تاریخ شائع کریں2025 9 January گھنٹہ 16:44
خبر کا کوڈ : 663698

یورپ کے مفادات اور شام کا غیر یقینی مستقبل

تحریر الشام ظاہری طور پر شام پر قابض ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ شام کے مختلف حصے روس سمیت دیگر ممالک کے زیر اثر ہیں
یورپ کے مفادات اور شام کا غیر یقینی مستقبل
تنظیم و ترتیب: علی واحدی 

مغربی ممالک کے رہنما دمشق کے سفارتی اور سیاسی دورے کر رہے ہیں جن کا مقصد شام میں موجودہ صورتحال کو قریب سے دیکھنا ہے۔ جولانی تحریر الشام کو امن پسند کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ شام میں تحریر الشام کے قبضے اور مغرب کے نقطہ نظر کے بارے میں مشرق وسطیٰ کے امور کے ماہر اور ایرانی تجزیہ کار سید جلال ساداتیان نے مقامی خبر رساں ادارے سے گفتگو میں کہا ہے کہ تحریر الشام ظاہری طور پر شام پر قابض ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ شام کے مختلف حصے روس سمیت دیگر ممالک کے زیر اثر ہیں، اسی طرح وہاں ترکی اور اسرائیلی حکومت بھی موجود ہے، لہذا سنجیدگی سے یہ کہنا ممکن نہیں ہے کہ تحریر الشام مکمل طور پر شام پر حاوی ہے اور اقتدار پر ان کا قبضہ مکمل ہو گیا ہے، اس بارے میں تفصیل اور یقین سے بات کرنا ابھی قبل از وقت ہے۔ انہوں نے تحریر الشام گروپ کی سرگرمیوں اور تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان لوگوں کی ایک تاریخ جبہۃ النصرہ ہے، پھر داعش ان کے دلوں  کو بھا گئی اور یہ لوگ القاعدہ میں رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مذکورہ گروپوں کو یورپ اور امریکی دہشت گرد گروہ کے طور پر جانتے ہیں لیکن جولانی کچھ برسوں سے ادلب میں مقیم تھے، یعنی جب داعش پر قابو پا لیا گیا اور جہادی اور تکفیری قوتوں کو وہاں سے بے دخل کیا گیا تو ان کی باقیات ادلب چلی گئیں اور حلب میں آباد ہو گئیں۔ آستانہ مذاکرات  کے دوران ترکی نے ان کو کنٹرول کرنیکی حامی بھری اور ساتھ ہی اس بات کا خیال رکھا کہ ان کی سلامتی خطرے میں نہ پڑے، لیکن بالکل اس کے برعکس ترکی نے آرمینیا کے خلاف آذربائیجان کی افواج کے حق میں بھی ان دہشت گرد گروپوں کو استعمال کیا۔ سابق  ایرانی سفارت کار نے مزید کہا ہے کہ وہ گروپ جو اب دارالحکومت دمشق اور اقتدار پر قابض ہے، وہ اپنے آپ کو  ایک سابق دہشت گرد گروہ کے طور پر پیش نہیں کرنا چاہتا، یہی وجہ ہے کہ ہم نے دیکھا کہ الجولانی دنیا کو پیغام دینا چاہتا ہے کہ ہم جمہوریت پسند ہیں اور ساتھ وہ ملک پر مکمل کنٹرول ظاہر کرنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔

سابق سفارت کار کا کہنا تھا کہ اسی لئے تحریرالشام کی جانب سے انتہا پسند تکفیری گروہوں کو اس طرح کنٹرول میں دکھایا ہے کہ وہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے روضہ مبارک جیسے مقامات پر جائیں یا کرسمس کے درخت کو جلائے جانے اور ترطوس میں گڑبڑ ہو، ان معاملات کو بات چیت کے ذریعے حل کریں اور ظاہر کرسکیں کہ ہم نے محاذ آرائی کی بجائے سفارت کاری اور مذاکرات کے ذریعے مسائل اور تنازعات کے حل کا راستہ چن لیا ہے۔ ان طور طریقوں سے مغرب کے لیے امیدیں پیدا کرنیکی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس کے ساتھ  دنیا کا ایک رجحان بھی بن گیا ہے اور جولانی تیزی سے سفارتی ملاقاتیں کر رہے ہیں، جیسا کہ عبوری وزیر خارجہ بھی عربی اور مغربی حکام کیساتھ بات چیت کر رہے ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ تحریر الشام کو ایک امن پسند اور نارملائزڈ گروپ کے طور پر پیش کریں تاکہ بااثر اور اہم ممالک کیساتھ مل کر شام کے مستقبل کا تعین کر سکیں۔ ساداتیان کہتے ہیں کہ تحریر الشام طالبان کے تجربے سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور دہشت گردی کے عنوان اور لیبل سے تیزی سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

