ایسا معاشرہ نہ صرف یہ کہ کسی بھی ظالم اور جابر کی دھونس اور دھمکی کو قبول نہیں کرتا بلکہ وہ احکامات الہی کی تکمیل میں کسی مصلحت کا شکار ہوتا۔ اس معاشرے میں بسنے والے افراد بصیرت کے حامل ہوتے ہیں۔ یہ وہی افراد ہیں جن کا تعارف سورہ عصر خسارہ میں مبتلا افراد کے مدمقابل کروارہی ہے کہ صرف وہ لوگ خسارے میں نہیں ہیں جو ایمان لائے، اعمال صالح انجام دیتے ہیں ...
ان لوگوں کا مقصد یہ ہے کہ فلسطینی عوام کے جائز حق سے ان کو دستبردار کر دیا جائے اور جو کچھ 76 سالوں سے صیہونیت نے فلسطینیوں کے خلاف، مصریوں، لبنانیوں، شامیوں اور خطے کی دیگر اقوام کے ساتھ ظلم روا رکھا ہے، اس پر خاموشی اختیار کی جائے۔
اس وقت فریضہ "بصیرت" کے ساتھ حق کے پرچم کو سربلند رکھنا اور جدوجہد کو جاری رکھنا ہے۔ یہ جدوجہد سیاسی، سماجی، معاشی اور عسکری ہر میدان میں ہونی چاہیئے۔ اس میں شک نہیں کہ جیت بہرحال حق کی ہونی ہے
صیہونیوں کے فوجی اخراجات میں اضافے کے نتیجے میں صیہونی معیشت بری طرح کمزور پڑ چکی ہے۔ فوجی اخراجات کو پورا کرنے کے لیے تل ابیب نے ٹیکس کی شرح بھی بڑھا دی ہے جو خود اسرائیل کے معاشی بحران کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
حزب اللہ لبنان نے ایک بار پھر شام، وہاں کی عوام اور اس کی سرزمینی سالمیت کی مکمل حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے اسرائیل کی جانب سے شام کی سرزمین پر قبضے اور جارحیت کی شدید مذمت کی ہے۔
شہید سید حسن نصراللہ نے دس محرم 2014 کے اپنے خطاب میں ظہور اور اس سے متعلق شخصیات جیسے سفیانی کا خروج اور سید خراسانی کے بارے میں اظہار خیال کیا تھا جس کے نکات مدرجہ ذیل ہیں
جنگ بندی معاہدے کی کامیابی کا اندازہ لگانا ابھی قبل از وقت ہے اور ہمیں یہ دیکھنے کے لیے انتظار کرنا ہوگا کہ صورت حال کہاں تک پہنچے گی۔" ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ لبنان کی صورت حال غزہ سے مختلف ہے اور سب سے اہم فرق حزب اللہ کی فوجی طاقت ہے۔
آج علی الصبح اسرائیلی میڈیا نے الارم سائرن کی آواز اور مقبوضہ فلسطین کے جنوب میں ڈرون حملے کے امکان کی اطلاع دی اور بعض ذرائع نے اردن کی سرحد کے قریب متعدد دھماکوں کی آوازیں سننے کی بھی اطلاع دی۔
صیہونی ذرائع ابلاغ نے نیتن یاہو اور غاصب رجیم کے سیکورٹی اداروں سے کہا ہے کہ اگر حزب اللہ کی جانب سے کسی اہم اور اسٹریٹجک ہدف کو نشانہ بنایا گیا ہے تو وہ سید حسن نصر اللہ کی تقریر سے قبل اس کا اعلان کردیں تاکہ ان کی ساکھ متاثر نہ ہو۔
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے جاپان کے این ایچ کے چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے مزید کہا کہ اسرائیل کی فوجی کارروائیاں اس طرح سے کی گئی ہیں کہ شہری متاثرین کی تعداد اور شہری انفراسٹرکچر کی تباہی غیر معمولی حد تک زیادہ ہے۔
مارے دور میں ایسے مفکر اور نظریہ پرداز موجود ہیں جو دشمن کی سازش کا شکار ہوگئے ہیں اور ان کو اسلام میں جذب کرنا مشکل ہوگیا ہے اس لئے ان سے اسلام اور مسلمانوں کے فائدہ کے لئے کام لینا ممکن نہیں ہے