تقریب نیوز (تنا): معروف دفاعی تجزیہ نگار لیفٹیننٹ جنرل (ر) امجد شعیب، خارجہ پالیسی کے موضوعات پر بھی دسترس رکھتے ہیں۔ شاندار فوجی کیرئیر کے بعد آپ فوجی فرٹیلائزر کمپنی کے چیف ایگزیکٹو بھی رہ چکے ہیں۔ مختلف ٹی وی چینلز پر دفاعی تجزیہ نگاری اور فارن پالیسی سے متعلق مباحثوں میں اکثر شریک ہوتے ہیں۔ فلسطین فاؤنڈیشن کے تحت اسلام آباد میں منعقدہ فلسطین کانفرنس کے موقع پر اسلام ٹائمز نے لیفٹیننٹ جنرل (ر) امجد شعیب کے ساتھ مسئلہ بلاد شام اور یوم القدس کے موضوع پر گفتگو کی ہے، جس کا احوال پیش خدمت ہے۔
دور حاضر میں جہان اسلام کے سلگتے مسائل میں فلسطین کی بجائے شام سرفہرست ہوچکا ہے، اس مسئلے کے پس منظر پر روشنی ڈالیں۔؟
شام میں باغی قوتیں برسر پیکار ہیں، جنہیں مغربی ممالک کی حمایت حاصل ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ مسلمان ممالک جن میں سعودی عرب اور ترکی وغیرہ شامل ہیں، بھی اس جنگ میں شام کے خلاف ہیں۔ ترکی اب آکر خود کو اس معاملہ سے لاتعلق کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسی طرح اردن بھی مغربی ایماء پر اس جنگ میں شام کے خلاف کام کر رہا ہے۔ ایک فرقہ واریت کی فضا قائم ہوگئی ہے۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا، تازہ ترین خبریں جو موصول ہو رہی ہیں ان کے مطابق، فلسطین کی تحریک مزاحمت میں حزب اللہ کا ایک اہم کردار تھا، حزب اللہ اسرائیل کے لئے ایک بہت ہی بڑا خطرہ تھا۔ ان کے لوگ انتہائی تربیت یافتہ ہیں اور وہ فلسطینیوں کو بھی تربیت دیتے رہے ہیں۔ لیکن اب جب حزب اللہ نے بشار الاسد کی طرف شام کے معاملہ میں مداخلت کی تو شواہد ایسے ملے ہیں کہ حماس میں سے کچھ لوگ نکل کر فری سیرین آرمی میں شامل ہوگئے ہیں۔ اب یہ وہ صورتحال ہے جس میں فلسطین کی آزادی کی آخری امید، مسلمانوں کا آخری محاذ حزب اللہ اور حماس کی شکل میں موجود تھا، وہ مجھے ٹوٹتا ہوا نظر آرہا ہے، جو انتہائی دکھ کی بات ہے۔ مسلمانوں کے مقابل تمام برسر پیکار قوتیں اس وقت آپس میں باہم متحد ہیں۔
قرآن و نبی (ص) ایک ہیں، تو آپ کم از کم ان چیزوں پر تو اتحاد رکھیں۔ لیکن شام میں یہ صورتحال ہمیں نظر نہیں آتی، جس کی وجہ سے وہاں ایک خانہ جنگی کا عالم ہے، خون خرابہ ہو رہا ہے۔ اس معاملہ میں مسلمانوں کی ذمہ داری تھی کہ اگر شام میں بشار الاسد اور باغیوں میں خانہ جنگی کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا تو کیا عرب لیگ اور اسلامی کانفرنس اس معاملہ میں فریقین کو بٹھا کر کوئی فیصلہ نہیں کروا سکتے تھے۔؟ مسلمانوں کا اندرونی معاملہ ہے، اس میں اقوام متحدہ کیوں مداخلت کرے۔ کیوں اس میں مغربی قوتیں مداخلت کریں۔ کیوں ہمسایہ ممالک اور روس و چائنا مداخلت کریں۔ ہمارے اپنے ادارے موجود تھے، اسلامی کانفرنس موجود تھی، عرب لیگ موجود تھی، ان لوگوں نے اپنی ذمہ داری پوری کرنے کی بجائے انہوں نے مختلف قوتوں کے ساتھ بلاک بنا لئے اور ایک دوسرے کے مخالف ہوگئے، جس سے مسلم امہ کا اتحاد پارہ پارہ ہو کر رہ گیا۔
میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان سے بھی چند لوگ شام روانہ ہوئے ہیں، اس حوالہ سے کیا کہیں گے۔؟
