تاریخ شائع کریں2025 2 April گھنٹہ 18:16
خبر کا کوڈ : 672364

ڈیاگو گارشیا جزیرے پر جوابی حملے کی دھمکی کا مطلب کیا ہے؟

جزیرہ ڈیاگو گارسیا، جسے امریکہ نے 1966ء میں برطانیہ سے لیز پر لیا تھا، ایرانی سرزمین سے 4 ہزار کلومیٹر سے زیادہ فاصلے پر واقع ہے۔
ڈیاگو گارشیا جزیرے پر جوابی حملے کی دھمکی کا مطلب کیا ہے؟
بین الاقوامی امور کے ماہر علی رضا تقوی نیا نے سوشل میڈیا پر ایک پیغام میں لکھا: مجلے ٹیلی گراف کا دعویٰ ہے کہ ایک ایرانی فوجی عہدیدار نے ایک انٹرویو کے دوران بتایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی سرزمین پر کسی قسم کی فوجی جارحیت کی صورت میں چاگوس جزیرہ نما میں ڈیاگو گارشیا جزیرے پر جوابی حملے کی دھمکی کا مطلب کیا ہے؟ بنایا جائے گا۔ برطانوی حکومت کے ترجمان نے بھی اس بیان کی شدید مذمت کی۔ اگر اس ایرانی اہلکار کا بیان درست ہے تو چند نکات قابل توجہ ہیں:

1)۔ جزیرہ ڈیاگو گارسیا، جسے امریکہ نے 1966ء میں برطانیہ سے لیز پر لیا تھا، ایرانی سرزمین سے 4 ہزار کلومیٹر سے زیادہ فاصلے پر واقع ہے۔ اس جزیرے کو جوابی کاروائی کا نشانہ بنانے کی دھمکی کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے پاس ایسے ہتھیار موجود ہیں جو 4 ہزار کلومیٹر سے زیادہ فاصلے تک اہداف کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔

2)۔ یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ ایران ڈیاگو گارشیا جزیرے کو ممکنہ جوابی کاروائی کا نشانہ بنانے کے لیے کس قسم کے ہتھیار استعمال کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ ایرانی فوج اور سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی بیلسٹک اور کروز میزائلوں اور طویل فاصلے تک مار کرنے والے ڈرونز کا استعمال کرتے ہوئے اس اڈے کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ خاص طور پر سپاہ پاسداران خرمشہر 4 جیسے لانگ رینج میزائلوں کے ذریعے اور ایران کی فضائیہ طویل فاصلے تک مار کرنے والے کروز میزائلوں سے لیس Su-24 لڑاکا بمبار طیاروں کے ذریعے یہ کاروائی انجام دینے پر قادر ہیں۔
 
3)۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے یہ اعلان کہ وہ 4 ہزار کلومیٹر سے زیادہ فاصلے تک دشمن کے اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس نے اس رینج والے ہتھیار حاصل کر لیے ہیں، بذات خود اس بات کا گواہ ہے کہ پورا یورپی براعظم ایران کے پاس موجود ہتھیاروں کی زد میں آ سکتا ہے اور یوں طاقت کا توازن بدل جائے گا۔

4)۔ ڈیاگو گارشیا جزیرے پر موجود امریکی فوجی اڈہ بحر ہند، خلیج فارس اور بحیرہ احمر میں امریکی بحری کارروائیوں کے لیے اہم رسد اور معاونت کی سہولت فراہم کرتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس اڈے کی سرگرمیوں میں ممکنہ رکاوٹ مغربی ایشیا خطے میں تمام امریکی بحری اڈوں اور بحری بیڑوں کی فعالیت کو شدید طور پر متاثر کرے گی۔

5)۔ کویت کی آزادی کے لیے جنگ اور افغانستان اور عراق کی جنگوں جیسی گذشتہ چند دہائیوں کے دوران انجام پانے والی امریکی جنگوں میں ڈیاگو گارشیا جزیرہ بھرپور انداز میں امریکہ کو آپریشنل مدد فراہم کرتا آیا ہے اور اس کام میں اسے کسی قسم کی رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ تاہم، ایران کے پاس موجود ہتھیاروں کی طاقت کے پیش نظر، اگر ٹرمپ نے ایران کے خلاف کسی فوجی مہم جوئی کا مظاہرہ کیا تو چاگوس میں امریکی فوجی اڈے اور اس کے کئی ہزار فوجیوں کی جانیں خطرے میں پڑ جائیں گی۔
 
6)۔ ڈیاگو گارشیا جزیرے پر موجود امریکی فوجی اڈے کی افادیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ مختلف فوجی آپریشنز میں پشت پناہی اور رسد میں اہم کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ امریکی اسٹریٹجک بمبار طیاروں جیسے  B52، B1، اور B2 کی تعیناتی کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ بھی ہے۔ یہ بمبار طیارے لانگ رینج تک پرواز کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جس کے پیش نظر وہ ایک ہی چکر میں طویل فاصلے پر موجود مطلوبہ اہداف کو نشانہ بنانے کے بعد اپنے اڈے پر واپس جا سکتے ہیں۔

یہاں اہم نکتہ یہ ہے کہ امریکی کمانڈ عام طور پر اپنے اسٹریٹجک بمبار طیاروں کو دشمن کی پہنچ سے دور اڈوں پر تعینات کرتی ہے تاکہ انہیں کوئی نقصان نہ پہنچے لیکن اگر ایرانی فوجی عہدیدار کی طرف سے حالیہ دھمکی عملی جامہ پہنتی ہے تو امریکہ کی جانب سے اسٹریٹیجک فضائی بمباری کی کامیابی اور تسلسل مشکلات کا شکار ہو جائے گی جس کے نتیجے میں امریکی حکام تہران کے مقابلے میں محتاط رویہ اپنانے پر مجبور ہو جائیں گے۔
https://taghribnews.com/vdch-in-k23nqxd.4lt2.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