تقریب نیوز (تنا): مولانا شیخ زاہد حسین زاہدی کا تعلق اسکردو کرسمہ تھنگ سے ہے اور آپ کا شمار اسکردو کے جید مبارز اور انقلابی علماء کرام میں ہوتا ہے۔ آپ نے دینی تعلیم حوزہ علمیہ قم سے حاصل کی ہے۔ قم سے فارغ ہونے کے بعد آپ لاہور میں امام جمعہ کی حیثیت سے خدمات بھی سرانجام دے چکے ہیں۔ اسکردو میں تمام انقلابی تحریکوں کے ساتھ آپ کی وابستگی مضبوط بنیادوں پر استوار ہے۔ آپ انجمن امامیہ بلتستان کے سابق سیکرٹری تعلیم بھی رہ چکے ہیں اور اس وقت انجمن امامیہ بلتستان کے سٹی صدر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ آپ الحکمت فاؤنڈیشن گلگت بلتستان کے انچارج ہیں۔ اسلام ٹائمز نے مسئلہ فلسطین کے حوالے سے مولانا شیخ زاہد حسین زاہدی سے ایک مختصر انٹرویو کیا ہے، جو محترم قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔
روز قدس کی اہمیت کے بارے میں آپ کیا کہنا چاہیں گے۔؟
روز قدس تاریخ میں نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ انقلاب اسلامی ایران کے آغاز میں ہی رہبر کبیر امام خمینی قدس سرہ نے ماہ مبارک رمضان کے آخری جمعہ کو روز جہانی قدس قرار دیا اور اس دن تمام قبلہ اول سے محبت کرنے والے جلوس نکالتے ہیں، سیمنارز اور کانفرنسز کا انعقاد کرتے ہیں اور امریکہ و اسرائیل کے خلاف ریلیاں نکالتے ہیں۔ امام خمینی (رہ) کی بصیرت ہے اور اس عمل نے ثابت کر دیا کہ آپ صرف ایرانیوں کے نہیں بلکہ عالم اسلام کے رہبر ہیں، امام خمینی (رہ) نے اپنے پیغام میں فرمایا تھا کہ یوم القدس صرف مسلمانوں سے مربوط نہیں بلکہ مستضعفین جہاں کا دن ہے، ہماری ذمہ داری ہے کہ اس دن کو نہایت عقیدت و احترام کے ساتھ منائیں۔
مسئلہ فلسطین میں عرب اسلامی ممالک کے کردار کو کس طرح دیکھتے ہیں۔؟
عرب ممالک کا کردار اگر اسلامی یا انسانی ہوتا تو اسلامی دنیا کو آج یہ دن دیکھنا نہ پڑتے، لیکن نام نہاد عرب اسلامی ممالک نے مسئلہ فلسطین کا ساتھ ہی نہیں دیا بلکہ فلسطین کاز کی ہمیشہ مخالفت کرتے رہے۔ اگر ساتھ دیتے تو فلسطین آزاد ہو جاتا، امام خمینی کے بقول اگر دنیا کے مسلمان ایک ایک بالٹی پانی اسرائیل پر بہا دیتے تو اسرائیل بہہ کر تباہ ہو جاتا۔ رہی بات عرب دنیا کی تو عرب دنیا نے نہ مسئلہ فلسطین کا ساتھ دیا ہے اور نہ ان سے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ آئندہ ساتھ دیں گے کیونکہ عرب ممالک میں حکمران امریکہ اور اسرائیل کی بیساکھی پر قائم ہے، یہ ممالک اسلام کے نام پر اسلام کے لئے دھبہ ہیں۔ عرب حکمران کبھی اپنے آقاوں کی خوشنودی کے برخلاف کام نہیں کرسکتا۔ ان کا دین، ایمان، قبلہ سب امریکہ بہادر ہے۔ ان کی تمام تر سرگرمیوں کی بنیاد امریکہ کی خوشنودی ہے۔ ہاں یہ لوگ مسئلہ فلسطین کو مزید الجھانے میں اپنا کردار ادا کریں گے اور اس کام کو جہاد سمجھ کر حصہ لیتے رہیں گے۔
