ہونگے،جس میں پبلک سیکٹر میں اجرتوں میں کمی اور سبسڈی کا خاتمہ وغیرہ شامل ہیں۔اسے، یو جی ٹی ٹی پہلے ہی رد کرچکی ہے۔”تیونس کی خارجی پوزیشن پہلے ہی بری حالت میں ہے۔ اگر آئی ایم ایف سے معاہدہ ناکام ہو جاتا ہے تو اس کے نتیجے میں، زرمبادلہ کے زخائر کم ہو جائیں گےاور تیونس کی عالمی منڈیوں تک رسائی مشکل ہو جائےگی،اور یہ صورتحال ہمارے کافی عرصہ پہلے کے نکتہ نظر کی تائید کرتی ہےکہ اس سے تیونس معاشی طور پر ڈیفالٹ کر جائے گا۔”یہ بات لندن میں قائم کنسلٹنسی ‘کیپیٹل اکنامکس ‘ نے اپنے ایک نوٹ میں کہی۔
بہرحال، یو-جی-ٹی-ٹی ٹریڈ یونین کی لیڈرشپ اب بھی کافی حد تک صدر کی حمایت میں ہےاور اس کے پارلیمنٹ تحلیل کرنے کے فیصلے کی حمایت میں ہے۔ یونین آنے والے دنوں میں صدر کی مدد گار ثابت ہو سکتی ہے۔سعیدکی سیاسی جماعتوں کو بائی پاس کر کے براہ راست جمہوریت کی طرف جانے کی خواہش کے بارے میں تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ، ” یہ براہ راست ،آمریت کی کتاب سے حاصل کیا ہوا سبق ہے”۔تیونس کے ساتھ مستقبل میں کیا ہونے جار ہاہے، یہ واضح نہیں ہے۔ ایک طرف، سعید ہر روز عوامی اور سیاسی حمایت سے محروم ہوتا جارہا ہے۔ اب تک وہ مسائل کے حل اور تیونس کو درپیش مشکلات کے بارے میں کوئی بھی ٹھوس یا قابل عمل حل پیش کرنے میں ناکام رہا ہے”۔ یرکیز نے ٹی آرٹی ورلڈ کو بتایا۔”لیکن دوسری جانب،اپوزیشن جماعتیں اور سول سوسائٹی کے گروپس ایسا کوئی بھی وسیع اور ہمہ گیر اتحاد بنانے میں ناکام رہی ہیں جو سعید کے اقدامات کا مقابلہ کرسکیں”۔