سابق سفارت کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں، وہ سخت اور غیر انسانی رویوں کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں، خاص طور پر خواتین کے خلاف، تاکہ عبوری حکومت امن قائم کر کے دکھا سکے۔ دوسری جانب ان کا کہنا تھا کہ ریاستی ڈھانچے کی تعمیر نو میں تین سال لگیں گے اور انتخابات چوتھے سال میں ہوں گے اور انہیں چاہیے کہ وہ تمام  صوبوں سے منتخب افراد کی ایک کانفرنس منعقد کریں اور ہر صوبے سے 100 افراد کو بلائیں اور آئینی مسودہ تیار کرنے کے لئے ان میں سے لوگوں کا انتخاب کریں۔ فرانس اور جرمنی کے وزرائے خارجہ کے دورہ شام اور جولانی سے ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مغربی ممالک نے شام میں جو کچھ ہو رہا ہے اپنی آنکھوں سے اس کی تصدیق کرنے اور حقیقی منظر نامے کو قریب سے دیکھنے کے لئے وفود بھیجے ہیں اور میری رائے میں یورپیوں کی طرف سے جولانی کے دعووں اور موقف کے بارے میں  مفروضات کو رائے میں بدلنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ بہرحال عبوری حکومت کے عہدے دار یورپ اور امریکہ کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ عبوری حکومت کا ساتھ دیا جائے اور پابندیاں ختم  کی جائیں۔

شام میں عبوری حکومت کو تسلیم کرنے، اس ملک کے خلاف پابندیوں کے خاتمے اور یورپی ممالک کے سفارت خانوں کو دوبارہ کھولنے کے حوالے سے سابق سفارت کار کا کہنا تھا کہ انہوں نے اعلان کیا  ہے کہ ہم جو آئین لکھنا چاہتے ہیں اس میں تین سال لگیں گے، لیکن اس حکومت اور دیگر معاملات کو تسلیم کروانے کے عمل کا تعلق مستقبل میں ہونے آنیوالی تبدیلیوں  سے ہے، اگر تحریر الشام گروپ یہ چاہتا ہے تو انہیں ملک مین استحکام پیدا کرنا ہوگا، اگر زیادہ دیر لگ گئی اور افراتفری میں انتخابات ہوئے تو کوئی بھی نہیں جیتے گا، لیکن یہ دیکھنا باقی ہے کہ آئین کیسے آگے بڑھے گا اور کیا اس عرصے کے دوران مختلف شامی گروہوں کے درمیان تصادم رک جائیگا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ میرا ماننا ہے کہ جولانی اتنے کم وقت میں عبوری حکومت کو تسلیم کروانے اور سفارت خانوں خصوصا یورپی ممالک کے سفارت خانوں کو دوبارہ کھلوانے کے معاملے کو حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اس سوال کے جواب میں کہ کیا یورپیوں نے اب تک کی تگ و دو کے بعد جولانی پر بھروسہ کرنیکا فیصلہ کر لیا ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں وہ اس سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں، جب یورپی وفد شام جاتا ہے تو وہ خطے اور شام میں اپنے مفادات کی تلاش میں ہوتے ہیں، ویسے بھی ایک زمانے میں فرانس نے سائکس پیکوٹ معاہدے کی بنیاد پر شام اور لبنان پر حکومت کی تھی، شاید اب وہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ صورتحال کے دوران خطے میں ان کے پاس اپنے مفادات کو مزید فروغ دینے کا موقع  میسر ہے، انہیں شام  میں ہونیوالی پیش رفت اور حقائق کیساتھ اپنے آپ کو ایڈجسٹ کرنا چاہئے، اس کے ساتھ ساتھ یہ دیکھنا بھی باقی ہے کہ ترکی، امریکہ اور روس شام میں جو کچھ کر رہے ہیں، کیا یہ سب کچھ شام میں ہونیوالی کسی پیش رفت کو پرامن طریقے سے آگے بڑھنے کی اجازت دے گا یا یہ ملک مزید کسی تنازعے کی طرف بڑھے گا۔
https://taghribnews.com/vdchwxn-623n--d.4lt2.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