تاریخ شائع کریں2013 31 July گھنٹہ 15:04
خبر کا کوڈ : 137142
محفوظ یار خان ایڈووکیٹ :

عالمی غنڈہ امریکا ہی مسئلہ فلسطین کے حل اور قدس کی آزای کے راستے میں رکاوٹ ہے

تنا (TNA) برصغیر بیورو
عوامی مسلم لیگ پاکستان صوبہ سندھ کے صدرکا انٹرویو دیتے ہوئے کہنا تھا کہ شام نے کوئی کردار ادا تو کیا ہے جس کی اس کو آجکل سزا دی جا رہی ہے۔ امریکا کے ساتھ جو بھی کھڑا ہوگا وہ دشمنِ اسلام ہے اور وہ اسلام کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ امریکا کا ساتھ دینا اسلامی فکر و سوچ کے منافی ہے۔
عالمی غنڈہ امریکا ہی مسئلہ فلسطین کے حل اور قدس کی آزای کے راستے میں رکاوٹ ہے

تقریب نیوز (تنا): محفوظ یار خان ایڈووکیٹ عوامی مسلم لیگ پاکستان سندھ کے صدر ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ فلسطین فاﺅنڈیشن پاکستان کی مرکزی ورکنگ کمیٹی کے فعال رکن کی حیثیت سے مسئلہ فلسطین کو اجاگر کرنے اور مظلوم فلسطینیوں کی حمایت اور انکو حقوق دلانے کیلئے سرگرم اور آواز بلند کر رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے محفوظ یار خان ایڈووکیٹ کے ساتھ مسئلہ فلسطین، یوم القدس بفرمان امام خمینی (رہ)، مسئلہ فلسطین کے حوالے سے اقوام متحدہ، امریکا، مغربی ممالک اور عرب ممالک کے کردار کے حوالے سے ایک مختصر نشست کی۔ اس موقع پر آپ کے ساتھ کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔

مغربی ممالک امریکہ کی سربراہی میں صیہونی حکومت کی بےجا حمایت کرتے ہیں، اسکے مظالم کی پشت پناہی کرتے ہیں، اسکے بارے میں آپکا کیا خیال ہے؟ 

امریکا مکمل طور پر یہودیوں کے ساتھ مل کر فلسطین کو ختم کرنا چاہتا ہے اور وہاں پر یہودیت کو طاقت کے ذریعے اسرائیل میں پروان چڑھا رہا ہے، جب تک امریکا اپنا رویہ غیر جانبدارانہ نہیں رکھے گا، مسئلہ فلسطین حل نہیں ہوگا۔ مغربی ممالک اپنے آپ کو دنیا میں سب سے زیادہ مہذب (civilized) اور انسانی حقوق کا چیمپئن سمجھتے ہیں۔ یہ سب ایک فراڈ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ مغرب کے حقوق کیلئے تو حقوق انسانی کا تحفظ ہو رہا ہے لیکن فلسطین سمیت دنیا بھر میں جن کے یہ حقوق اجاڑ رہے ہیں، پائمال کر رہے ہیں ان کے بارے میں یہ دنیا کیا کہے گی۔ مغرب کے یہ مہذب ہونے اور انسانی حقوق کے نعرے سب ڈھونگ ہیں۔ مغرب کو چاہیئے کہ اپنا قبلہ درست کرے اور امریکی ایماء پر صیہونیوں، یہودیوں کی ناجائز حمایت ختم کرے۔

عرب حکمرانوں کے صیہونی اور امریکی حکومت سے وابستہ مفادات انہیں فلسطین کی حمایت اور امداد سے روکتے ہیں، اس حوالے سے آپکا کیا خیال ہے؟ 

عرب حکمرانوں کے رویوں پر تو میں صرف صف ماتم ہی بچھا سکتا ہوں۔ امریکا اور مغرب عرب ممالک پر یہ تکیہ کرتے ہیں۔ اگر عرب ممالک اپنی دولت، تیل و دیگر وسائل کو روک دیں تو مہینے بھر میں امریکا اور مغربی ممالک سیدھے ہو جائیں گے۔ عرب ممالک امریکی و مغربی ممالک کی مصنوعات کی بہت بڑی مارکیٹ ہے، اگر یہ عرب ممالک امریکی و مغربی ممالک کی برانڈڈ اشیاء کا بائیکاٹ کر دیں تو امریکا و مغرب کی معیشت زمین پر آ جائے گی۔ ہم میں اتنی بھی اخلاقی جرات نہیں ہے کہ ہم یہودیوں اور ان کے سرپرستوں کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرکے ان کی معیشت کو ٹھیس پہنچائیں۔ بائیکاٹ کرنا تو دور کی بات ہے ہم تو انکے برانڈز کے پیچھے سب کچھ قربان کرنے کیلئے تیار ہیں۔ 