وہ طالبان کے حوالہ سے کہا جا رہا ہے۔ لیکن طالبان تو وہ ہیں جو ہمارے بھی دشمن ہیں۔ میں تو ان کو صحیح مسلمان یا اس لحاظ سے پاکستان کا چہرہ نہیں سمجھتا، وہ تو پاکستان کے چہرے کو مسخ کرنے کے درپے ہیں۔ ان کا کردار ہمارے سامنے ہے کہ انہوں نے تو پاکستان میں بھی انتشار پھیلایا ہے۔ طالبان کو تو میں ان قوتوں کے زمرے میں تصور کرتا ہوں، اس لائن میں کھڑا کرتا ہوں، جہاں شام میں باقی انتشار پھیلانے والے لوگ ہیں۔
آج فلسطین فاؤنڈیشن نے عالمی فلسطین کانفرنس کا انعقاد کیا، اسی طرح رمضان المبارک کا آخری جمعہ یوم القدس کے طور پر منایا جائے گا، یہ تمام اقدامات فلسطینی کاز کے لئے کس حد تک کارگر ثابت ہوسکتے ہیں۔؟
فلسطینی کاز میں محدود حد تک کارگر ثابت ہوں گے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اجتماعی سوچ کو نہیں بدلا گیا، اس اجتماعی سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ لیکن محدود حد تک ان کا یہ فائدہ ضرور ہے کہ ہم نے ایک ایشو کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ اگر ان مسائل کے نام لیوا بالکل ختم ہوجائیں تو پھر یہ معاملہ سرد خانے میں پڑ جائے، مکمل طور پر بھلا دیا جائے۔ اگر القدس ڈے نہ منایا جائے تو آپ دیکھ لیں کہ اس ملک میں بھی ہم جو اسلام کے نام پر آواز اٹھاتے ہیں، وہ آواز بھی ختم ہوجائے گی۔ ان اقدامات سے آئندہ آنے والی نسلوں کو فلسطین کے مسئلے کے بارے میں شعور ملتا ہے۔ وہ جان پاتے ہیں کہ ہمارے اسلاف کیا ہیں اور ہماری جدوجہد کیا ہے۔ اگر یہ دن بھی ہم منانا چھوڑ دیں تو پھر سب کچھ ختم ہو جائے گا، پھر امت کا تصور بھی ختم ہو جائے گا۔
شام کا مسئلہ پوری امت مسلمہ کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے، اس کا کیا حل پیش کرتے ہیں۔؟
اس کا حل یہ ہے کہ ہم دو چیزیں ذہن میں رکھیں، ہمیں مسلمان ہونے کی حیثیت سے رب العالمین نے قرآن کریم میں انصاف کا درس دیا ہے۔ انصاف کو تقویٰ کے ساتھ جوڑا گیا ہے اور قرآن میں ارشاد باری تعالٰی ہے کہ اگر متقی بننا چاہتے ہو تو انصاف کرو۔ تو پہلی بات یہ کہ اس جھگڑے کے بارے میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنا ہوگا، اور پھر تمام ممالک جن میں مسلمان ممالک بھی شامل ہیں، انصاف کا ساتھ دیں۔ حق کا ساتھ دیں بجائے اس کے کہ مسلکوں اور تعلقات کا ساتھ دیں۔ ہمیں حق و انصاف کا ساتھ دینا چاہیے۔ اگر امت مسلمہ اس چیز کو اپنا شعار بنا لے کہ انہوں نے ہمیشہ حق کا ساتھ دینا ہے۔ تو تمام مسائل کا حل حق کی بنیاد پر تلاش کیا جاسکتا ہے۔
قبلہ اول بیت المقدس کی آزادی کے لئے یوم القدس ڈے کی مناسبت سے کیا پیغام دینا چاہیں گے۔؟
یوم القدس کے حوالہ سے ذاتی طور پر میرا پیغام یہ ہے کہ پاکستان کے اندر تمام مسالک کے لوگوں کو اس دن اتحاد و وحدت کے لئے خاص طور پر اہتمام کرنا چاہیے۔ مسلک کے اختلافات سے بہت بالاتر ہو کر ہمیں اسلام اور اپنے دین کی عظمت کی طرف توجہ کرنی چاہیے اور پوری دنیا کو یہ پیغام بھیجنا چاہیے کہ بے شک ہمارے مابین چھوٹے موٹے فروعی اختلافات ہیں، لیکن ہم بحیثیت مسلمان ایک ہیں اور پوری دنیا کے سامنے ایک مضبوط دیوار کی شکل میں کھڑے ہیں۔