آیت اللہ ناصری اصفہان کے لوگوں کے لئے غنیمت اور نعمت کی حیثیت رکھتے تھے
ملاقات کے دوران رہبر معظم آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے کہا کہ آیت اللہ ناصری اخلاص کے پیکر اور اللہ سے رابطے میں رہتے تھے۔ ان کی بات معنویت سے لبریز اور صاف و شفاف پانی کی طرح زبان سے جاری ہوتی تھی۔
شیئرینگ :
رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آیت اللہ ناصری کی یاد میں ہونے والی کانفرنس کے منتظمین سے ملاقات کے دوران کہا کہ اہم بات یہ ہے کہ ان شخصیات کی باتوں کو علمی اور استدلالی طریقے سے مخاطبین تک پہنچایا جائے۔
ملاقات کے دوران رہبر معظم آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے کہا کہ آیت اللہ ناصری اخلاص کے پیکر اور اللہ سے رابطے میں رہتے تھے۔ ان کی بات معنویت سے لبریز اور صاف و شفاف پانی کی طرح زبان سے جاری ہوتی تھی۔ آج ان کے کلام اور جملوں کو عوام تک پہنچانے کے لئے مخاطبین کی طبیعت اور ذوق کا لحاظ رکھا جائے۔
رہبر معظم آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے تاکید کی کہ آیت اللہ ناصری اصفہان کے لوگوں کے لئے غنیمت اور نعمت کی حیثیت رکھتے تھے۔ ان جیسوں شخصیتوں کو تربیت کا ذریعہ بنانا چاہئے تاکہ لوگوں کے لئے قابل استفادہ قرار پائیں۔
رہبر معظم کے بیانات کا متن ذیل میں پیش کیا جارہا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ان شاء اللہ خدا مرحوم آقا ناصری کے درجات بلند کرے گا اور اپنی رحمت کے سایے میں قرار دے گا یقینا لطف الہی ان کے شامل حال ہے۔ ان جیسوں کا وجود غنیمت ہے۔ معاشرے کو دینے کے لئے ہمارے لئے ان جیسوں کی ضرورت ہے۔ اللہ آپ لوگوں کو اپنی حفاظت میں رکھے۔
آقا ناصری مرحوم کی یاد میں ہونے والا پروگرام نہایت اچھا ہے یعنی موضوع کے پہلووں کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ البتہ اہم بات یہ ہے کہ عناوین کو علمی اور استدلالی طریقے سے مخاطبین تک پہنچایا جائے۔ آج ہمیں ان کی ضرورت ہے۔ جب آقا ناصری جیسے لوگ عوام سے روبرو ہوتے ہیں تو کام آسان ہوتا ہے۔ ان کی زبان سے نکلی ہوئی بات اخلاص پر مبنی ہوتی ہے۔ جاری پانی کی طرح صاف و شفاف ہوتا ہے جس میں کوئی ابہام نہیں ہوتا۔
جو چیز مشکل کو آسان بناتی ہے، اخلاص ہے۔ اخلاص اور اللہ سے رابطے کی وجہ سے مشکل حل ہوجاتی ہے۔ جب ان جیسے لوگ زندہ ہوتے ہیں تو اس طرح بات کرتے ہیں۔ جب ہم ان کا کلام منتقل کرتے ہیں تو ہم واسطہ بن جاتے ہیں جس سے حجاب حائل ہوجاتا ہے البتہ اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔ ہمارے لئے بھی یہ ضروری ہے۔
البتہ ان کی باتوں میں موجود وہ صفا اور معنویت نہیں ہوگی جو ان کی حیات میں تھی۔ ہمیں اس کمی کو پورا کرنا چاہئے مگر کیسے؟ ہمیں چاہئے کہ ان کی باتوں کو مضبوط اور مدلل انداز میں نقل کریں۔ مناسب عبارت اور الفاظ انتخاب کریں اور مخاطب کی ذہنی سطح کے مطابق بیان منتقل کریں کیونکہ ایک طالب اور غیر تعلیم یافتہ انسان میں فرق ہوتا ہے۔ جوان اور عمر رسیدہ انسان میں فرق ہوتا ہے۔ ان میں سے ہر کسی کا اپنا ذوق ہوتا ہے جس کی رعایت کرنا چاہئے۔ اگر اس کانفرنس کے مقاصد کی تکمیل چاہتے ہیں تو ان نکات کی رعایت کریں۔
آقا ناصری سلف صالح کے سلسلے کا ایک فرد تھا یعنی ان لوگوں کے زمرے میں آتے تھے جن کا ہم نے نام سنا تھا۔ انسان ان کی محفل سے استفادہ کرتا تھا۔ ان کی نشست معنوی لذتوں سے پر ہوتی تھی۔
معمولی بات کرتے تو بھی انسان کے لئے قابل استفادہ ہوتی تھی۔ ہمیں کئی مرتبہ ان کی خدمت میں حاضری کا موقع ملا تھا۔ آقا ناصری نے مرحوم آقا سید جمال سے کسب فیض کیا تھا۔ شاید انہوں نے کہا تھا کہ ان کے والد سید جمال کے دوستوں میں سے تھے یا انہوں نے بھی سید جمال سے کسب فیض کیا تھا۔ مرحوم سید جمال جب فوت ہوئے تو آقا ناصری دس سال کے تھے پس ممکن ہے انہوں نے مرحوم سید جمال کو درک کیا ہو۔
مرحوم آقا ناصری سے ایک جملہ کئی مرتبہ سنا ہے۔ جب میں ہسپتال میں تھا تو وہ عیادت کے لئے آئے تو میں دوبارہ تکرار کرنے کی درخواست کی۔ بہرحال آقا ناصری ہمارے لئے غنیمت تھے مخصوصا اصفہان کے لوگوں کے لئے جو ان کی ممبر کے پاس بیٹھ کر براہ راست استفادہ کرتے تھے۔
امید ہے کہ ان جیسی شخصیات لوگوں کے لئے مفید قرار پائیں۔ زمانہ ان جیسے لوگوں سے خالی نہیں ہے ان کو تلاش کرنے اور استفادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالی ان کے درجات کو بلند کرے اور آپ لوگوں کو اپنے حفظ و امان میں رکھے اور یہ کانفرنس مفید واقع ہوجائے۔