جس طرح صرف ایک کمیونٹی میں اسلحہ تقسیم کیا جا رہا ہے اس پر مجھے پریشانی ہے. اب اسلحہ نوجوانوں میں تقسیم کیا جا رہا ہے، یہ ہم میں سے کسی کے لیے بھی نیک شگون نہیں ہے، مجھے کشیدگی میں اضافے کا خدشہ نظر آرہا ہے
شیئرینگ :
مقبوضہ جموں اور کشمیر میں بھارتی فورسز نے حریت پسندوں سے لڑنے کے لیے 5 ہزار افراد پر مشتمل ہندو ملیشیا کو مسلح کر دیا اور سرکاری ملازم سنجیت کمار بھی ان افراد میں شامل ہے اور انہوں نے بندوق چلانے کی تربیت حاصل کرلی ہے۔
غیرملکی خبرایجنسی کے مطابق دہلی سرکار نے مقبوضہ کشمیر میں 5 لاکھ سے زائد فوجی مستقل طور پر تعینات کر دیے ہیں اور ہندو قوم پرست حکومت حریت پسندوں کو کچلنے کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔
بھارتی حکومت نے گزشتہ برس نئی ملیشیاز تشکیل دینے کا اعلان کیا تھا اور جنوری میں بجلی کے شعبے میں سرکاری ملازمت کرنے والے 32 سالہ سنجیت کمار کے گاؤں میں جھڑپیں ہوئی تھیں، جس کے بارے میں انہوں نے کہا تھا کہ ہم ان حملوں سے وحشت زدہ ہوگئے تھے۔
پیشانی پر تلک لگا کر خود کو ہندو قوم پرست ظاہر کرنے والے سنجیت کمار کا کہنا تھا کہ وہ تیار ہیں اور اپنے گھر کا دفاع کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور جو ہماری قوم سے غداری کرے گا وہ میرا ہدف ہے۔
مسلم اکثریتی مقبوضہ وادی میں آزادی یا پاکستان سے الحاق کا مطالبہ کرنے والے افراد کو کچلنے کے لیے بھارت کی جانب سے سخت کارروائیاں جاری ہیں اور اس کے نتیجے میں ہزاروں جانی چلی گئی ہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں تشکیل دی گئی نئی ہندو ملیشیا کا نام ویلیج ڈیفنس گارڈز رکھا گیا ہے جو گزشتہ برس پولیس اہلکاروں اور مقبوضہ وادی میں ہندو شہریوں کی ہلاکتوں کے بعد بنائی گئی تھی۔
بھارتی حکومت کے اس اقدام کی وادی کے ہندو شہریوں نے خیر مقدم کیا تھا لیکن مسلمان شہریوں نے تحفظات کا اظہار کیا تھا کہ ملیشیا مقبوضہ کشمیر کے مسائل میں مزید اضافہ کرے گی۔
ڈھانگری کے علاقے میں ایک بزرگ مسلمان شہری نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی درخواست کرتے ہوئے بتایا کہ ’جس طرح صرف ایک کمیونٹی میں اسلحہ تقسیم کیا جا رہا ہے اس پر مجھے پریشانی ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اب اسلحہ نوجوانوں میں تقسیم کیا جا رہا ہے، یہ ہم میں سے کسی کے لیے بھی نیک شگون نہیں ہے، مجھے کشیدگی میں اضافے کا خدشہ نظر آرہا ہے‘۔
بھارتی پیراملٹری فورس کے افسر نے بتایا کہ حال ہی میں مسلح ہونے والے گاؤں کے افراد بدستور خطرے کی صورت میں ہیں جہاں ان کی یونٹ نے انہیں رات کو ہونے والی گشت سے آگاہ کیا ہے تاکہ انہیں کشمیری حریت پسندوں کی غلط فہمی نہ ہو اور فائرنگ نہ کر دیں۔
یاد رہے کہ بھارت نے مقبوضہ جموں اور کشمیر میں پہلی مرتبہ 1990 کی دہائی میں شہریوں پر مشتمل ملیشیا بنائی تھی جب بھارتی قبضے کے خلاف مسلح جدوجہد عروج پر تھی۔
مقبوضہ جموں اور کشمیر میں اس دوران تقریباً 25 ہزار مرد اور خواتین بشمول نوجوانوں کو اسلحہ فراہم کیا گیا تھا اور جموں ریجن میں گاؤں کی سطح پر دفاعی کمیٹیاں تشکیل دی گئی تھیں۔
انسانی حقوق کے گروپس مذکورہ کمیٹیوں کے ارکان کو شہریوں پر ظلم کا مرتکب قرار دیتے ہیں، قتل، ریپ اور بھتے کے کم ازکم 210 کیسز سامنے آئے اور اس کی ذمہ داری ان ملیشیاز پر عائد کی گئی تھی لیکن سرکاری ریکارڈ کے مطابق محض 2 فیصد سے بھی کم افراد کو سزا دی گئی۔
کنچن گپتا کا کہنا تھا یہ کیسز انفرادی عمل تھے اور ملیشیاز کی جانب سے کسی قسم کے منظم جرائم کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے، یہ خدشہ ہمیشہ موجود رہتا ہے کہ غلط کام بھی ہوسکتے ہیں، ہر کسی پر کنٹرول حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔
سی آر پی ایف کے ترجمان شیوانندن سنگھ نے کہا کہ فائرنگ، اسلحے کی صفائی اور انتظام کی تربیت کے ساتھ ساتھ ہم انہیں آگاہ کرتے ہیں کہ غلط استعمال پر کیا قانونی کارروائی ہوسکتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق جب سے یہ نئی ویلیج ڈیفنس گارڈز تشکیل دی گئی ہے، اب تک 3 افراد مارے جا چکے ہیں، جن میں ملیشیا کو فراہم کیے گئے اسلحے سے ہونے والی خودکشیاں بھی شامل ہیں۔
اسی طرح ملیشیا کی ایک خاتون رکن شوہر کے رائفل کی حادثاتی فائرنگ سے ہلاک ہوئی تھیں۔
ڈھانگری سمیت اطراف کے گاؤں میں شہری تحفظات کے باوجود لوگوں کو اسلحہ رکھنے سے نہیں روک رہے ہیں۔
سابق سرکاری ملازم اور فلور مل کے مالک اجے کمار نے اسلحہ حاصل کرنے والے اپنے پڑوسیوں کی نشان دہی کرتے ہوئے بتایا کہ ’اب یہاں ہر طرف گھروں میں بندوقیں ہیں‘۔