دیکھیں آپ نے بات کی مفادات کی، دنیا اور بین الاقوامی تعلقات میں ممالک کے ایک دوسرے کے ساتھ مفادات جڑے ہوئے ہوتے ہیں لیکن ہمیں مسئلہ فلسطین کو اپنے ذاتی مفادات کی نذر نہیں کرنا چاہیئے۔ ہمیں اپنے مفادات پر مسئلہ فلسطین اور قدس کی آزادی کو ترجیح دینا چاہئیے جو کہ عالم اسلام و انسانیت کیلئے سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ ہمیں اپنے مفادات کو قربان کرتے ہوئے قبلہ اول کی آزادی کو اہمیت دینی چاہئیے کیونکہ اسرئیل کے ناپاک قدم صرف فلسطین تک ہی محدود نہیں رہینگے بلکہ وہ خانہ کعبہ تک رسائی چاہتا ہے۔

مسئلہ فلسطین کے حل کے سلسلے میں اقوام متحدہ کے کردار کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں؟ 

بات بہت واضح ہے، اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اقوام عالم کا کردار خاموش تماشائی کا سا ہے، اقوام متحدہ امریکا کی لونڈی بنی ہوئی ہے۔ اگر اقوام متحدہ نے حقوق انسانی کے عالمی مسائل پر دوٹوک اور غیر جانبدارانہ موقف اختیار نہیں کیا تو وہ وقت دور نہیں کہ جب اقوام متحدہ کا حشر لیگ آف نیشنز کی طرح ہو جائے گا۔ میں اقوام متحدہ کی اس بات پر بھی مذمت کرتا ہوں کہ وہ ایک شخص، ایک فرد کیلئے تو عالمی سطح پر یوم منا لیتے ہیں، بڑے بڑے پروگرام کر لیتے ہیں لیکن مسئلہ فلسطین اور القدس کی آزادی کیلئے انہیں کبھی یہ توفیق نہیں ہوتی ہے کہ ان مسائل کو زیر بحث لا کر انہیں حل کرنے کی کوشش کی جائے۔

اتحاد امت نظر نہیں آتا جس کے بغیر مسئلہ فلسطین حل ہوتا نظر نہیں آتا، آپ اس حوالے سے کیا کہیں گے؟ 

ہم بڑے افسوس کے ساتھ یہ دیکھتے ہیں کہ امریکا جو بین الاقوامی غنڈہ ہے اس کی مسلمانوں کے خلاف بربریت اور سازشیں جاری و ساری ہیں۔ یہ امریکا ہی ہے جو دراصل مسئلہ فلسطین کے حل اور قدس کی آزادی کے راستے میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ مگر اتحاد امت مسلمہ کہاں ہے۔ مسلم ممالک کی غیرت و حمیت کہاں ہے۔ وہ امریکا کی سازشوں میں آ کر امریکی غنڈہ گردی پر نہ تو احتجاج کرتے ہیں اور نہ ہی اس کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں، نہ صف آراء ہوتے ہیں۔ نہ ہی مسلم ممالک او آئی سی اور اس جیسے دیگر اداروں میں اس بات کا تذکرہ کرتے ہیں۔ اس صورتحال پر جتنا افسوس کیا جائے وہ کم ہے۔ مسلم ممالک اور مسلم عوام کو چاہئیے کہ دامے درہمے سخنے فلسطین کاز کیلئے مدد فراہم کریں۔ فلسطین کیلئے عالمی فنڈ قائم کریں، فلسطینی مجاہدین کی مدد بھی کریں۔

حزب اللہ کی 33 روزہ اور غزہ میں حماس کی 22 روزہ جنگ میں اسرائیل کو شکست دینے میں شام کے کردار کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ 

دیکھیں میں مکمل طور پر شام کے کردار کے حوالے سے آشنا نہیں ہوں لیکن شام نے کوئی کردار ادا تو کیا ہے جس کی اس کو آجکل سزا دی جا رہی ہے۔

شام کی حکومت امریکی اور صیہونی ایجنٹوں کا تنہا مقابلہ کر رہی ہے اور اسرائیل کے حامی ممالک دنیا بھر سے شام میں امریکی جہاد کا حصہ بن رہے ہیں اس بارے میں آپکا کیا خیال ہے؟ 