شام میں جاری دہشت گردی کو آپ مسئلہ فلسطین سے جدا سمجھتے ہیں یا ایک ہی ہے۔؟
یہ امریکہ اور اسرائیل کی سازشوں کا ہی ایک حصہ ہے، شام میں دہشت گردی کے ذریعے امریکہ اور اسرائیل چاہتے ہیں کہ اقوام عام کی توجہ مسئلہ فلسطین سے ہٹ جائے، کیونکہ قرائن سے ایسا لگ رہا ہے کہ فلسطین کا مسئلہ اپنے منطقی حل کی طرف جا رہا ہے اور فیصلہ کن مرحلہ میں داخل ہوچکا ہے اور شام میں دہشت گردی کرکے، شام کی حکومت کو کمزور کرکے، ملت غیور ایران اور فخر اسلام حزب اللہ کو کمزور کرنے کے لئے شام میں آگ روشن کی گئی ہے۔ شام کی بھڑکتی آگ میں دنیا بھر کے دہشت گرد انشاءاللہ جل کر بھسم ہوجائیں گے اور شام کی سرزمین ان اسلام دشمن طاقتوں کے لئے رسوائی اور ذلت کی سرزمین ثابت ہوگی، اور ہاں شام کا مسئلہ مسئلہ فلسطین کا حصہ ہے، یہ جنگ دراصل آزادی قدس کی جنگ ہے۔ اس جنگ میں امریکہ و اسرائیل کے ٹکڑوں پر پلنے والوں کی شکست کے بعد یہ جنگ اسرائیل کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگی۔
جیسا کہ آپ نے کہا کہ مسئلہ فلسطین اپنے منطقی حل کی جانب گامزن ہے، آپ کے پاس اس کے دلائل کیا ہیں کہ مسئلہ فلسطین حل ہونے والا ہے۔؟
ظاہر ہے مسئلہ فلسطین کا منطقی حل اسرائیل کی نابودی ہوگی جو کہ قریب تر ہے۔ آج آپ دیکھیں تو عالم انسانیت میں اسرائیل کے خلاف نفرت میں نہ صرف اضافہ ہوگیا ہے بلکہ وہ اسرائیل کو غاصب سمجھنے لگے ہیں۔ اسرائیل سے زیادہ اس وقت نہ کوئی ملک خطرہ میں ہے اور نہ پریشانی کی کیفیت میں۔ اگرچہ اسرائیل کی پشت پر پوری مغربی دنیا ہے لیکن آپ دیکھیں گے کہ یورپی اور مغربی اقوام ایک ایک کرکے اسرائیل کو تنہا چھوڑتی جائینگی۔ فلسطین میں اسرائیل کی تمام تر کوششوں اور مظالم کے باوجود مزاحمتی تحریکوں کا زور پکڑتے جانا اس بات کی دلیل ہے کہ اسرائیل نہایت کمزور حکومت ہے۔ اسرائیل اپنے جدید ترین اسلحوں اور دنیا کی ویل ٹرینڈ فوج سے بھی مزاحمتی تحریکوں کو کچل نہیں سکا۔ ابتدا میں حزب اللہ نے سر اٹھایا اور اس طرح اٹھایا کہ عالم عرب کا سربلند کر دیا۔ دو ہزار چھ کی حزب اللہ اسرائیل جنگ نے ایک ماہ تین روز کے مختصر عرصہ میں اسرائیل کو انکی اوقات یاد دلا دی اور اسرائیل کے شکست ناپذیر ہونے کے خواب کو خاک میں ملا دیا جبکہ یہی عرب دنیا تھی کہ سب مل کر بھی اسرائیل سے چھ روز سے زیادہ جنگ نہیں لڑ سکی تھی۔ اب حزب اللہ نے طاقت ایمانی سے ان کو ناکوں چنے چبوائے اور القدس لنا کے نعرے سے اسرائیل کو واضح کر دیا کہ تمہارے دن تھوڑے ہیں، اب قدس پر ہمارا قبضہ ہونے والا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ لبنان کے بعد فلسطین میں نہتے جوانوں نے ٹینکوں کا مقابلہ غلیلوں سے شروع کیا، اب حماس کے جوان اس مقام پر ہیں کہ اسرائیل کی ہر قسم کی بربریت کا دندان شکن جواب دیں۔ لہذا اسرائیل کے دن تھوڑے رہ گئے ہیں۔