دیکھیں امریکا کے ساتھ جو بھی کھڑا ہوگا وہ دشمن اسلام ہے اور وہ اسلام کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ امریکا کا ساتھ دینا اسلامی فکر و سوچ کے منافی ہے۔

آپکی نظر میں یوم القدس کی اہمیت اور اسکو منانے کے مسلم امہ پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟
 

مسلم امہ اس وقت غنودگی کے عالم میں ہے اور ہم یوم القدس منا کر اس کی غنودگی کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے جذبات کو بیدار اور ابھارنا چاہتے ہیں۔ مسئلہ فلسطین کے حل اور عالمی سطح پر اس مسئلہ کو اجاگر کرنے کے حوالے سے یوم القدس کی اہمیت سب سے زیادہ ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ یوم القدس مناکر امت مسلمہ کو بیدار کرنے کا سلسلہ جاری رہے گا اور انشاءاللہ یوم القدس منانے کی برکت سے امت مسلمہ اور عالمی ضمیر اب جلد ہی بیدار ہونے والا ہے۔ یوم القدس پوری دنیا میں مسئلہ فلسطین کو اجاگر کرنے کے سلسلے میں سب سے نمایاں کردار ادا کر رہا ہے۔ یوم القدس کے موقع پر پاکستان سمیت امت مسلمہ کا ہر فرد سڑکوں پر نکل کر اس بات کا اعلان کرے کہ وہ قدس کی آزادی تک اپنی جدوجہد جاری رکھے گا، صدائے احتجاج بلند کرتا رہے گا۔

آزادی بیت المقدس کی تحریک کو زندہ رکھنے میں رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو یوم القدس قرار دینے کے امام خمینی (رہ) کے پیغام کے حوالے سے آپ کیا کہنا چاہیں گے؟ 

امام خمینی (رہ) نے اس دنیا میں ایک ایسا انقلاب برپا کیا جس نے سوئی ہوئی ایرانی قوم کو جگایا اور ڈھائی ہزار سالہ شہنشاہیت کا تختہ پلٹ کر اس دور میں یہ سب کے سامنے یہ ثابت کر دیا کہ معجزے ہوتے ہیں۔ امام خمینی (رہ) کے یوم القدس کے فرمان کی ہم تائید کرتے ہیں اور تمام امت مسلمہ اور مظلوموں کے حامی تمام دنیا میں یوم القدس کے بھرپور طریقے سے منائیں۔ امام خمینی (رہ) کے یوم القدس منانے کے فرمان ہی باعث بنا کہ آج مسلم ہی کیا غیر مسلم ممالک میں بھی یوم القدس کے روز لاکھوں کروڑوں غیر مسلم مسئلہ فلسطین اور مظلوم فلسطینیوں کی حمایت میں سڑکوں پر نکل کر اسرائیل کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں اور خود اسرائیل کے سرپرست امریکا اور مغربی ممالک میں بھی یوم القدس کو جوش و خروش کے ساتھ منایا جاتا ہے اور لوگ یہ نہیں سوچتے کہ پیغام کس کا تھا بلکہ وہ یہ دیکھ رہے ہیں کہ پیغام کیا ہے۔ ہمیں چاہئیے کے فلسطین کاز کیلئے نیک نیتی کے ساتھ جدوجہد کو آگے بڑھائیں، اس کو جاری رکھیں اور قدس کی آزادی تک اپنی جدوجہد کو جاری رکھیں۔ امام خمینی (رہ) کا جو پیغام ہے مسئلہ فلسطین کے سلسلے میں اس کو ہم یہ نہیں جانتے کہ کس کا ہے بلکہ ہم اور تمام قوام عالم یہ دیکھتے ہیں کہ یہ کیا پیغام ہے۔ امام خمینی (رہ) کے پیغام کی افادیت کو سمجھتے ہوئے ہم یہ چاہتے ہیں کہ یہ پیغام آگے بڑھنا چاہئیے اور پوری دنیا میں اس پیغام کو پھیلا کر اس کی روشنی میں قدس کی آزادی کیلئے، فلسطین کی آزادی کیلئے جدوجہد کرنی چاہئیے۔ میں اس موقع پر یہ ضرور کہونگا کہ ہمارے میڈیا کے تمام دوست بھی یوم القدس کے موقع پر دنیا بھر میں اس کی بہترین کوریج کرکے مسئلہ فلسطین کے حل کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔

https://taghribnews.com/vdchkqnzi23nxzd.4lt2.html
منبع : اسلام ٹائمز
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